159

ماضی میں رہنے والا مستقبل کا شاعر

اکمل حنیف

جناب نوید صادق سے میرا پہلا تعارف تقریبا ایک سال قبل بابائے سخن قاری صادق جمیل صاحب نے فون پر کچھ ان الفاظ میں کروایا کہ جدید لب و لہجے میں منفرد اسلوب کے سینئر شاعر، کالم نگار، محقق اور نقاد بھی بہت سنجیدہ ہیں، انھیں بطور مہمانِ خصوصی مشاعرہ میں دعوت دینا۔ پھر 30 جنوری 2021 کو میرے گھر جناب نوید صادق سے پہلی ملاقات ہوئی۔ آپ مجھے بہت پیارے نفیس اور ہنس مکھ زندہ دل انسان لگے۔ اور پھر جب آپ کا کلام سنا تو مجھے آپ کچھ زیادہ ہی جدید لگے۔ آپ کے اشعار کی پرواز میری سوچ کے آسمان سے کہیں اوپر تھی۔ مجھ پر آپ کے اشعار نہ کھلے یا یوں کہہ لیں کہ مشاعرے میں مجھے آپ کے اشعار کچھ زیادہ متاثر نہ کر سکے۔ مشاعرے کے بعد میں سوچنے لگا،بابا جی نے کہا تھا، بہت اچھے شاعر ہیں مگر۔۔۔ میں نے آپ کی فیس بک وال پر آپ کی مزید شاعری پڑھی اور بار بار پڑھی تب مجھے سمجھ آئی کہ آپ کی شاعری مشاعروں میں واہ واہ سے کہیں آگے کی شاعری ہے۔ آپ کے اشعار تنہائی میں بیٹھ کر پڑھے جانے والے ہیں بلکہ دو تین بار پڑھنے کے بعد ہی قاری پر آپ کے اشعار کی پرتیں کھلتی ہیں اور پھر اس کے بعد قاری کو آپ جس زمانے میں لے جاتے ہیں اس میں ماضی اور مستقبل دونوں ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں۔ ماضی اس طرح کہ آپ اپنے معاشرے کی گم شدہ تہذیب و ثقافت، سماجی اقدار اور پرکھوں کے گزرے ہوئے خوبصورت لمحات کا ذکر کرتے ہیں بلکہ ان چیزوں کو لے کر آپ کے اشعار نوحہ گری کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور مستقبل اس طرح نظر آتا ہے کہ آپ کا اسلوب روایتی نہیں اور نہ ہی موجودہ دور میں جس طرح شعرائے کرام سادہ پیرائے میں سیدھی بات کرتے ہیں جن کو سن کر یا پڑھ کر فورا واہ تو نکلتی ہے مگر ایک دور بار پڑھنے اور سننے کے بعد وہ اشعار عامیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آپ کے اشعار کو جتنی بار پڑھا جائے گا مجھے پورا یقین ہے ہر بار قاری نئے اسلوب اور مضمون کا مزا لیتے ہوئے سر دھنتا ہوا ملے گا لیکن اس کے لیے تنہائی میں بیٹھ کر پڑھنا شرط ہے۔ جنابِ نوید صادق اپنی غزلوں میں خود کلامی کرتے ہوئے تجسس کی فضا قائم کرتے ہیں۔ آپ کے بہت سے اشعار اگلے زمانوں کے لیے ہیں۔ آنے والے وقتوں میں لوگ کہیں گے کہ نوید صادق ایک مستقبل شناس شاعر تھا، اس زمانے میں اس کے کہے اشعار آج بھی کئی صدیوں بعد ترو تازہ اور منفردہیں ۔ آپ نے اپنے اندر کی اداسی اور تنہائی کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا اور اپنی ہی ذات
سے گلے شکوے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں اپنی ذات سے مراد انسان یعنی پورا معاشرہ لیا گیا ہے۔میرے نزدیک شاعری برائے شاعری کا یا یوں کہہ لیں کہ صرف حسن و عشق کی شاعری کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی۔ شاعری میں معاشرے کی اصلاح کا پہلو بھی ہونا چاہیے یعنی شعر پڑھنے یا سننے کے بعد اگر کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوتی تووہ شاعری بس انٹرٹینمنٹ (Entertainment) ہے۔ نوید صادق کے ہاں آپ کو بے شمار ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں انسانوں کے بے ہنگم ہجوم کو ایک منظم معاشرے اور قوم میں تبدیل کرنے کی بات ہے ۔ جناب نوید صادق ہمیشہ ادب میں کچھ نہ کچھ سنجیدہ کرنے کی تگ و دو میں نظر آتے ہیں۔وہ جتنے اچھے غزل گو ہیں اتنی ہی اچھی نظم بھی کہتے ہیں۔
آپ کو دونوں اصناف پر ایک سی مہارت حاصل ہے۔ میں شعری مجموعہ”مسافت” کو اردو ادب میں ایک جاندار اور معیاری اضافہ سمجھتا ہوں اور پر امید ہوں کہ یہ سنجیدہ شعرائے کرام اور نقادوں کے ساتھ ساتھ ہر اچھا شعر پڑھنے والے کے دل و دماغ پر اپنا نقش جمانے میں کامیاب ہو گا۔ اور مجھ جیسے بہت سے ادب کے طالب علموں کو اس کے مطالعہ سے جدید اور نیا شعر کہنے کا سلیقہ ملے گا۔ میرے قاری سوچ رہے ہونگے کہ میں اتنے دعوں پر مبنی رائے کیسے قائم کر رہا ہوں تو احباب !میں ادب کا طالب علم ہونے کے ناتے اگر ان پر کچھ لکھنے کے قابل ہوا ہوں تو یہ ان کے شعری مجموعہ ”مسافت” کو پڑھنے بلکہ بار بار پڑھنے کی بدولت ہوا ہوں۔جناب نوید صادق کی ”مسافت”سے چند متنخب اشعار دیکھیے اوران کے منفرد شعری شعور کو داد دیجئے:
جو داغ دل پہ لگے تھے، وہ دھو کے آیا ہوں
میں خوش نصیب، مدینے میں رو کے آیا ہوں
…………
شکوہ کروں تو کس کا میں، رنج کروں تو کیا کروں
کون سمجھ سکا مجھے، کس کو سمجھ سکا تھا میں
…………
خود اپنی ذات کی ہیبت سے ڈر نہ جاں کہیں
مجھے کنویں سے نکالو کہ مر نہ جاں کہیں
…………
دیکھ، نوید! ٹھیک ہے، کوئی نہیں تھا آس پاس
پھر بھی کوئی ضرور تھا، جس نے گلا دبا دیا
…………
میں مر گیا تو کون مجھے روئے گا نوید
میرے سوا تو مجھ سا کوئی دوسرا نہیں
…………
ہمارا عہد غلط تھا کہ ہم غلط تھے نوید
قدم قدم پہ ہوا سانحہ ہمارے ساتھ
…………
بہت اداس ہوں، خود سے مکرنا چاہتا ہوں
میں اگلوں پچھلوں کی تردید کرنا چاہتا ہوں
…………
خدا نے آخری آواز دی تھی
میں اپنی سمت دوڑا آ رہا تھا
…………
میری آنکھوں نے کئی رنگ دکھائے تھے مجھے
میری آنکھوں میں فقط خواب نہیں، تو بھی تھا
…………
کہیں کہیں تو یونہی ذائقہ بدلنے کو
میں داستاں میں ترا ذکر چھیڑ دیتا ہوں
…………
خواہش کا طواف کر رہا ہوں
آواز میں چہرہ دیکھتا ہوں
…………
میں اپنی دھوپ لیے پھر رہا تھا گلیوں میں
ہزار شکر، مرا اس کا سامنا نہ ہوا
…………
یہ تماشا، تماشائی سب ٹھیک ہیں
میرا کردار آگے بڑھا ہی نہیں
…………
تم نے بھی سن تو لیا ہو گا مرے بارے میں
جی رہا ہوں میں کسی اور ہی سیارے میں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں