anwar sajdi 124

دو جڑواں شہر کوالالمپور اور اسلام آباد

انور ساجدی

کوئی مانے یا نہ مانے سری لنکا کے دیوالیہ ہونے اور ناکام ریاست بننے میں اور فیکٹرز کے ساتھ ایک اہم وجہ طویل تامل جنگ تھی جس نے نہ صرف سری لنکا کو ایک مکمل سکیورٹی اور سنہالی نسل پرستی پر مبنی ریاست بنادیابلکہ راجہ پکشے نے تاملوں کو کیا شکست دی وہ سمجھ بیٹھے کہ اس فتح کے ذریعے وہ تاحیات حکمران بن جائیں گے انہوں نے یک جماعتی اور شخصی آمریت کی بنیاد ڈالتے ہوئے صدر وزیراعظم اور کابینہ کے بیشتر عہدوں پر قبضہ کرلیا اندازہ لگائیے کہ نصف کابینہ دونوں بھائیوں کے بچوں پر مشتمل ہے اس کی کچھ جھلک مسلم لیگ ن میں بھی نظر آرہی ہے مثال کے طور پر والد محترم ملک کے وزیراعظم اور صاحبزادے پنجاب کے وزیراعلی ہیں اگر موقع یا عدالتوں سے ریلیف ملے تو یہاں نواز شریف صدر یا چوتھی بار وزیراعظم بن سکتے ہیں کیا بعید کہ محترمہ مریم نواز پہلے وزیر خارجہ اور بالاآخر وزیراعظم بن جائیں۔بہرحال تامل جنگ نے سری لنکا کو معاشی طور پر نچوڑ کر رکھ دیا جو لاکھوں تامل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تھے انہوں نے مستقل ترک وطن کیا کیونکہ جافنا میں رہنا تو اپنی جگہ، سری لنکا کی ظالم سنہالی فوج کے ہاتھوں زندہ رہنا ہی مشکل تھا۔ جافنا سے تاملوں کو نکال کر سنہالی حکومت نے قبضہ کرلیا اور یہاں پر بڑے پیمانے پر آبادی کا توازن بگاڑا گیا۔ سری لنکا کے جو لوگ بیرون ملک سے زرمبادلہ بھیجتے تھے ان کی ایک بڑی تعداد تاملوں پر مشتمل تھی انہوں نے فارن پیکیج بھیجنا بند کردیا ۔راجہ پکشے نے بے تحاشا غیر ملکی قرضے لئے چین نے بڑے پیمانے پر بھاری سود پر قرضے دیئے جسے سری لنکا ادا نہیں کرسکا جس پر چین نے ہمبن ٹوٹا کی بندرگاہ حاصل کرلی۔ چین کا قرضہ اب بھی موجود ہے اگر اس کی ادائیگی نہ ہوسکی تو کولمبو ایئر پورٹ یا کینڈی کا محسور کن علاقہ حتی کہ چائے کے باغات بھی چین کے قبضے میں جاسکتے ہیں گزشتہ انتخابات میں جب راجہ پکشے نے جھرلو پھیر کر کامیابی حاصل کرلی مخالفین نے یہ انتخابات تسلیم نہیں کئے دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہوگئے حتی کہ تیل خریدنے اور بجلی گھر چلانے کے لئے بھی پیسے نہیں تھے جس کے نتیجے میں پورا سری لنکا تاریکی میں ڈوب گیا جب بھوک کا راج مضبوط ہوا تو عوام نے کسی منظم تحریک کے بغیر بغاوت کردی جلسے جلوس شروع ہوگئے جس کے نتیجے میں راجہ پکشے نے اپنے لوگ مقابلے کے لئے میدان میں اتار دیئے اس غلطی نے پورے ملک میں آگ لگادی۔ چنانچہ دو روز قبل گھیرا ؤجلاؤ اپنے عروج پر پہنچا اہم سرکاری عمارتوں کا گھیرا ؤکیا گیا جو اراکین پارلیمنٹ کابینہ کے اراکین اور دیگر سرکاری لوگ یہاں سے گزرے بے قابو ہجوم نے ان کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ الامان الحفیظ احتجاج کرنے والے جتھے ڈنڈوں چاقوؤں اور برچھوں سے مسلح تھے انہوں نے سیکڑوں لوگوں کو زخمی کردیا کم از کم دو ممبران پارلیمنٹ اور درجنوں دیگر لوگوں کو بے دردی کے ساتھ مار دیا نہ صرف یہ غصہ اتنا زیادہ تھا کہ مسلح جتھوں نے راجہ پکشے کے ذاتی گھر کو بھی آگ لگادی۔
سری لنکا کے یہ خوفناک مناظر بہت ہی زیادہ ڈرانے اور دہشت پیدا کرنے والے تھے ڈر یہ لگتا ہے کہ اگر پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی اس سطح پر پہنچ گئی تو کیا ہوگا جب سے عمران خان تخت سے اترے ہیں ان کی زبان سے شعلے نکل رہے ہیں ان کے بے قابو پیروکار شیخ رشید کی زبان میں سب کچھ جلادو کے فلسفہ پر یقین رکھتے ہیں عمران خان نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ جدوجہد نہیں کررہے بلکہ جہاد کررہے ہیں تو یہ اپنے کارکنوں کو قانون اگر کوئی ہے تو ہاتھ میں لینے کی تلقین کررہے ہیں اور جب سے تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں کو یہ پتہ چلا ہے کہ عمران خان کی معزولی میں مقتدرہ کا کردار ہے تو انہوں نے اس کے خلاف بھی محاذ کھول دیا ہے۔ تحریکی کارکن بلا خوف مقتدرہ کے خلاف مہم چلارہے ہیں اور سوشل میڈیا کو مقتدرہ کے خلاف بے رحمی کے ساتھ استعمال کررہے ہیں۔ عمران خان نے اپنے زبردست قسم کے بیانیہ کے ذریعے نیوٹرل پن کے تاثر کو ختم کردیا ہے جس کے نتیجے میں ن لیگی حکومت اور مقتدرہ دونوں ایک پیج اور وضاحتی پوزیشن میں آگئے ہیں ایک طرف وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں قومی اسمبلی عمران خان کی مذمت میں قرار داد منظور کررہی تو دوسری جانب آئی ایس پی آر وضاحتی بیان جاری کررہی ہے۔
تحریک انصاف کے کارکن معصوم ہیں اور انہوں نے ابھی تک پیپلز پارٹی کی طرح سختیاں قید کوڑے اور تختہ دار نہیں دیکھا ہے اس لئے وہ برملا کہہ رہے ہیں کہ ہمارے لیڈر کو ڈی چوک اور فیض آباد کی بجائے راولپنڈی میں فیصلہ کن دھرنا دینا چاہئے اور یہ گزیہ میدان کی مانند تحریکی کارکنوں کی آزمائش زیادہ دور نہیں ہے۔
حکومت پر دبا ؤبڑھ رہا ہے کہ عمران خان شیخ رشید فواد چوہدری اور دیگر لوگوں کو دھرنے سے پہلے گرفتار کیا جائے ورنہ بہت بڑا فساد پھیل جائے گا لیکن اقتدار کے اسٹیک ہولڈرز پریشان ہیں کہ کس الزام اور کس مقدمے کے تحت عمران خان کو پکڑا جائے وہ عوامی ردعمل سے خوفزدہ بھی ہیں اور جائزہ لے رہے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ایسی صورتحال تو پیدا نہیں ہوگی کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے قابو سے باہر ہوجائے اگرچہ پاکستان اور سری لنکا کی صورتحال میں بہت زیادہ مماثلت نہیں ہے لیکن عمران خان جو کچھ کررہے ہیں دانستہ یا نادانستہ اس کا نتیجہ شدید افراتفری انتشار کی صورت میں نکلے گا ناگفتہ بہ معاشی صورتحال بظاہر اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ کوئی غیر یقینی صورتحال پیدا کی جائے لیکن عمران خان کو بظاہر اس کی پرواہ نہیں ہے ان کے ذہن میں ذوالفقار علی بھٹو کیوبا اور ایران موجزن ہیں وہ سوچ رہے ہیں کہ ایک آزاد پالیسی اختیار کرکے معاشی حالات کو اہمیت نہ دی جائے لیکن اگر وہ ایسا سوچ رہے ہیں تو انہیں پاکستانی عوام کی نفسیات کا علم نہیں ہے ابھی کل ہی لوگ عمران خان کی حکومت کو ناکام اور مہنگائی کا ذمہ دار قرار دے کر برا بھلا کہہ رہے تھے لیکن صرف ایک مہینہ بعد وہ شہباز شریف کی مخلوط حکومت کے خلاف صف آرا نظر آرہے ہیں عمران خان یہ بات بھی بھول رہے ہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں سیاست اور پارٹی کو دھیرے دھیرے آگے لیکر چلنا ہوتا ہے لیکن ان میں استقامت اور صبر نہیں ہے وہ روز رونا رو رہے ہیں کہ ان کی حکومت کو ختم کرکے چوروں کو کیوں مسلط کیا گیا وہ شدید اضطراب میں ہیں اور وہ جب جب شہباز شریف کو دیکھتے ہیں ان کا خون کھول اٹھتا ہے یہ کوئی سیاسی اپروچ نہیں ہے سیاست میں دشمنی ہوتی ہے مگر ذاتی دشمنی نہیں ہوتی۔ اگر وہ حالات کو سیاسی کارکنوں عوام اور اداروں کی تقسیم کی طرف لے جاتے ہیں تو یقینی طور پر اسے روکنے کے لئے اداروں اور حکومت کو کچھ کرنا پڑے گا اگر مزاحمت زیادہ ہوئی توپھر سری لنکا جیسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔
سنا ہے کہ عمران خان سے درپردہ رابطے جاری ہیں انہیں اگلے انتخابات تک صبر کی تلقین کی جارہی ہے لیکن عمران خان جانتے ہیں کہ اس صبر کا نتیجہ حکومت نہیں اپوزیشن میں بیٹھنا ہے اس طرح عمران خان کی زندگی سیاست اور جماعتی مستقبل ایک دوراہے پر پہنچ گئی ہے اگر وہ 10لاکھ لوگ اسلام آباد بلانے میں کامیاب ہوگئے تو کولمبو جیسے مناظر دیکھنے کو ملیں گے بلکہ پاکستانی دارالحکومت کے مناظر کولمبو سے زیادہ خوفناک ہونگے یہاں پر بابڑہ کی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے اور جمہوریت کی بساط لپیٹی بھی جاسکتی ہے کیونکہ دونوں میں سے کوئی فریق پیچھے ہٹنے اور شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ رانا ثنا اللہ پرعزم ہیں کہ وہ مجوزہ مارچ کو ناکام بنادیں گے۔ انہوں نے کھلی دھمکی دی ہے کہ شیخ رشید کو لال حویلی کے اندر جانوروں کا کلہ ٹھونک کر باندھ دیں گے رانا جی کا یہ بھی کہنا ہے کہ بالاآخر عمران خان جنرل نیازی کی تاریخ دہرائیں گے اور سیاسی طور پر سرنڈر کرکے سیاست سے آؤٹ ہوجائیں گے البتہ رانا صاحب کو یہ معلوم نہیں کہ انکی حکومت لوگوں کو آٹا چینی بجلی اور پیاز کیسے فراہم کرے گی جو بھوک اور قحط سالی پیدا ہورہی ہے یہ حکومت اس کا مقابلہ کیسے کرے گی ہوسکتا ہے کہ 20 مئی سے پہلے یا اس کے بعد مذاکرات کے نتیجے میں کسی فیصلے پر پہنچا جائے۔
اگر عمران خان زرداری سے مذاکرات کے لئے آمادہ ہوں تو مطمئن ہوکر بنی گالا چلے جائیں گے البتہ بعد میں ضرور دہائی دیں گے کہ ان کے ساتھ جو معاہدہ ہوا اس کا کیا بنا ایسا کچھ طاہر القادری کے ساتھ بھی ہوا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں