Zulfiqar Ali shah 100

جھوٹ اور جھوٹ کی سیاست

ذوالفقار علی شاہ

اپنے اصل موضوع پر آنے سے پہلے سوشل میڈیا پر وائرل ایک پوسٹ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ اس سے ہمیں اس بات کا اندازہ لگانے میں آسانی ہو گی کہ کس طرح سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ اس پوسٹ میں کہا گیا کہ مسلم لیگ نواز آئین کی دھجیاں بکھیر رہی ہے جو سمری منظور ہی نہیں ہوئی اس پر عمل درآمد کرانے پر کیا سزا بنتی ہے ۔یہ پوسٹ گورنر پنجاب کو ہٹانے کے متعلق تھی لیکن ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ آئین میں واضح آرٹیکل کی موجودگی کے باوجود بھی اس پر تحریک انصاف ابہام پیدا کرنے کی کوشش کرے گی اور جسے ہم ایک پوسٹ سمجھ رہے ہیں وہ باقاعدہ تحریک انصاف کا بیانیہ بن جائے گا ۔جس شخص کو آئین کا علم نہیںحالانکہ ہمارے خیال میں میڈیا کے اس متحرک دور میں سب کو پتا چل جاتا ہے کہ کون سا عمل آئین کے کس آرٹیکل کے تحت ہوا ہے لیکن یقینا بہت سے افراد اس بات سے لاعلم بھی ہوتے ہیں ۔ اس پوسٹ کے کمنٹس میں کافی تعداد واہ واہ کرنے والوں کی نظر آئی ۔ اب اس پورے عمل کی آئینی حیثیت یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 101اور 48کی شق ایک کے تحت وزیر اعظم جب اس طرح کی کوئی سمری صدر کو بھیجتے ہیں تو عام حالات میں صدر اسے فوری منظور کر لیتے ہیں لیکن اس وقت صدر مملکت چونکہ آئین پاکستان کی بجائے فکر عمرانی کے تابع کام کررہے ہیں اس لئے انھوں نے پندرہ دن تک اسے اپنے پاس رکھا اور پھر اسی طرح واپس بھیج دیا
۔اس کے بعد آئین یہ کہتا ہے کہ وزیر اعظم اسی سمری کو واپس صدر مملکت کو بھیجتے ہیں اور اگر صدر پھر بھی اس پر دستخط نہ کریں تو دس دن بعد سمری میں جو کچھ کہا گیا ہوتا ہے وہ از خود نافذ العمل ہو جاتا ہے ۔یہی کچھ گورنر پنجاب کی برطرفی کے معاملہ میں ہوا کہ جب دوسری مرتبہ آئینی مدت پوری ہوئی تو وفاقی حکومت نے ان کو ہٹانے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ۔اس پورے معاملے میں آئین کو موم کی ناک بنا کر اپنے مفاد میں اگر کسی نے استعمال کیا ہے تو وہ صدر مملکت اور اس کے بعد گورنر پنجاب ہیں ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ نئے گورنر پنجاب کے لئے بھی وزیر اعظم کی جانب سے صدر مملکت کو سمری جا چکی ہے لیکن لگتا ایسے ہے کہ اس پر بھی عمل پچیس دن بعد از خود ہی ہو گا اور صدر صاحب اس پر دسخط کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کریں گے اور اس وقت تک اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی قائم مقام گورنر پنجاب کے منصب پر فائز رہیں گے ۔ یہ انتہائی منفی طرز عمل ہے جو کہ تحریک انصاف کی جانب سے اپنایا جا رہا ہے ۔ صدر مملکت کے طرز عمل کے بعد کوئی بعید نہیں کہ کسی بھی وقت وہ وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں اور اس کے لئے وفاقی حکومت کو ہر وقت تیار رہنا چاہئے ۔
ہم صحیح ہیں باقی سب غلط ہیں ۔ہم غلط کہہ گئے خبط عظمت کے مارے خان صاحب تو اپنی ذات میں کسی اور کو شامل کرنے کو تیار ہی نہیں اس لئے درست یہ ہو گا کہ میں صحیح باقی پوری دنیا غلط ۔ خان صاحب کس حد تک خبط عظمت بلکہ ہم کہیں گے کہ خود پسندی کے پاگل پن میں مبتلا ہیں کہ ایک موقع پر انھوں نے کہا خدا کا پیغام نبی لے کر جاتے تھے اور میرا پیغام آپ لے کر جائیں اور اب ایک جگہ موصوف کہہ رہے تھے کہ شہر یار آفریدی عمرے پر کیوں چلے گئے عمرے سے زیادہ اس وقت ان کی یہاں موجودگی ضروری تھی ۔ ہمیں نہیں معلوم ہم بڑے گناہ گار بندے ہیں لیکن مسجد نبویﷺ کے واقعہ کے بعد ہم نے عرض کیا تھا کہ ’’ وقت ہر سچ کو جھوٹ کے منہ پر دے مارتا ہے اور 27ویں شب کو جو کچھ تحریک انصاف کے لوگوں نے کیا ہے اور ایک دن پہلے شیخ رشید کی پریس کانفرنس اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ سب کچھ قیادت کے کہنے پر ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ہوا ہے اس لئے اب ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں۔اس لئے کہ اب یہ ہمارے نہیں بلکہ خدائے بزر گ برتر کے مجرم بن چکے ہیں اور وہاں گستاخی کے مرتکب ہوئے ہیں کہ جس جگہ کے احترام کا حکم خودخدائے بزرگ و برتر کی ذات نے دے رکھا ہے ۔‘‘ ہمارے خیال میں عمران خان کی زبان اور ان کے طرز عمل سے جو کچھ بھی سرزد ہو رہا ہے یہ قدرت انھیں دھکیل کر اپنے انجام کی طرف لے کر جا رہی ہے اس لئے کہ کوئی بھی مسلمان جس کے دل میں رتی بھر بھی ایمان ہے وہ اس طرح کی اول فول نہیں بک سکتا ۔ٹھیک ہے سیاست میں بہت کچھ ہوتا ہے جیسا کہ عرض کیا کہ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کر کے دکھایا جاتا ہے لیکن اس میں کبھی کسی نے مذہب کو شامل نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے اس طرح کے بول بولے ہیں ۔
عمران خان جس طرح بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں اور اپنے تئیں ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان سے بڑا کوئی لیڈر نہیں ہے تو گذارش فقط اتنی ہے کہ اس حوالے سے کوئی ثبوت یا کوئی دلیل بھی تو پیش کریں ۔ حالت یہ ہے کہ کم و بیش ایک ماہ ہو گیا ہے آپ کی حکومت کو ختم ہوئے اور اس سے بھی پہلے ڈیڑھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے آپ کو عوامی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے لیکن ماسوائے مخالفین پر الزام تراشی اور وہ بھی بنا کسی ثبوت کے کوئی اور بات خان صاحب کہہ نہیں سکے اورلمبی لمبی تقریروں میں مجال ہے کہ پونے چار سالہ حکومت کی کارکردگی پر بھی کوئی ایک لفظ کہا ہو ۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ’’ باتیں کروڑوں کی اور دکان پکوڑوں کی ‘‘ ۔ الزام تراشی کا ایک فن خان صاحب کو آتا ہے اور وہی ایک پرانی کیسٹ ان کے اندر فٹ ہے اس کے علاوہ ان کے اور ان کی پوری جماعت کے پلے نہ کچھ تھا اور نہ اب ہے ۔اندازہ کریں کہ پونے چار سال مرکز میں اور نو سال ہونے کو آ رہے ہیں خیبرپختونخوا میں حکومت کرتے لیکن کارکردگی ایسی کہ جھوٹوں کے بادشاہ ہوتے ہوئے بھی اپنی حکومتی کارکردگی کے حوالے سے کچھ کہنے کے قابل نہیں ہیں ۔ اب تو قومی میڈیا والے بھی کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ ٹھیک ہے خان صاحب آپ اور آپ کی جماعت کے علاوہ باقی سب ملک دشمن اور غدار ہیں لیکن خدارا کوئی ثبوت بھی تو دیں ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ آپ نے ایک کاغذ لہرا کر کہہ دیا تو کیا آپ کے کہنے سے سب غدار اور ملک دشمن ہو جائیں گے ۔ آپ تو بہت کچھ کہتے رہتے ہیں لیکن آپ کے کہے میں سے اب تک کچھ بھی تو سچ ثابت نہیں ہو سکا تو اس اتنی بڑی بات کو ہم کیسے سچ مان لیں ۔آپ میں کس حد تک سیاسی سمجھ ہے اس کا پتا تو پوری دنیا کو لگ چکا ہے کہ جیسے ہی سہارہ دینے والے پیچھے ہٹے تو آپ بیساکھیوں کے بغیر جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی اپنی حکومت کو نہیں بچا سکے اور تاثر آپ ایسے دیتے ہیں کہ آپ سے بڑا کوئی لیڈر اس روئے زمین پر کوئی ہے ہی نہیں ۔کاش آپ کو علم ہوتا کہ لیڈر بننے کے لئے صرف تقریریں نہیں بلکہ کچھ کرنا بھی پڑتا ہے ۔ آنے والے دنوں میں حالات خوفناک رخ اختیار کرتے نظر آ رہے ہیں اس لئے کہ خان صاحب اپنے مفاد کے لئے ہر چیز کو داؤ پر لگانے کے لئے تیار ہو چکے ہیں ۔ دعا ہے کہ خدائے پاک ملک قوم کی حفاظت فرمائے آمین

ذوالفقار علی شاہ
Email:zulfqarshah@ymail.com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں