116

زمینی اورسیاسی درجہ حرارت میں اضافہ!!

خواجہ آفتاب حسن

محکمہ موسمیات کے مطابق رواں ہفتے کے دوران درجہ حرارت میںکم ازکم 6درجے اضافے کا امکان ہے جبکہ سیاسی درجہ حرارت میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔اس وقت لاہور کا ٹمپریچر کم ازکم 28اورزیادہ سے زیادہ 42سنٹی گریڈ کے قریب ہے جبکہ آئندہ دنوں میں یہ 48سے 50سنٹی گریڈ تک پہنچ سکتاہے ۔ شدید گرمی کی ممکنہ لہرکی صورت حالات کے پیش نظر محکمہ موسمیات نے انتباہ جاری کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ لوگ کوشش کریں زیادہ وقت گھروں میں گذاریں اور بلاضروت پیدل یاموٹر سائیکل پر باہر نہ نکلیں، گھر میں ہوں یا باہر پانی کازیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔
دوسری جانب سیاسی درجہ حرارت موسم کی شدت سے بھی دوگنا رفتار سے بڑھ رہا ہے کیونکہ جب سے عمران خان تحریک عدم اعتماد کے جمہوری عمل کے ذریعے وزارت عظمی سے برطرف کرکے حکومت سے نکالے گئے ہیں وہ خود بھی عدم اعتماد کا شکار ہوکر ذہنی ہیجان میں مبتلا ہیں ، ان کی حالت ماہیٔ بے آب کی سی ہے وہ جل بغیر مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیںانہیں کسی پل چین نہیں آرہا اوروہ اپنے ساتھ عوام کا بھی سکھ چین تباہ کرنے پر تلے ہیں وہ مسلسل لوگوں کو سڑکوں پر آنے کے لیے اکسا رہے ہیں۔جہاں تک پانی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی ہدایت ہے ،سندھ میں لوگ بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں ۔ہاری اورکسان فصلوں کو پانی نہ ملنے سے پریشان ہیں جبکہ شہری علاقوں میں اوسطاً ہر گھر کو پینے کے پانی کے لیے 25سے 30ہزارروپے اضافی خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ ویسے تو عمران خان سمیت تمام سیاسی قائدین چاہے ان کاتعلق کسی بھی پارٹی سے ہو، کے لیے گرمی اورپانی کی کمی معنی نہیں رکھتی ۔ وہ جلسہ شروع ہونے سے پہلے تک اورفوراً بعد ائیرکنڈیشنڈ دفاتر ،گھروں اور گاڑیوں میں ٹھنڈے ٹھار ہوئے بیٹھے ہوتے ہیں اورجیسے ہی عوام کا ہجوم دیکھتے ہیں ،اپنی تقریروں میں ایسی گرمی دکھاتے ہیں کہ سیاسی پارہ خطرے کے لال نشان کوچھوتا محسوس ہوتا ہے ۔
زمینی درجہ حرارت کے بڑھنے سے ہرکوئی پریشان ہے لیکن اس کی وجہ سمجھنے اوراس کے تدارک کے لیے کسی قسم کی کوشش کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ۔اگر صرف لاہورشہر کی بات کی جائے تو ہزاروں گاڑیاں صبح 8سے رات 8بجے تک سڑکوں پر موجود ہوتی ہیں اوران میں سے 80فیصد ائیر کنڈیشنڈ ہیں جبکہ شہر کے مضافات میں قائم 24گھنٹے چلنے والی فیکٹریوں سے اٹھنے والا دھواں الگ فضائی آلودگی کا سبب ہے۔گاڑی کے اندر خود کو گرمی سے بچانے والے یہ نہیں جانتے کہ ان کی گاڑی کے باہر کا درجہ حرارت اس ایک ایئر کنڈیشنر چلنے سے کس قدر بڑھ رہا ہے۔ یقین نہ آئے تو کبھی کسی بند شیشے والی گاڑی کے قریب کھڑے ہوکر دیکھ لیں آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ باہر ’’ دوزخ ‘‘ بننے کی وجہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ شہر میں اب درخت کہیں کہیں ہی نظر آتے ہیں ۔ہم نے درختوں کی اہمیت کو کبھی جانا ہی نہیں ۔ہائوسنگ سکیموں اورشاپنگ پلازوں کے چکر میں جہاں جہاں بس چلا درختوں پر کلہاڑا چلا یااوراس
کے نتیجے میں آج شہر میں محض چند سڑکیں ہی ایسی بچی ہیں جہاں ہمیں درخت یا کوئی سایہ دار شے نظر آتی ہے ورنہ ہر طرف تپتا سورج ہمیں درختوں کی بے قدری اور ہماری حماقتوں کی سز ا دینے کے لیے سوا نیزے پر ہی محسوس ہوتا ہے۔ ہرکوئی گرمی کی شدت میں اضافے سے پناہ مانگتا دکھائی دیتا ہے لیکن یہ کون سوچے گا کہ ہم انسان جو زمین سے فضا میں بھیج رہے ہیں قدرت وہی ہمیں واپس لوٹا رہی ہے۔ ہم درخت کاٹ کر زمین کی تپش میں خود اضافہ کررہے ہیں لہٰذا آسمان کی گرمی کو سہنے کا بھی حوصلہ ہونا چاہیے۔ لوگوں کی اکثر یت درخت کاٹنے اورائیرکنڈیشنڈکا استعمال نہ کرنے کے باوجود بھی یہ سب بھگت رہی ہے۔فیکٹریوں کے فضلے نے جہاں ہمارے پینے کے پانی کو آلودہ کیا وہاں ان کی چمنیوں سے اٹھنے والے دھویں نے بھی فضا کو خراب کیا ۔اس صورت حالات پر نظر رکھنے والے اورایسی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کے ذمہ دار اداروں کی چشم پوشی کے باعث نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب ہمیں نہ تو پینے کے لیے صاف پانی دستیاب ہے اورنہ ہی سانس لینے کے لیے بہتر فضا۔
سیاسی درجہ حرارت کااندازہ اس سے لگایا جاسکتا
ہے کہ غیرآئینی اقدامات کی انتہاکو چھونے والی جماعت کے گورنر پنجاب کوبھی بالاخر ذلت آمیز رسوائی کے ساتھ رخصت ہونا پڑا۔ گورنر ہائوس کواپنی جاگیر اوراختیارات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والے عمر سرفراز چیمہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں اپنے قائد اورپاکستان تحریک انصاف کے مختلف سوشل میڈیا گروپس میں ’’گرو ‘‘ کا درجہ پانے والے عمران خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنا نام بھی سیاہ حروف میں لکھوائے گئے ۔ اگلی باری یقینا صدر مملکت کی ہے کہ جنہوں نے اپنے عہد ے کی بھی لاج نہیں رکھی اور محض ایک پارٹی کے صدر بن کر رہ گئے ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت نے آئین کا ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر غیر آئینی اقدامات کے ذریعے سیاسی پارہ اس قدر بڑھانے کی کوشش کی کہ آئی ایس پی آر کو اس پر شدید ردعمل دینا پڑا ۔ فوج کی جانب سے ادارے کوبارہا سیاست میں نہ گھسیٹنے کی تنبیہ کی جاچکی ہے لیکن ماضی میں سیاستدانوں کی اس’’ آخری امید‘‘ کو ابھی مزید کچھ عرصہ اس حوالے سے اپنی کوشش کو جاری رکھنا ہوگا تاکہ آئندہ عمران خان اورشیخ رشید ٹائپ کوئی سیاستدان اپنی احمقانہ سیاست کا بوجھ اس ادارے پر ڈال کر اس کے پیچھے چھپنے کی کوشش نہ کرے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں