111

’’اندھی گولیاں‘‘

خواجہ آفتاب حسن

80ء کی دہائی میں روس افغان جنگ کے نتیجے میں جہاں ملک میں لاکھوں افغان پناہ گزین آئے وہاں ان کے ساتھ منشیات اوراسلحہ بھی یہاں پہنچا۔جس کے باعث پاکستان میں منشیات فروشی اورمنشیات کا استعمال بڑھنے کے علاوہ کلاشنکوف کلچر بھی متعارف ہواجو وقت کے ساتھ ساتھ اس قدر پروان چڑھا کہ ہرگلی اورمحلے میں کبھی ایک دوسرے پر اوراکثر وبیشتر ہوا میں گولیاں چلاکر اسلحے کی ’’ کوالٹی ‘‘ چیک ہونے لگی۔پاکستان کے بڑے شہروں میں ناجائز اوربغیر لائسنس اسلحہ کی اس قدر بہتات ہوگئی کہ دیرینہ دشمنیوں کی ساتھ ساتھ نئی دشمنیاں بھی جنم لینے لگیں۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ صوبائی دارالحکومت لاہورجیسے شہر کے مختلف علاقوں میںشادی بیاہ کے علاوہ رات کے اوقات میں ہوائی فائرنگ معمول بن گئی ۔ہرروز نامعلوم سمت سے آنے والی اندھی گولی کسی نہ کسی معصوم کوموت کی بھینٹ چڑھادیتی ۔لوگ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں تھے ،چھتوں پر سوئے متعدد افراداندھی گولیوں کانشانہ بن جاتے ۔پولیس روایتی ورسمی کارروائی کے بعد مقدمہ درج کرتی اوراپنی بے بسی ظاہر کرکے چلی جاتی ۔مظلوم خاندان خون ناحق کے خلاف انصاف کے لیے اپنا معاملہ اللہ کی عدالت پرچھوڑ دیتا۔کچھ عرصہ بعد پھر ایسا کوئی واقع ہوتا ،تھوڑا شوراٹھتا، احتجاج ہوتا لیکن نہ تو کبھی کسی اندھی گولی کی سمت کاتعین ہوسکا ،اسے چلانے والا گرفتار ہوسکا اورنہ ہی ناجائز اسلحے کاخاتمہ ۔
80ء کی دہائی تک لاہورکے مضافات میں لہلہاتے کھیت پاکستان کے زرعی ملک ہونے کا ثبوت تھے ۔ہمارے ہاں پیدا ہونے والی گندم ،کپاس اورمختلف اجناس اپنی کوالٹی کے باعث دنیا بھر میں نہ صرف پسند کی جاتی تھیں بل کہ ان کی خاصی ڈیمانڈ بھی تھی۔ضیاء دور کے خاتمے اور ملک میںسیاسی ، جمہوری و پارلیمانی نظام حکومت کی بحالی تک منشیات فروشی اورہماری نوجوان نسل میںہیروئن وغیرہ کا استعمال خاصا بڑھ چکا تھا ۔دیرینہ دشمنیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی مخالفتیں دشمنیوں میںبدلنے کے باعث اسلحہ کلچر عام ہوچکا تھا۔دیگر شہروں اوردیہات وغیرہ سے آبادی کی بڑے پیمانے پر لاہورمنتقلی کا سلسلہ زور پکڑ چکا تھا۔فصلوں کے لیے پانی کی فراہمی میںکمی ،بیج اورکھاد وغیر ہ کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے پیداواری اخراجات میں اضافے سے زمیندار کی آمدن میں کمی آنا شروع ہوگئی ۔زراعت کو بچانے میں حکومتوں کی عدم دلچسپی ،زمیندار اور کسان کو کاشت کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی میں ناکامی اورمل مالکان کا گٹھ جو ڑ کھیت مزدور کی بے بسی کامنہ چڑانے لگی ۔ابتداء میں زرعی زمینوں پرفیکٹریاں لگائی جانے لگیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کاروبارکی شکل بھی بدل گئی ۔ ان زمینوں پر ہائوسنگ کالونیاں بنانے کارجحان بڑھنے لگا اورلاہورکے مضافات میں لہلہاتے کھیت رفتہ رفتہ کم ہوناشروع ہوگئے۔صورت حالات اب یہ ہے کہ چوبرجی اوریتیم خانہ سے آگے جو علاقہ کبھی ملتان روڈاوررائیونڈروڈسے گزرنے والوں کی نگاہوں اوردل ودماغ کو اپنی ہریالی اورسر سبز کھیتوں کی وجہ سے خوشگوا ر بنادیتا تھا آج وہاں کنکریٹ سے بھرا اورنج ٹرین کاایک پل اورسڑک کے دونوں جانب عمارتیں ،فیکٹریاںاور رہائشی آبادی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
80ء کی دہائی میںجو زمین فصل کی صورت میں سونا اگلتی تھی لیکن اس سونے کے حصول میں کسان کو چار سے چھے ماہ لگتے تھے اورجان توڑ محنت الگ کرنا پڑتی تھی ۔اگلی دو دہائیوں میںاس زمین کو مختلف سائز کے پلاٹ بناکر بیچنے سے اسے بھاری منافع ملنا شروع ہوگیا اوراس کے لیے بہت زیادہ انتظاربھی نہیں کرنا پڑتا تھا۔حکومتو ں اورسرکاری محکموں نے یہ سوچے بغیر کہ زرعی زمین کو ہائوسنگ سوسائٹی میں بدلنے سے ملکی زرعی پیداوار کو کس قدر نقصان ہوگا دھڑا دھڑ ایسے منصوبوں کی منظوری دینا شروع کردی ۔اس آڑ میں سرکاری و پرائیویٹ زمینوں پر غیر قانونی قبضوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔پرائیویٹ ہائوسنگ سکیموں کو اجازت دینے والے محکموں نے کئی ایسی رہائشی سکیموںکی منظوری دی کہ جن کے مالکان نے نہ صرف زمین کے حصول میں قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی بل کہ پلاٹوں کی براہ راست فروخت کے بجائے فائل فروخت کرنے کاایک نیا سلسلہ شروع کردیا اورصورت حالات یہ ہے کہ اب پلاٹ نہیں فائل بیچی اورخریدی جاتی ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد گذشتہ کئی سال سے ان فائلوں پر ہی سرمایہ کاری کررہی ہے۔
سرکاری محکموں اورپرائیویٹ ہائوسنگ سکیموںکے مالکان کی ملی بھگت کی یوں تو کئی داستانیں زبان زد عام ہیں لیکن رائیونڈ روڈ سے ڈیفنس روڑ کو مڑیں تو لگ بھگ دس سے بارہ کلومیٹر دور ایک ایسی ہی ہائوسنگ سوسائٹی ہے جسے وسیع کرنے کے چکر میں مالکان نے ارد گرد کی زرعی اراضی حاصل کرتے ہوئے اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا کہ وہ پاک فوج کی فائرنگ رینج کے بالکل قریب پہنچ گئے ہیں ۔ بائی لاز کے مطابق فائرنگ رینج سے تین کلومیٹر دور تک کسی آبادی کی اجازت نہیں۔لیکن مذکورہ ہائوسنگ سوسائٹی کی عقبی دیوار اس سوسائٹی سے اب محض ڈیڑھ سے دو کلومیٹر دور ہے اورفائرنگ رینج پرچلنے والی گولیاں کبھی کبھار اس عقبی دیوار کے قریب
واقع گھروں میں آلگتی ہیں۔کبھی کسی کا شیشہ تو ڑ کر اندر گھس جاتی ہے اورکبھی کسی گھر کے صحن کی دیوار میں پیوست ہوجاتی ہے۔ آج سے دس، گیارہ سال قبل جب ایسی ہی ایک گولی کا نشانہ اس سوسائٹی کا ایک شخص بنا تو فائرنگ رینج کی دیواروں کو اونچا کردیا گیا ۔لیکن اب بھی کوئی نہ کوئی گولی اپنے نشانے سے چوک کر کسی گھر کو نشانہ بنادیتی ہے ۔اگرچہ اس ایک واقعہ کے بعدکبھی کوئی جانی نقصان نہیں ہوالیکن اس عقبی دیوار کے قریب رہنے والے اس حوالے سے اپنی شکایات سوسائٹی آفس درج کرواچکے ہیں تاہم سوسائٹی حکام اورمالکان اس حوالے سے ’’ بے بس‘‘ نظرآتے ہیں ۔حالاں کہ اس ’’بے بسی‘‘ کے ذمہ دار وہ خود اوروہ سرکاری محکمے ہیں کہ جنہوں نے بائی لاز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فائرنگ رینج کی حدود سے طے شدہ فاصلے کو برقرار نہیں رکھا۔اورایسے حصے میں بھی پلاٹ بیچ ڈالے جو کسی طور پر بھی رہائش کے لیے محفوظ نہیں۔ان اندھی گولیوں کی سمت تو وہاں رہنے والوں کو معلوم ہے لیکن ان سے محفوظ رہنے کاطریقہ شاید سوسائٹی مالکان اورحکام کو بھی نہیں معلوم!!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں