113

خوابیدہ حسن کی ملکہ سونا ویلی

شاہد محمود وڑائچ

سیرو سیاحت کے شوقین افراد کے لیے آزاد کشمیر کے ضلع بھمبرکی تحصیل سما ہنی کئی لحاظ سے ممتاز ہے۔ ایک طرف نارووال ، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات اور جہلم کے اضلاع کے لیے یہ ایک قریب ترین پہاڑی مقام کا درجہ رکھتی ہے تو دوسری طرف اس میں حضرت بابا شادی شہید اور حضرت پہاڑ بادشاہ جیسے بزرگوں کے مزارات اس کی روحانی انفرادیت کے نقیب ہیںجہاں پر زائرین کا ہر وقت ایک تانتا سا بندھا رہتا ہے۔ لوگ دور دراز کے علاقوں سے اپنی منتوں اور مرادوں کے حصول کے لیے وہاں آتے ہیں، منتیں مانتے ہیں اور اُن کے پورا ہونے پر بکرے قربان کرتے ہیں۔ یوں تووہاں روزانہ ہی سینکڑوں کی تعداد میں زائرین کا آنا جانا لگا رہتا ہے مگر خاص طور پر جمعرات کے دن اور دوسرے مذہبی تہواروں پر وہاں کا منظر دیدنی ہوتا ہے۔ گاڑیوں کی میلوں لمبی قطاریں اور لوگوں کا جوش و خروش ایک سماں باندھ دیتا ہے۔
سطح سمندر سے تقریباً ایک ہزار میٹر بلنداور پانچ یونین کونسلز( سماہنی ، خامباہ، پونا، چوکی ، بندالا باغ سر) پر مشتمل تحصیل سماہنی بھمبر شہر سے سترہ کلومیٹر دورشمال سے شروع ہو کر پیر گلی تک جا پہنچی ہے۔ اس میں شامل سنگڑھ ویلی، تونین ویلی، سونا ویلی،جنڈی چونترہ ، ڈب ، بندالا، چوکی ، بندی ، جنڈالا، پونا، چاہی، بروھ، ہری پور، جاجوہا، باغ سرقلعہ، رعیل ٹاپ، سندوعہ کراس واٹر مال ،خضر واٹر فال اور باغ سر لیک پر مشتمل اس وادی میں فطرت کا حسن جا بجا بکھرا پڑا ہے جو آنے جانے والوں کو خوب دعوت نظارہ دیتا ہے۔ جو ایک بار اس دلکش وادی کو دیکھ لیتا ہے، اُس کے قدم بار بار وہاں جانے کو بے تاب رہتے ہیں۔ وہاں کے باسیوں کی محبت آپ کو اپنی طرف کھینچتی رہتی ہے اور یوںکاروبار حیات میں زیست کے دلکش رنگ راہ پاتے رہتے ہیں۔ جال کی صورت وہاں کے جابجا بہتے ہوئے ندی نالوں اور قدرتی چشموں کا اپنا ایک سحر ہے، جن کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ادویہ جاتی پودے اور نایاب جڑی بوٹیاں ان سب سے سوا ہیں۔ وہاں کا وزٹ کرنے والوں کے لیے بہت سے ہوٹلز موجود ہیںجبکہ مختلف جگہوں پر بہت سے گیسٹ ہائوسز بھی زیر تعمیر ہیںجو آنے والے وقتوں میں ٹورازم کے حوالہ سے وہاں کی ترقی و خوشحالی کے غماز ہیں۔۔۔!
عید الفطر کی چھٹیوں میں عید کے دوسرے دن دوستوں کے ساتھ، بہت دنوں سے وہاں جانے کے لیے بنتے ہوئے پروگرام کی تکمیل کا وقت آ ہی گیا۔ علی الصبح دو گاڑیوں میں سوار ، نو افراد پر مشتمل کارواں وہاں جانے کو تیار تھا۔ چار ’’ ہیوی ویٹ‘‘ اور ’’ پانچ سمارٹ ‘‘ افراد پر مشتمل اس کاررواں کے لوگ وزن اور مزاج کے اعتبار سے دونوں گاڑیوں میںبیٹھ گئے اور ساتھ ہی ساتھ وہاں سیلف کوکنگ کے لیے ’’احمد دین ٹینٹ سروس‘‘ کے مالک و مختار جناب خالد بھٹہ صاحب کی نگرانی میں سامان رکھاگیا جبکہ دوستوں کو راستے میں ناشتہ کروانے کے حوالہ سے جناب امتیاز احمد ورک ، شبیر احمد سڈل ، امتیاز احمد کلو اور محمد نواز گھمن صاحب کی طرف سے لائے گئے چنے، روٹی، آملیٹ ، پراٹھا، لسی اور دودھ کی بوتلوں اور گڑ کے چاولوں کی شکل میں پہلے ہی سے گاڑیوں میں موجودچیزیں سب کو اپنی بھینی بھینی خوشبوسے اپنی طرف بلا رہی تھیں۔ تاہم اس کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ جو دو تین دوست گھر سے ناشتہ کر کے آئے تھے وہی سب سے زیادہ بھوک ظاہر کر رہے تھے اور جلدی ناشتہ کرنے پر پھر سے کمر بستہ تھے۔ ۔۔! بقول شخصے اُن کا ’’ تیز ہاضم معدہ‘‘ ’’ ایک گھنٹے کا گھیڑا‘‘ لگا کر پھر سے نئی مہم جوئی کے لیے مزید غذا کا طالب تھا۔طلب اور سیر کے انہوں خیالوں میں باہمی گپ شپ سے سیالکوٹ انٹرنیشنل ائیر پورٹ ، کلووال ، بنگلہ چوک، شہباز پور پل ، جلال پور جٹاں ، فتح پور،مہسم موڑ اور دولت نگر تک کے مقامات آتے اور گزرتے چلے گئے۔ ۔۔!
دولت نگر کے قریب واقع بزرگوال کے قصبہ میں رک کر وہاں سے پانی اور سافٹ ڈرنکس کی بوتلز خریدی گئیں تو ساتھ ہی ساتھ ’’ہن کرا وی دیو ناشتہ‘‘ ۔۔۔’’بڑی ہو گئی اے‘‘۔۔ روٹیاں ٹھنڈی ہو رہی ہیں۔۔۔ ’’بھوک لگ گئی ہے‘‘ ۔۔۔۔ ’’اے لگدا اے واپس ای لے کے جانا اے‘‘ ۔۔۔ کے جیسی ترغیب و طنز آمیز آوازیں بھی سننے کو ملیں۔ جنہوں نے صبور سے گزرتے وقت اور زور پکڑا جس کے نتیجہ میںکوٹلہ ارب علی خان کے دامن میں واقع ایک پٹرول پمپ کے خوبصورت لان میں ’’ناشتہ خوری‘‘ کا مظاہرہ شروع ہوا جس میں ’’بدنامی ہیوی ویٹ گروپ ‘‘کی ہوئی مگر عملاًمیدان ’’سمارٹ گروپ‘‘ نے مارا۔۔۔! اُدھر اگر ہیوی ویٹ گروپ کے سرخیل جناب امتیاز کلو صاحب اور خالد صاحب اپنی لے پر تھے تو ادھر سمارٹ گروپ کے نمائندہ جناب محمد نواز گھمن اور اظہر بٹ صاحب مقابلہ جیت رہے تھے۔۔۔!
’’ناشتہ خوری‘‘ کا یہ مظاہرہ جلد ہی ’’ہمہ خوری‘‘ میں بدل گیا اور بہت زیادہ نظر آنے والی روٹیاں و سالن اب خالی پلیٹوں کی شکل سب کو ان کی خوش خوراکی کی داد دے رہا تھا۔ جس کو مزید تقویت بعد میںوہاں کے ایک ہوٹل سے پی جانے والی اچھی چائے سے حاصل ہوئی۔ ناشتہ کے بعد وہیں کوٹلہ ارب علی خان سے پکانے کے لیے گوشت اور دیگر مصالحہ جات خرید ے گئے جسے بھمبر پل اور بازار سے لیے گئے تربوزوں اور پھلوں نے ’’مزید اعتبار ‘‘ عطاء کیا۔۔۔!
بھمبر، برنالہ اور سماہنی جیسی تین تحصیلوں کے حامل ضلع بھمبر کا ہیڈ کواٹر بھمبرشہر اپنی کشادہ وادی، خوبصورت مکانات ، بارونق بازاروں ، گاڑیوں کی مسلسل آمد و رفت اور خوبصورت موسم کا عنوان بنا ، اپنا دامن واء کیے ، سب کو اپنی طرف بلا رہا تھا اور بلا تاخیر کسی کو کھڑی شریف میں واقع میاں محمد بخش صاحب کے مزار کی طرف راہ دکھا رہا تھا تو کسی کی میر پور، کوٹلی، اور کسی کو جنڈی چونترہ کے راستہ چوکی و سماہنی کی طرف دھکیل رہا تھا۔ ۔۔!
بھمبرشہر سے نکلتے ہی، پہاڑوں کی شان، سانپ کی طرح بل کھاتے وہاں کے موڑ، مسلسل چڑھائی اور پہاڑ در پہاڑ سلسلوں کی صورت فطرت کے حسن اوررعنائی کے مرقع پوری طرح سے اپنا رنگ دکھا رہے تھے جس کا اثر سب کے اعصاب پر بہت اچھے انداز میں ظاہر ہو رہا تھا ۔ماسوائے اظہر بٹ صاحب کے زرد پڑتے چہرے کے، سب کے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے۔ ایک تو امتیاز کلو صاحب نے ’’بڑی ہوشیاری‘‘ سے اُن سے فرنٹ سیٹ چھین لی تھی اور دوسرے وافر مقدار میں کھائی جانے والی متضاد الخصوصیات غذائی اشیاء نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا تھا۔ جس کو وہاں کے موڑ در موڑ پہاڑی سلسلے مزید طرح دے رہے تھے۔ اس کا نتیجہ جلدی ہی سڑک کنارے اُن کی ’’آہ و بکاہء‘‘ اور ’’اخراج مال و متاع‘‘ کی صورت میں ظاہرہوا۔۔۔ تاہم ایک بار پھر سے فرنٹ سیٹ پا کر اُن کا دماغی و معدہ جاتی بوجھ کچھ ہلکا ہوا اور وہ بتدریج پر سکون ہوتے چلے گئے۔۔۔!
دن کے اولین پہر کے اجالے میں جنڈی چونترہ سے ’’ دربار حضرت بابا شادی شہید ‘‘ کی طرف راہنمائی کرتا ہوا سائن بورڈ بہت بھلا لگ رہا تھا۔گاڑی کی رفتار سے کہیں زیادہ تیز خیالات پندرویں صدی میں شہنشاہ بابر کے دور حکومت تک جاپہنچے جہاں گورپال چند؍گوپا چند کا بیٹا دھرم چند چب اپنے باپ کی وفات کے بعد راجہ شاداب خان کے ٹائٹل سے کشمیر کے گورنر کے طور پر بطور حکمران اپنے مہربان، انصاف پرور اور عوام دوست طرز حکمرانی سے عوام الناس کی آنکھوں کا تارہ بنا بیٹھا تھا۔تاہم حکمرانی سے کہیں بڑھ کر اس کی شہرت ایک صوفی بزرگ کی تھی جس کے قبول اسلام نے بے شمار لوگوں کے لیے ظاہری و باطنی انقلاب کی راہ ہموار کر دی تھی۔۔۔! بعد میںوہ اپنوں کی سازشوں سے شہید ہوکر، وقت کے ساتھ ساتھ’’ بابا شادی شہید ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ پہلے پہل تو صرف چب خاندان انہیں اپنے لیے باعث برکت قرار دے کر اپنے بچوں کو ان کے مزار پر لے جاکر مختلف رسومات سے ان کے دامن سے نسبت دیتا رہا تاہم بعد میںان کا مزارہر خاص و عام کے لیے جائے فیض بن گیا اور آج کل بے اولاد جوڑے اولاد نرینہ کے لیے وہاں منتیں مانتے ہیں اور ان کے پورا ہونے پر بکرے وغیرہ قربان کرتے ہیں۔۔۔!
( جاری ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں