104

اصولوں کی سیاست

ذوالفقار علی شاہ

اس حقیقت میں تو شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ تحریک انصاف چاہتی ہے کہ فوج جلد از جلد انتخاب کروائے اور کچھ اس طرح کروائے کہ تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت مل جائے اور اگر ایسا نہ ہو تو بار بار الیکشن کروائے جائیں تاوقتیکہ تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت نہ مل جائے یعنی خان صاحب کا اصولی موقف ہے کہ سیاست ہم یقینا اصولوں کی کریں گے لیکن اصول وہ جو ہم طے کریں گے ۔ آئین چاہے جو مرضی کہتا رہے لیکن ہمارا صدر ، گورنر، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر ہمارے وضع کردہ اصولوں کی روشنی میں وہی کریں گے جوہم چاہیں گے۔ خان صاحب کی ماضی کی سیاست دیکھ لیں کہ 2002کے الیکشن میں وہ بمشکل میانوالی سے اپنی سیٹ جیت سکے مبینہ طور پر اس جیت میں بھی سرپرستوں کی آشیر باد حاصل تھی ۔ اس وقت ایک سیٹ کے ساتھ پوزیشن یہ تھی کہ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا ۔ یقین کریں کہ اگر اس اسمبلی میں خان صاحب کی کوئی دو چار سیٹیں بھی ہوتی تو خان صاحب نے زمین آسمان ایک کر دینا تھا ۔ اگر کسی کو ہماری بات کا یقین نہیں تو کسی سے بھی یوچھ لیں کہ خان صاحب اس وقت ایک سیٹ کے بل پر وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے تھے اور اسی یقین کی بنا پر انھوں نے ریفرنڈم میں جنرل مشرف کی حمایت بھی کی تھی لیکن جب مشرف نے لفٹ نہیں کروائی تو پھر یہ مشرف کے بھی خلاف ہو گئے یعنی بات وہی کہ
سیاست ہم اصولوں کی کریں گے لیکن اصول وہ جو ہم خود طے کریں گے ۔اس کے بعد 2008کے الیکشن میں انھوں نے حصہ نہیں لیا اور اس وقت تک ابھی جنرل شجاع کی مدد حاصل نہیں تھی اور دونوں بڑی جماعتیں چونکہ پارلیمنٹ میں تھیں تو خان صاحب کو بحالت مجبوری خاموش رہنا پڑا لیکن جیسے ہی 2011میں انھیں غیبی کمک مل گئی تو انھوں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا ۔ خبط عظمت میں شروع دن سے مبتلا ہیں اس لئے ان کا خیال تھا کہ 2013کے انتخابات میں انھیں بھاری اکثریت مل جائے گی لیکن جب ایسا نہیں ہوا تو انھوں نے بڑی مشکل سے ایک سال صبر کیا اور اس کے بعد اگست 2014میں لانگ مارچ اور دھرنا پروگرام شروع کر دیا جو 126دن تک جاری رہا ۔ اس دوران آپ کو یاد ہے کہ 35پنکچرز کا بڑا شور رہا لیکن بعد میں کسی موقع پر جب خان صاحب سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے بڑی معصومیت سے جواب دیا کہ وہ تو ایک سیاسی بیان تھا ۔اس کے بعد بھی خان صاحب نے نواز حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا ۔
2018کے الیکشن میں تحریک انصاف اپنی مقبولیت کے عروج پر تھی لیکن خیبرپختونخوا کے علاوہ کہیں سے بھی سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکی اور چونکہ اصولی سیاست اپنے طے کردہ اصولوں پر کرنی تھی تو اس وقت جہانگیر ترین اپنے ذاتی جہاز میں ارکان قومی اور پنجاب اسمبلی کو جس طرح بھر بھر کر بنی گالہ لا رہے تھے اور خان صاحب ہر آنے والے کے گلے میں تحریک انصاف کا پرچم ڈال رہے تھے تو جس طرح آج کل خان صاحب اور ان کے ساتھ پوری تحریک انصاف کو لوٹوں اور بکائو مال کی سیاست بری لگ رہی ہے اور ہر جگہ ہر جلسہ اور تقریر میں جس طرح خان صاحب لوٹا بننے والوں پر چنگھاڑ رہے ہیں اس وقت اس کے برعکس صدقے واری جا رہے تھے اور اب بھی نواز لیگ کے جوچھ ارکان تحریک انصاف کی حمایت کر رہے ہیں ان کا شمار نہ تو لوٹوں میں ہوتا ہے اور نہ ہی ضمیر فروشوں میں انھیں شمار کیا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ اصول وہی جو خان صاحب خود طے کریں گے ۔اب یہی دیکھ لیں کہ خان صاحب ہر جلسہ میں میاں شہباز شریف کو چیری بلاسم کہہ کر پکارتے ہیں ۔ اس سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ جرنیلوں کے بوٹ پالش کرتے ہیں ۔ یہ الزام لگانے کے بعد پھر وہ نیوٹرل کی تشریح شروع کرتے ہیں کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے ۔ جب جانور والی بات انھوں نے پہلی مرتبہ کہی تھی تو بہت زیادہ تنقید کے بعد انھوں نے کہا تھا کہ ان کا یہ مطلب نہیں تھا لیکن اب ایک مرتبہ پھر انھوں نے جانور والی بے معنی تشریح شروع کر دی ہے حالانکہ بڑی وایضح بات ہے کہ اسٹبلشمنٹ یعنی فوج کے نیوٹرل رہنے کا مطلب ان کی آئینی مجبوری ہے کہ وہ آئین میں دی گئی اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض منصبی انجام دیں ۔ اب خان صاحب دوسروں کو چیری بلاسم کے طعنے دیتے ہوئے اسی سانس میں خود چیری بلاسم بن کر کچھ اس طرح بوٹ پالش کرتے ہیں کہ فوج کے ترلے منتیں شروع کر دیتے ہیں کہ خدا کا واسطہ ہے نیوٹرل نہ رہو بلکہ حق کا ساتھ دو اور حق پر ظاہر ہے کہ خان صاحب ہی ہوں گے اور یا پھر حق پر وہ ہوں گے کہ جو خان صاحب کے ساتھ ہوں گے ۔
خان صاحب کی ماضی کی سیاست کی ایک جھلک دکھائی تو اب ماضی کے تناظر میں اگر ان کی مستقبل کی سیاست کو پرکھنا ہو تو بڑا واضح ہے کہ خان صاحب جس زور و شور سے نئے انتخابات کی بات کر رہے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیں کہ موجودہ صورت حال کا ایک ہی حل ہے کہ نئے انتخابات کرائے جائیں اور عوام فیصلہ کریں کہ حکومت کس نے کرنی ہے ۔ خان صاحب جب یہ بات کرتے ہیں تو در حقیقت ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جلد از جلد نئے انتخابات کروائے جائیں تاکہ عوام مجھے ووٹ دے کر منتخب کریں اور میں ملک کا وزیر اعظم بن جاؤں اگر اس کے علاوہ انتخابات کا کوئی اور نتیجہ نکلا تو پھر خان صاحب ہوں گے اور یہی جلسے جلوس اور لانگ مارچ اور دھرنوں کی سیاست ۔ اس لئے کہ جس طرح لاہور کے جلسہ میں کل نو ہزار کرسیاں تھی تو اسے ایک عظیم الشان جلسہ قرار دیا گیا اور ایبٹ آباد کے جلسہ کے متعلق تو خود خان صاحب کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے کہ جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ اتنے چھوٹے سے گرائونڈ میں جلسہ لیکن اس کے باوجود میڈیا میں ان کے مہربان اس جلسہ کو ایک نہایت کامیاب جلسہ قرار دے رہے ہیں ۔ اس قسم کا تاثر قائم ہی اسی لئے کیا جا رہا ہے کہ اگر الیکشن جلدی ہو جاتے ہیں اور ان انتخابات میں حسب منشا سیٹیں نہیں ملتی تو پھر احتجاج کرنے کے لئے جواز موجود رہنا چاہئے ۔ خان صاحب کی سیاست کا اول و آخر محور و مرکز ہی ان کی اپنی ذات ہے اور اس بات کا بخوبی اندازہ ان کے سیاسی طرز عمل سے لگایا بھی جا سکتا ہے کہ میں نہیں تو کوئی اور بھی نہیں لیکن اب حالات وہ نہیں جو 2014میں تھے اس لئے خان صاحب اگر لانگ مارچ کی کال دیتے بھی ہیں تو اس کا رسپانس اس شدید گرمی کے موسم میں حسب توقع نہیں ہو گا اور پھر اس سے پہلے جن آڈیوز اور وڈیوز کی بڑی دھوم ہے ان کے مارکیٹ میں آنے سے بھی کافی فرق پڑے گا لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے اصل بات یہ ہے کہ خان صاحب ملک و قوم کے مفاد سے بے پرواہ ہو کر ہر وہ کام کریں گے کہ جو ان کی ذات کو فائدہ پہنچا سکتا ہے اس لئے کہ ہم سیاست اصولوں کی کریں گے لیکن اصول وہ جو ہم خود طے کریں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں