137

پنجاب کی تاریخ اور پنجابی یونین کا کردار

زاہد حسن

کسی بھی خطے میں حملہ آوروں‘ قابضین اور سامراجی قوتوں کے خلاف وہاں کے عوام کو شعور اور فکر سے ہمکنار کرنے میں وہاں کے شاعروں‘ ادیبوں اور دانشوروں کا کردار ہمیشہ بے حد اہم رہا ہے۔ برصغیر پاک وہند کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہاں بھی عوامی بیداری کی لہر کو بڑھاوا دینے میں یہاں کے صاحبان فکر ونظر کا کردار بے حد اہم اور فعال نظر آتا ہے۔ انگریز‘ انڈیا میں ایک تاجر کی حیثیت سے آئے۔ انہوں نے 1757 کے اریب قریب یہاں ایک تجارتی کمپنی کی اجازت مانگی اور یہی تجارتی کمپنی رفتہ رفتہ سیاسی بنیادیں حاصل کرتی گئی اور بالآخر ایک سو سال بعد اپنے مزموم مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی اور کم و بیش سارے ہندوستان پر قبضہ حاصل کرنے میں سرخرو ہو گئی۔
پنجاب وہ علاقہ تھا جہاں انہیں سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا‘ نہ صرف یہ کہ قبضے سے پہلے بلکہ قبضے کے بعد بھی ان کے خلاف پنجاب میں سخت مزاحمت نظر آتی اے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف اگر 1919میں ہی جلیانوالہ باغ کا واقعہ ہوا تو بعد میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے شدید احتجاج اور مزاحمت ہوئی تو دوسری طرف گوجرانوالہ‘ لاہور اور امرتسر کی گلیوں اور بازاروں میںعوام نے انگریزوں کے خلاف اپنے خون سے تاریخ رقم کی۔ اس میں سب سے پہلے 1857 کی جنگ آزادی کی لہر کے دوران راوی کے سورمے احمد خان کھرل اور اس کے ساتھیوں کی انگریزوں سے خونریز لڑائی لوک شاعری میں اور اس عہد کے شاعروں‘ ادیبوں کے یہاں نمایاں نظر آتی ہے تاہم اپنے خون سے لکھی یہ تاریخ محض تاریخ کی کتابوں ہی میں دفن ہو کے رہ جاتی ہے۔ اگر اسے ہر عہد کی نسل سے متعارف نہ کروایا جائے۔ اگر دیکھا جائے تو بیساکھی کے تہوار اور میلے کی مناسبت سے جلیانوالہ باغ میں اکٹھی ہونے والی خلقت پر کرنل ڈائر کے حکم پر گورکھارجمنٹ کی جانب سے کی جان والی اندھی فائرنگ سے ہونے والی شہادتوں اور ظلم و جبر کی داستان ہمارے اردو‘ پنجابی مزاحمتی ادب کا اہم اور نمایاں حصہ ہے لیکن اصل بات وہی ہے کہ اگر آپ اس حوالے سے نوجوان نسل کو کچھ نہیں بتاتے تو یہ سارا کچھ بے مقصد ہو کر رہ جائے گا۔ اس سلسلے میں پنجابی یونین کے صدر مدثر اقبال بٹ نہایت اہم‘ عمدہ اور فعال کردار ادا کر رہے ہیں اور آئے روز پنجاب ہائوس میں پنجاب اور پنجابی سے جڑی تاریخ کو دہرانے میں اہم کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے سانحہ
جلیانوالہ باغ اور بیساکھی تہوار کی مناسبت سے دو تقاریب کا اہتمام کیا۔ جلیانوالہ باغ کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے رائے عزیز اللہ‘ برجندر سنگھ دلگیر‘ الیاس گھمن‘ امجد علی شاکر‘ افتخار ورائچ‘ بابا نجمی‘ ڈاکٹر کلیان سنگھ کلیان‘ بلال مدثر بٹ‘ عتیق انور راجہ اور دیگر نے خطاب کیا۔ اس موقع پر ندیم رضا کی تیار کردہ ڈاکومینٹری بھی دکھائی گئی جو تاریخی حوالوں‘ انٹرویوز اور بہترین تجزیے پر مشتمل تھی۔ موجودہ صورتحال میں ایسی ڈاکومینٹریز کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ جب انٹرنیٹ اور میڈیا کا دور ہو اور لوگ پڑھنے سے زیادہ چیزوں کو دیکھنے اور سننے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہوں تو یہ طریقہ زیادہ مناسب رہتا ہے۔
تقریب کے حوالے سے ہونے والی گفتگو سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس حوالے سے لکھے ہوئے علامہ محمد اقبالؒ کے دو اشعار پڑھ لئے جائیں جن میں انہوں نے نہایت دردمندانہ طور پر اظہار کیا ہے:
ہرزائر چمن سے یہ کہتی ہے خاک باغ
غافل نہ رہ جہاں میں کرداروں کی چال سے
سینچا گیا ہے خون شہیداں سے اس کا تخم
تو آنسوئوں کا بخل نہ کر اس نہال سے
پنجابی یونین کی جانب سے ہونے والی اس تقریب میں یہ مطالبہ بھی دہرایا گیا کہ برطانیہ سرکاری سرپرستی میں کیے گئے اس ظلم پر معافی مانگے۔
تقریب کے شروع میں پنجابی یونین کے چیئرمین نے تقریب کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے پنجاب ہائوس کے مختلف منصوبوں کے حوالے سے مہمانوں کو آگاہی بھی فراہم کی۔پنجابی میڈیا گروپ کے صدر ندیم رضا نے کہا کہ آج یہاں موجود سب لوگ پنجابی زبان و ادب کیلئے جو کچھ بھی کر رہے ہیں‘ اس کا سہرا مدثر اقبال بٹ کے سر ہے کہ انہوں نے ہماری رہنمائی کی اور ہمارا حوصلہ بڑھایا جبکہ اس کے ساتھ ہی ہر طرح کی معاونت بھی کی۔ موضوع کے حوالے سے الیاس گھمن کا کہنا تھا کہ میں آج اس عورت کی عظمت کو
سلام پیش کرتا ہوں جس کی کہی ہوئی بات پورے ہندوستانیوں کی زبان بن گئی:
بس کردے جرمن وے
پت مک گئے ہین ماواں دے
ہندوستانیوں کا انگریزوں سے ایک ہی مطالبہ تھا کہ سانحہ جلیانوالہ باغ کی شفاف تحقیقات کروائی جائیں اور معافی مانگی جائے لیکن آج تک اس کی تحقیقات نہیںہوئیں۔ اس حوالے سے جو کمیٹی تشکیل دی گئی‘ اس نے بھی اپنی سفارشات میں فقط یہی لکھا کہ فوج کو گولی چلانے سے پہلے حالات کا جائزہ لے لینا چاہئے تھا اور معافی تو آج تک نہیں مانگی گئی۔ اس قربانی کے اصل ہدف کے حصول کا وقت آ گیا ہے۔ ہمارا حکومت وقت سے مطالبہ ہے کہ پنجابی کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے اور پنجاب کا اصل چہرہ سامنے لایا جائے جو پاکستان کو مضبوط بنائے گا۔ ہرجندر سنگھ دلگیر نے متعلقہ مضمون کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ جلیانوالہ باغ 13اپریل 1919 کو ہوا اور 15 اپریل کو گوجرانوالہ میں بھی عوام پر بم برسائے گئے جس میں بارہ شہری مارے گئے۔ دوسری بات یہ تھی کہ کرنل ڈائریوں بھی ہندوستانیوں سے متنفر تھا کیونکہ اسے ترقی نہیں ملی جس کے باعث اس نے انگریزوں کو بدنام کرنے کیلئے جلیانوالہ باغ میں گولی چلائی۔ انہوں نے مزید کہا کہ انگریز نے انصاف نہیں بلکہ ظلم کیا۔ اس واقعہ کا بدلہ لے کر اُدھم سنگھ نے پنجابیوں کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ رائے عزیز اللہ اپنے آپ میں ایک تاریخ ہیں‘ ان کے خاندان نے گورو گوبند سنگھ کی جان بچائی‘ ہم سکھ ان کے احسان مند ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سکھوں پر مسلمانوں نے نہیں بلکہ ریاست نے ظلم کیا۔ مسلمانوں نے تو سکھوں کو پناہ دی تھی۔ تقریب کے اختتام پر مہمانوں کی پرتکلف افطاری سے تواضع کی گئی جبکہ مہمانوں کی آمد پر ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا گیا۔
اس سلسلے کی دوسری تقریب بیساکھی کے حوالے سے منعقد کی گئی جس کی صدارت کینیڈا سے آئے ہوئے ’’قلم فائونڈیشن‘‘ کے منتظم جسبیر سنگھ بوپارائے نے کی۔ بیساکھی تہوار کے حوالے سے کلیان سنگھ کلیان‘ راقم (زاہد حسن)‘ الیاس گھمن‘ برجندر سنگھ دلگیر‘ مدثر اقبال بٹ اوردیگر نے خطاب کیا۔ دراصل سانحہ جلیانوالہ باغ کا اس تہوار سے گہرا تعلق ہے تاہم چونکہ پنجاب صدیوں سے اناج کا گھر ہے اور زرعی طور پر سرسبز و شاداب علاقہ ہے تو بیساکھ کے موسم میں جب کسان گندم کاٹ کر گھر لاتا تو اس کیلئے یہ نہایت خوشی کا مقام ہوتا تھا‘ سو اس تہوار کا خوشی اور خوشحالی سے گہرا تعلق ہے اس لئے یہ منایا جاتا ہے۔(بشکریہ جہان پاکستان)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں