Zulfiqar Ali shah 112

بیانیہ میں کوئی فرق نہیں

ذوالفقارعلی شاہ

تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان اور مذہبی انتہا پسندی کے بیانیہ میں رتی بھر کوئی فرق نہیں ہے ۔ایک اگر اپنے مخالفین پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں تو خان صاحب اپنے مخالفین پر غداری اور ضمیر فروشی کے فتوے لگاتے ہیں ۔ مذہبی انتہا پسند اگر اپنے مخالفین کے قتل کا حکم جاری کرتے ہیں تو خان صاحب کھلے عام درجنوں مرتبہ اپنے کارکنوں کو منحرفین کا معاشرتی اور سماجی حقہ پانی بند کرنے کا کہہ کر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ ان لوگوں پر زندگی اجیرن تک کرنے کا حکم بھی صادر کرتے ہیں ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عمران خان جو بیانیہ لے کر چل رہے ہیں وہ کوئی اصولی بیانیہ ہے تو وہ حقیقی دنیا میں نہیں رہتا بلکہ اس کی اپنی ایک افسانوی اور تصوراتی دنیا ہے ۔ اس لئے خان صاحب کا تو فقط ایک ہی بیانیہ ہے کہ جو صرف ان کی ذات کے گرد گھومتا ہے جو ان کے ہاتھ پر بیعت کر لیں وہی اچھے ہیں باقی سب برے ہیںبلکہ ان کو تو اس دنیا میں رہنے کا بھی حق نہیں ہے اور خان صاحب کے بیانیہ میں اچھا ہونے کے لئے شرط صرف یہی نہیں کہ آپ ان کے ہاتھ پر بیعت ہو جائیں بلکہ شرط یہ بھی ہے کہ مرتے دم تک بیعت رہیں ۔ متحدہ والوں سے جب تک اتحاد نہیں ہوا تھا وہ دہشت گرد تھے لیکن جب اتحادہو گیا تو پھر ان سے زیادہ نفیس بندے اس روئے زمین پر کوئی اور تھے ہی نہیں لیکن خان صاحب سے راہیں جدا کئے ابھی انھیں جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے کہ خان صاحب نے طوطا چشمی کی انتہا کو پہنچتے ہوئے اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں اور اب ایک مرتبہ پھر خان صاحب کی نظر میں وہ دہشت گرد ہیں حالانکہ عدم اعتماد کی تحریک کے
بعد بھی وہ کراچی متحدہ کے مرکز پر گئے تھے لیکن جب بات نہیں بنی تو اب خان صاحب نے اپنا پینترا بدل کر ان پر دشنام طرازی شروع کر دی ہے ۔ماضی میں اگر دیکھا جائے تو متحدہ کی اگر سب سے زیادہ کسی جماعت سے کشیدگی رہی ہے تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے ۔دونوں جماعتوں میں 90کی دہائی کے اوائل سے لے کر سالہا سال تک زبردست کشیدگی رہی اور دو طرفہ تصادم میں درجنوں کارکن مارے گئے لیکن اتنی جلدی کبھی کسی نے آنکھیں ماتھے پر نہیں رکھیں ۔بات صرف متحدہ کی نہیں بلکہ جن اتحادیوں کی وجہ سے خان صاحب تین سال آٹھ ماہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہے جب وہ علیحدہ ہوئے جو کہ سیاست کا ایک حصہ ہے تو اسی دن سے ان کا شمار بھی غداروں ، بھکاریوں اور غلاموں میں ہونا شروع ہو گیا ہے اور حیرت اس بات پر ہے کہ خان صاحب کو اتنی جلدی اس طرح اپنا موقف بدلنے پر نہ کوئی ندامت محسوس ہوتی ہے اور نہ کوئی شرمساری ۔حیا کا تو خان صاحب سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں اس لئے خواجہ آصف کا مشہور زمانہ جملہ’’کچھ شرم ہوتی ہے،کچھ حیا ہوتی ہے‘‘ کہا تو نیازی کو ہی کہا گیا تھامگر مرد ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر ثابت ہوا۔
اب خان صاحب کا ایک اور بیانیہ جو گذشتہ کچھ عرصے سے کھڑکی توڑ رش لے رہا ہے وہ ہے پارٹی کے منحرفین کے متعلق خان صاحب کے’’ اقوال زریں‘‘ جنہیں اقوال ابلیس یا اقوال سیاہ کہنا چاہئے، پر مبنی خیالات ۔جو لوگ تحریک انصاف سے منحرف ہوئے ہیں خان صاحب کی نظر میں وہ ضمیر فروش بھی ہیں اور لوٹے بھی اور وہ اس قابل ہیں کہ کوئی ان کی اولاد کا رشتہ تک نہ لے اور ان کا ہر سطح پر سماجی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے لیکن جو ارکان اسمبلی نواز لیگ سے تحریک انصاف کی حمایت میں آئے ہیں وہ نہ تو بے ضمیر ہیں اور نہ ہی لوٹے بلکہ وہ باضمیر بھی ہیں اور با اصول بھی ۔ اسے بھی ایک طرف رکھیں دو چار دن پہلے خان صاحب نے ایک نیا انکشاف کیا ہے کہ 2018کے الیکشن کے بعد نواز لیگ کے تیس کے قریب ارکان پنجاب اسمبلی فارورڈ بلاک بنا کر تحریک انصاف کی حمایت میں آ رہے تھے لیکن بقول خان صاحب مقتدر قوتوں کی جانب سے انھیں پیغام ملا کہ وہ جہاں ہیں وہیں پر رہیں ۔عمران خان کے اس بیان کے بعد ان کا کسی کو ضمیر فروش کہنا کہاں تک درست ہے؟ اسے سمجھنے کے لئے بقراط ہونا ضروری نہیں ۔
حقیقت یہی ہے کہ ہم گذشتہ کالم میں بھی عرض کر چکے ہیں کہ خان صاحب کا کوئی بیانیہ ہے ہی نہیں اگر ان کا کوئی بیانیہ ہے تو وہ انتہائی خود غرضی پر مبنی یہی بیانیہ ہے کہ جو ان کے ساتھ ہے وہ ٹھیک ہے اور باقی سب غلط ہیں ۔خان صاحب اگر سعودی ولی عہد کی گاڑی ڈرائیو کریں اور امریکن
صدر ٹرمپ سے ملنے کے بعد خوشی سے نہال ہوتے ہوئے جذبات میں کہیں کہ انھیں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے وہ ایک اور ورلڈ کپ جیت کر آ رہے ہیں تو یہ غلامی نہیں ہے اور اگر تین سال آٹھ ماہ کی مدت میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ قرض لے لیں تو تب بھی خان صاحب خوددار ہی رہیں گے اور غلام بھی نہیں بنیں گے اور بھکاری بھی نہیں بے شک جن پی ٹی کارکنوں سے نوکریوں کا وعدہ کرکے انہیں پورا عرصہ لارا لگائے رکھا ان سے بھی سو سو روپیہ مانگتے ہوئے خودی کا درس بھی دیتے ہیں سبحان اللہ آج ان کے سیاسی مخالفین نے حکومت میں آنے کا چھلہ بھی پورا نہیں کیا اور ابھی ایک روپے کا قرض نہیں لیا لیکن خان صاحب کی ریلو کٹی سوچ کے بیانیہ کے مطابق وہ سارے غلام بھی ہیں بھکاری بھی بن چکے ہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان عرصہ دراز سے کرپشن بیانیہ لے کر چل رہے تھے ۔حکومت میں آنے سے پہلے 2018تک انھوں نے مک مکا کا بیانیہ متعارف کروایا لیکن پونے چار سال حکومت میں رہنے کے دوران تو مک مکا نہیںتھا لیکن آج تک وہ اپنے کرپشن بیانیہ کے حق میں کوئی ایک ثبوت عوام کے سامنے پیش نہیں کر سکے ۔ اس کے بعد انھوں نے عدم اعتماد کی تحریک کے بعد سازش کا بیانیہ مارکیٹ میں لانچ کیا جسے بڑی پذیرائی ملی لیکن ثبوت اس کا بھی کوئی پیش نہیں کر سکے اور جب دیکھاکہ خود ان کے اور پارٹی رہنمائوں کے بیانات کے بعد سازش بیانیہ دم توڑ رہا ہے اور ویسے بھی اس جیسے بیانیہ کی مدت اتنی ہی
ہوتی ہے تو انھوں نے اپنی موت کی سازش کا ایک نیا بیانیہ پیش کر دیا لیکن حسب سابق اس حوالے سے بھی کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے اور اب تو میڈیا اور ان کے سیاسی مخالفین بجا طور پر خان صاحب سے اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ انھوں نے اس حوالے سے جو ویڈیو ریکارڈ کروائی ہے اسے منظر عام پر لایا جائے تاکہ اگر کوئی سازش ہوئی ہے تو اس کے محرکین کا سب کو پتا چل سکے لیکن ہمارے خیال میں خان صاحب کبھی بھی ایسا نہیں کریں گے بلکہ وہ ہر کچھ عرصہ بعد ایک نیا بیانیہ عوام کے سامنے پیش کرتے رہیں گے تاکہ ان کے حمایتیوں کے جذبات گرم رہیں لیکن وہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ وہ آخر کتنے جلسے کریں گے لیکن ہمیں اس حوالے سے خیال آرائی سے گریز کرنا چاہئے کہ یکم جون تک لانگ مارچ کا کٹی کٹا بھی نکل آئے گا کہ جس پر خان صاحب سب سے زیادہ تکیہ کر رہے ہیں اور حکومت کی جانب سے بھی دو چار دنوں میں مطلع صاف ہو جائے گا کہ آخر حکومت کیا چاہتی ہے ۔ حکومت کو یقینا معاشی میدان میں مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے لیکن یہ شکر ہے کہ خان صاحب اور ان کے چاہنے والوں کو بھی چار سال بعد مہنگائی کا احساس ہونا شروع ہو گیا ہے اور مہینہ ڈیڑھ مہینہ پہلے جس پاکستان کو وہ دنیا کا سستا ترین ملک کہہ رہے تھے آج خان صاحب کے نئے بیانیہ کے تحت انھیں وہی پاکستان دنیا کا مہنگا ترین ملک نظر آ رہا ہے لیکن بات یہ ہے کہ ہم بغیر کسی ثبوت کے خان صاحب کے ہر بیانیہ کو کس طرح تسلیم کر لیں کہ جو وہ کہیں گے ہم مان لیں کیا ہم کوئی خان صاحب کے ذہنی غلام ہیں ؟یا انہوں نے سبھی کو عمرانڈو سمجھ لیا ہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں