108

امریکن سازش کا کیا ہوا

ذوالفقارعلی شاہ

27مارچ سے کسی امریکن سازش کا بڑا شور ہے کہ عمران خان نے جس دن سے جلسے میں ایک کاغذ کو ہاتھ میں پکڑ کر اسے لہرا لہرا کر کہا کہ ان کی حکومت کے خلاف بیرونی سازش ہوئی ہے بعد میں پتا چلا کہ یہ امریکن سازش تھی اور بقول خان صاحب کے سازش یہ تھی کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد منظور نہ ہوئی تو پاکستان کو بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن اس کے بر عکس اگر عدم اعتماد منظور ہو گئی تو پاکستان کو معاف کر دیا جائے گا اور اس کو خطرناک حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔خان صاحب نے یہ سارا ڈرامہ عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لئے رچایا تھا ہمیں شروع دن سے اس بات کا سو فیصد یقین تھا کہ ایسی کسی سازش کا کوئی وجود نہیں لیکن پھر بھی خان صاحب نے تحریک عدم اعتماد کی منظوری سے جن اچھے حالات کی نوید سنائی تھی تو ایک سچے قوم پرست پاکستانی کی حیثیت سے کبھی کبھی یہ تمنا دل میں ضرور پیدا ہوتی تھی کہ کاش جو کچھ خان صاحب کہہ رہے ہیں وہ سچ ہی ہو غلامی اور آزادی کے فلسفہ سے ہٹ کر چلو پاکستان کے اچھے دن تو آئیں گے ۔ خان صاحب 27مارچ کے بعد سینکڑوں مرتبہ اس سازش کا ذکر کر چکے ہیں اور جب بھی وہ سازش کا ذکر کرتے ہیں تو اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے وہ اس بات کو کہنا نہیں بھولتے کہ اگر عدم اعتماد منظور ہو گئی تو پاکستان کو معاف کر دیا جائے گا اور اس کو خطرناک حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ ورلڈ بنک ہو اور آئی ایم ایف ہو یا ایشین بنک یہ سب امریکہ کے اشارے پر کام کرتے ہیں اور عرب ممالک بھی امریکہ کے حلیف ہیں اور ان کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں کہ جو امریکہ کہے گا یہ تمام ممالک آنکھیں بند کر کے اس پر عمل کریں گے ۔ اب خان صاحب سے اور ان کے ماننے والوں سے پوچھنا یہ تھا کہ نئی حکومت کے آنے سے تو حالات بہتر ہونے کی بجائے بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں ۔
وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے ساتھ سعودی عرب کا بھی دورہ کیا اور عرب امارات کا بھی اور مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف سے بھی کئی روز تک مذاکرات کئے لیکن نہ آئی ایم ایف نے لفٹ کروائی اور نہ ہی کسی برادر اسلامی ملک نے گھاس ڈالی اور تو اور امریکہ نے بھی ایک ڈالر تک نہیں دیا تو وہ امریکن سازش کہ عدم اعتماد کی منظوری کے ساتھ ہی پاکستان کو معاف کر دیا جائے گا اور اس کے اچھے دن شروع ہو جائیں گے وہ سازش کہاں گئی اور اس سازش کا کیا بنا ۔جو حالات جا رہے ہیں اورجس طرح ہر روز ڈالر کی اڑان رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی اور اس شدید گرمی کے موسم میں کہ جب پنجاب میں پہلی مرتبہ مئی کے دوسرے ہفتہ میں دوسری ہیٹ ویو کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو لوڈ شیڈنگ نے عوام کی مت مار کر رکھ دی ہے ۔ اس سے تو صاف لگ رہا ہے کہ بات کچھ اور ہے بلکہ زمینی حقائق سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ خان صاحب جو بتا رہے ہیں بات اس کے بالکل الٹ لگ رہی ہے کہ امریکہ نے اگر دھمکی دی ہو گی تو یہ دی ہو گی کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہو گئی تو پاکستان کو بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کہ جن کا سامنا پاکستان اور اس کی عوام کر رہے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ خان صاحب اپنی عادت کے مطابق جو جھوٹ جس جگہ فٹ بیٹھتا ہے اسے بولنے سے دریغ نہیں کر رہے ۔ مقصد صرف اپنا الو سیدھا کرنا ہے ۔اب انھوں نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب انھیں سازش کا پتا چلا تو وہ ان کے پاس گئے کہ جو سازش کو روک سکتے تھے اور انھیں کہا کہ اگر سازش کامیاب ہو گئی تو ملک تباہی کی طرف جائے گا اور معیشت تباہ ہو جائے گی ۔ یہ بات ایسے ہی ہے کہ جس طرح اکثر نجومی جب میڈیامیں آتے ہیں تو وہ گذرے ہوئے واقعات کے متعلق کہتے ہیں کہ انھوں نے تو اس کے متعلق بہت پہلے ہی پشین گوئی کر دی تھی اب کس کے پاس وقت ہے کہ وہ برسوں پہلے کی ہوئی کسی نام نہاد پشین گوئی کی تصدیق کرے ۔خان صاحب نے بھی اگر معیشت کے حوالے سے مقتدر حلقوں کو کوئی پیغام دیا تھا تو اس کے متعلق اتنے دنوں تک خاموش کیوں رہے انھیں تو اسی دن بتانا چاہئے تھا کہ جن دن سازش کا واویلہ کیا تھا لیکن انھوں نے ایسا دو وجوہات کی بنا پر نہیں کیا اول اگر ایسا کہتے تو لوگوں نے سوال کرنا تھا کہ خان صاحب ایک طرف آپ امریکن سازش کا کہہ رہے ہیں آپ کی حکومت کے خاتمہ پر پاکستان کے اچھے دن شروع ہو جائیں گے اور دوسری جانب آپ اپنی حکومت کے جانے پر معیشت کی تباہی کی بات کر رہے ہیں تو اصل سازش کیا ہے یہ بتائیں ۔دوسرا عمران خان کو اس بات کا اگر رتی بھر بھی یقین ہوتا کہ ان کی رخصتی کے بعد معاشی حالات اس طرح کے ہو جائیں گے حالانکہ موجودہ حکومت کے راستے میں ساری معاشی خندقیں یہ خود کھود کر گئے ہیں تو اگر انھیں موجودہ حالات کا کچھ ادراک ہوتا تو انھوں نے کہاں چپ بیٹھنا تھا انھوں نے تو پہلے دن سے شور کرنا شروع کردینا تھا لیکن جیسا کہ عرض کیا خان صاحب جو جھوٹ جہاں فٹ بیٹھتا ہے بول دیتے ہیں اور در حقیقت ان کا اصل بیانیہ یہی ہے اپنے مفاد کی خاطر جھوٹ بولو اور بولتے جائو تاوقتیکہ لوگ اس پر یقین کرنے لگ جائیں ۔اب یہی دیکھ لیں کہ انھوں نے کہا ہے کہ ان کی حکومت ڈالر کو 178پر چھوڑ کر گئی تھی حالانکہ سچ یہ ہے کہ ان کی حکومت کے آخری دنوں میں ڈالر کا ریٹ 189تھا اور گذشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ جس دن 7اپریل کو سپریم کورٹ نے 9تاریخ کو عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دیا تھا تو ڈالر تین سے چار روپے نیچے آیا تھا۔
عمران خان نے صدر مملکت کو اور چیف جسٹس پاکستان کو بھی لکھا ہے کہ اس سازش پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور اس کی کھلی سماعت کی جائے ۔ بات یہ ہے کہ اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے تو کیا اس کے بعد جو فیصلہ آئے گا خان صاحب اس کو مان لیں گے ۔خان صاحب کے لئے تو صرف وہی با ت قابل قبول ہے کہ جو ان کے حق میں ہو اگران کے خلاف الیکشن کمیشن فیصلہ کرے تووہ بھی سازش کرنے والوں میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ جنھوں نے انھیں اقتدار میں لانے کی غلطی کی اگر وہ نیوٹرل ہو جائیں تو وہ انھیں جانور تک کہنے سے دریغ نہیں کرتے ۔ اگر سپریم کورٹ ان کی مرضی کے برخلاف فیصلہ دے تو وہ بھی ان کے نشانے پر آ جاتی ہے اگر وہ اتحادی کہ جن کی وجہ سے ان کی حکومت پونے چار سال تک چلی وہ کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ خان صاحب کے اپنے رویے کی وجہ سے الگ ہوئے تو وہ بھی بکاؤمال ہو جاتے ہیں اور ان کے سیاسی مخالفین تو شروع دن سے غدار ہیں لیکن باقی سب اپنی جگہ پر سوال یہی ہے کہ عدم اعتماد کی منظوری کے بعد تو پاکستان کے حالات اے ون ہو جانے تھے تو اب وہ سازش کیا ہوئی اس لئے کہ حالات تو اس کے بالکل برعکس ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں