127

حماقت در حماقت

ذوالفقار ولی شاہ

عمران حکومت کو ہٹانے کا فیصلہ اس وقت کی حزب اختلاف کے نقطہ نظر کے مطابق سو فیصد درست تھا اور آج بھی سیاست کے میدان کا درجہ حرارت جس وجہ سے بلند ترین سطح پر ہے تو اس کی بنیادی وجہ بھی وہی ہے کہ جو عمران حکومت کو ہٹانے کی وجہ بنی اور وجہ یہی تھی کہ جو گذشتہ کسی کالم میں عرض کر دی تھی کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی ۔ اس کے باوجود بھی کہ ماضی کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یہ درست ہے کہ آرمی چیف جو فیصلہ کرتا ہے اس کا ماننا اور اس پر عمل کرنا ادارے کے ہر فرد پر لازم ہوتا ہے لیکن آرمی چیف کے فیصلوں میں اپنے ادارے کی مرضی و منشا سے 19بیس کا اختلاف رائے تو ہو سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں ۔جنرل ضیاء کو ذوالفقار علی بھٹو نے نامزد کیا تھا اور سات سینئر جرنلز کو بائی پاس کرتے ہوئے انھیں آرمی چیف لگایا تھا ۔جنرل پرویز مشرف ، جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کو میاں نواز شریف نے ہی تعینات کیا تھا اور اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ جنرل یحی خاں کو جنرل ایوب خاں نے اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کو جنرل پرویزمشرف نے آرمی چیف بنایا تھا لیکن وقت آنے پر کسی نے کسی کے ساتھ وفا نہیں کی اور وہی کیا کہ جو انھیں کرنا تھا لیکن چونکہ تاریخ کا تاریخی سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا اس لئے اب بھی میدان سیاست میں ہنگامہ اسی لئے برپا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی نومبر سے پہلے ہونی ہے اور خان صاحب ہر صورت یہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح کچھ بھی ہو لیکن وہ اس سے پہلے دوبارہ وزیر اعظم بن جائیں ۔ جیسا کہ عرض کیا کہ تاریخ سے کوئی سیق سیکھنے کو تیار نہیں ہے 1990میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت گئی 1993میں نواز شریف کی حکومت گئی اسے سپریم کورٹ نے بحال بھی کر دیا تھا لیکن
جوبھیجنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں وہ ہر حال میں بھیج دیتے ہیں لہٰذا کاکڑ فارمولہ پر عمل کرتے ہوئے میاں صاحب کو رخصت ہونا پڑا ۔اس لئے جانے والوں کو اتنی سمجھ تو ہونی چاہئے کہ جنھیں بھیجا جاتا ہے انھیں اتنی جلدی واپس نہیں لایا جاتا ۔اس لئے حکومت ہٹاتے وقت یہی سوچ تھی کہ اگر عمران خان نے اپنی مرضی کا آرمی چیف لگا دیا تو پھر اگلے پانچ سال اس ملک پر مکمل سول آمریت کا راج ہو گا اورانتخابی نتائج بھی خان صاحب کی مرضی کے مطابق ہوتے اور پھر اس کے بعد اس ملک کی ہر چیز ریاستی اداروں سمیت ، فاشسٹ خان صاحب کی صوابدید پر ہوتی اور عدم اعتماد کی تحریک کے بعد عمران خان جس طرز کی سیاست کر رہے ہیں اس سے یہ بات ثابت بھی ہو جاتی ہے ۔
اس لئے عمران حکومت کو ہٹانے کے عمل کو اس وقت کی حزب اختلاف کے نقطہ نظر سے غلط نہیں کہا جا سکتا لیکن اس کے بعد حکومت میں آ کر جو کیا جا رہا ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔عمران خان ہر گذرتے دن کے ساتھ اپنا جھوٹا بیانیہ بھی اپنی چالبازی اور مکاری سے مضبوط کرتے جا رہے ہیں لیکن حکومتی اتحاد کی جانب سے اس کا کوئی موثر جواب نہیں دیا جا رہا ۔ میڈیا میںحکومتی ارکان کی جو باڈی لینگویج ہے وہ بالکل اسی طرح کی ہے کہ 2008سے لے 2013تک جو پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان کی تھی کہ ہر بات پر موثر ترین دلائل ہونے کے باوجود بھی شرمندہ شرمندہ سا رہ کر انتہائی بودے جواب دینا ۔ہم نے اپنے کالم میں خان صاحب کے لاہور جلسہ کے بعد ہی اس بات پر حیرت کا اظہار کیا تھا کہ کم تعداد کے باوجود تحریک انصاف اپنے ہر جلسے کو کامیاب اور تاریخی قرار دے رہی ہے جبکہ ایسا ہے نہیں لیکن اس کا جواب نہیں دیا جا رہا اور انتہائی حیرت کی بات یہ تھی کہ میڈیا میں بھی روایت کے مطابق اس بات پر بحث نہیں ہوئی کہ جلسہ گاہ میں کرسیاں کتنی تھیں اور جس طرح ہر جلسہ کے بعد بتایا جاتا تھا کہ پولیس کے مطابق اتنی تعداد تھی ۔ انٹیلی جنس کے مطابق اتنی اور غیر جانبدار حلقوں کے مطابق اتنی تھی یہ بھی نہیں بتایا جا رہا بلکہ اس پر صرف سوشل میڈیا میں بات ہو رہی ہے تو حکومت میں ہوتے ہوئے بھی جھوٹ نہیں لیکن میڈیا میں سچ بات کو جس طرح سامنے نہیں لایا جا رہا اس کا تو پتا چلانا چاہئے ۔ اب اس طرف سے فواد چوہدری نے جو بلنڈر کیا ہے کہ ہم جلسوںکی کوریج کے لئے پرائیویٹ کمپنی کو ہائر کریں گے تو اس سے پتا چلا کہ تحریک انصاف کے جلسوں کے تاریخی ہونے میں کس حد تک سچائی ہے ۔ خاص طور پر فواد چوہدری کا جہلم والا جلسہ جس بری طرح ناکام ہوا اس پر تو عمران کی منتخب کردہ میڈیا ٹیم بھی پردہ نہ ڈال سکی اور فرانزک سسٹم سے پردہ چاک ہوگیا کہ فواد چوہدری چار پانچ ہزار لوگ لانے میں ہی کامیاب ہوئے جس پر عمران خان سخت رنجیدہ اور فواد چوہدری پر خفا ہیں۔
دوسری بات کہ میاں شہباز شریف کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بہترین ایڈمنسٹریٹر ہیں اور حمزہ
شہباز کے متعلق کہا جاتا تھا کہ میاں شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے دور میں اصل میں صوبہ وہ چلا رہے تھے ۔اب غور طلب بات یہ ہے کہ گذشتہ دو ماہ سے بجلی کے نرخ یقینا بڑھے ہیں لیکن پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا جو کہ بنیاد بنتی ہے مہنگائی کی تو پھر مہنگائی کا جن بے قابو کیوںہو رہا ہے ۔چینی آٹا دالیں گھی کی قیمتیں کیوں بڑھتی جا رہی ہیں ۔حکومت کیوں مجبور ہو گئی ہے کہ رمضان میں یوٹیلٹی اسٹور پر جو رمضان پیکج دیا تھا اس میں توسیع کرے ۔حکومت کو ہر حال میں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں حکومت کی مجبوریوں کا بخوبی علم ہے کہ اسے بہت سی آئینی رکاوٹوں کا سامنا ہے ۔ صدر عارف علوی اپنی جگہ ایک مشکل ہیں تو پنجاب میں گورنر بلکہ ہم تو انھیں سابق گورنر ہی کہیں گے انھوں نے الگ محاز کھول رکھا ہے ۔ اس پر مستزاد کہ خان صاحب کو سوائے اپنے سیاسی مفاد کے کسی اور بات کی فکر ہی
نہیں ۔آپ کو یاد ہو گا کہ 7اپریل جس دن سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ 9اپریل کو ہر صورت عدم اعتماد پر ووٹنگ کروائی جائے تو غیر یقینی سیاسی صورت حال کے خاتمہ کے ساتھ ہی دو دن میں اسٹاک ایکسچینج میں 14سو پوائنٹس کا اضافہ ہوا تھا اور ڈالر ایک دن میں چھ روپے نیچے آ گیا تھا لیکن اب عمران خان نے جس طرح ملک میں سیاسی عدم استحکام کی فضا بنا رکھی ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ڈالر کی اڑان بھی رکنے کا نام نہیں لے رہی اور اسٹاک ایکسچینج میں بھی مندی کا رجحان ہے اور ہر روز پوائنٹس نیچے جا رہے ہیں ۔ گذارش ہے کہ عمران خان تو جو کر رہے ہیں وہ انھوں نے کرنا ہے اب یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ ان کے بیانیہ کا رد کرے اور یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے ۔خان صاحب کا سازشی بیانیہ تو کہیں ٹھہر ہی نہیں سکتا ۔ اس لئے کہ اول تو خان صاحب اس حوالے سے اب تک کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے ۔دوسرا قومی سلامتی کمیٹی نے اگر مداخلت کا کہا ہے تو وہ اس مراسلہ کی بنیاد پر کہا ہے جو کہ ایک پاکستانی سفارتی افسر کی جانب سے لکھا گیا تو عمران خان کے سیاسی مخالفین کے لئے یہ بات کس طرح قابل قبول ہو سکتی ہے کہ خان صاحب کے لگائے ہوئے کسی بندے کی جانب سے کسی مراسلہ میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ اسے من و عن مان لیں ۔ اس لئے حماقتیں کرنے کی بجائے جب تک کھل کر خان صاحب کے بیانیہ کا استرداد نہیں کریں گے اور انتظامی امور پر گرفت مضبوط نہیں کریں گے اس وقت تک ملک سے سیاسی بے یقینی کا خاتمہ نہیں ہو گا اور یہ بے یقینی حکومتی کارکردگی کومتاثر کرتی رہے گی ۔

ذوالفقار علی شاہ
Email:zulfqarshah@ymail.com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں