117

یہ سب کیسے کریں گے؟

ذوالفقار علی شاہ

حکومت اور حزب اختلاف دونوں جلسہ جلسہ کھیل رہے ہیں ۔ ایک ہی دن میں تحریک انصاف نے میانوالی اور نواز لیگ نے اٹک میں جلسہ کیا ۔ مارچ میں جب اس وقت کی حزب اختلاف نے عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تو حکومت میں ہوتے ہوئے بھی خان صاحب نے جلسے کرنے شروع کر دیئے ۔ اس پر اگر کسی نے پوچھا کہ خان صاحب جلسے کیوں کر رہے ہیں جلسوں میں وہ ہزاروں بندے لا رہے ہیں تو اس کی بجائے وہ قومی اسمبلی میں فقط 172ارکان سمبلی دکھا دیں تو بات ختم ہو جائے گی تو جواب آتا تھا کہ خان صاحب کے مخالفین یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی عوام میں مقبولیت بہت کم رہ گئی ہے اس لئے وہ اپنے سیاسی مخالفین کو دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ ابھی بھی عوام میں مقبول ہیں ۔حکومت جانے کے بعد بھی خان صاحب جلسوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ بلا شبہ ان کا جمہوری حق ہے ۔ ان جلسوں کو خان صاحب کے حمایتی میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کی مقبولیت اس وقت ساتویں آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے اور ان کے مخالفین کی تو یہ حالت ہے کہ وہ عوام میں نکل نہیں سکتے یعنی آج سے ایک مہینہ پہلے جو بات عمران خان کے مخالفین ان کے متعلق کہہ رہے تھے اب وہی بات تحریک انصاف والے اپنے مخالفین کے متعلق کہہ رہے ہیں لیکن حیرت اس وقت ہوئی کہ جب مریم نواز نے اٹک میں جلسہ کیا تو توپوں کا رخ ان کی طرف ہو گیا کہ حکومت میں رہتے ہوئے انھیں جلسہ کرنے کی کیا ضرورت پڑ گئی حالانکہ مریم نواز کو بھی جلسے کرنے کا اتنا ہی حق ہے کہ جتنا عمران خان یا کسی اور کو ہے ۔
مریم نواز نے جو کہا اس پر تو بات کرنے کی ابھی ضرورت نہیں ہے لیکن خان صاحب نے ایک مرتبہ پھر 2018سے پہلے والی کیسٹ جو ان کے اندر فٹ کی گئی تھی اسے چلانا شروع کر دیا ہے ۔خان صاحب نے پونے چار سال کی حکومت میں جس بد ترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس کا انھیں خود بھی احساس تھا اسی لئے انھوں نے سازشی تھیوری کو مارکیٹ میں لانچ کیا لیکن لگتا ایسے ہے کہ انھیں خود بھی اندازہ نہیں تھاکہ ان کی یہ سازشی تھیوری ان کی مردہ سیاست کے تن بدن میں جان ڈال دے گی ۔انھوں نے جب دیکھا کہ ان کے جلسوں میں عوام کی ایک معقول تعداد شریک ہو رہی ہے تو چونکہ شاطر انسان ہیں تو انھیں بخوبی اندازہ تھا کہ سازشی تھیوری کی مدت اتنی زیادہ نہیں ہے اسی لئے اب انھوں نے عوامی اجتماعات میں پھر وہی 2018سے پہلے والے راگ الاپنے شروع کر دیئے ہیں کہ میں یہ کر دوں گا میں وہ کر دوں گا ۔ہمیں خان صاحب کے بلند و بانگ دعوئوں پر نہ کبھی پہلے اعتراض تھا اور نہ اب ہو گا لیکن اتنا حق تو ہمارا بنتا ہے کہ ہم ان سے یہ پوچھ سکیں کہ خان صاحب آپ جو دعوے کر رہے ہیں انھیں حقیقت کا روپ کیسے دیں گے ۔اس لئے کہ اب 2018نہیں ہے کہ جب آپ جو لالی پاپ دیتے تھے ایک طبقہ اسے من و عن قبول کر لیتا تھا اور ہم ایسے لوگ اگر ان دعوؤں کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتے توہمیں شٹ اپ کال دے دی جاتی ۔ اس وقت خان صاحب کہا کرتے تھے کہ نوے دن کے اندر سب ٹھیک کر دوں گا اور اگر کوئی پوچھتا کہ خان صاحب وہ کیسے تو جواب ملتا کہ اگر اوپر بیٹھا بندہ یعنی وزیر اعظم ٹھیک ہو گا تو نیچے سب از خود ٹھیک ہو جائے گا لیکن اب پونے چار سال کے ہولناک تجربہ نے عملی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ یہ سب کہانیاں تھیں جو عوام کو کرائی گئی ۔ اس لئے کہ اگر یہ کہانیاں نہیں تھیںتو پھر سب کچھ ٹھیک ہونے کی بجائے مزید بگاڑ کیوں پیدا ہوا ۔دوسرا 2018میں تو نہیں لیکن اب تو اوپر والے بندے کی اپنی ذات پر فرح گوگی سے لے کر توشہ خانے اور فارن فنڈنگ تک بیشمار سوالات جنم لے چکے ہیں ۔ اس لئے اب بات صرف دعوؤں کی نہیں ہو گی بلکہ ان کو عملی جامہ کس طرح پہنایا جائے گا اس کی بھی وضاحت کرنی پڑے گی ۔
اپنی تقریروں میں ایک جانب تو خان صاحب قوم کو خوددرای کا درس دیتے ہیں اور دوسری جانب وہ معیشت کی بات کرتے ہیں بظاہر یہ دونوں باتیں سننے میں بڑی اچھی لگتی ہیں لیکن در حقیقت دونوں باتوں میں زبردست تضاد ہے ۔آج کے دور میں جب تک کسی ملک کی معیشت بہتر نہیں ہوتی اس وقت تک خودداری کے نعرے ماسوائے فریب کاری کے اور کچھ نہیں ۔خودداری کے ان پر فریب لیکن کھوکھلے نعروں سے ملک کو جو نقصان پہنچ سکتا ہے ہمیں اجازت دیں کہ ہم کھل کر اس پر بات کر سکیں ۔
ان نعروں سے ملکی معیشت کو ویسا ہی نقصان پہنچے کا احتمال ہے کہ جیسا دہشت گردی سے ملکی معیشت کا ستیاناس ہوا ہے اور لگتا ایسے ہے کہ جو کسر رہ گئی ہے اب خان صاحب ملک دشمن بیرونی ایجنڈے پر کام کر کے اسے پورا کرنا چاہتے ہیں ۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 9/11کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو جس طرح آج خان صاحب امریکہ کے خلاف خودداری کے درس دیتے نہیں تھک رہے بعینہ اسی طرح اس وقت مذہبی طبقہ امریکہ ہی کے خلاف ہمیں خودداری کے درس دیا کرتا تھا ۔ملا فضل اللہ کے سسر صوفی محمد سوات سے دو ہزار لوگوں کو لے کر امریکہ کو فتح کرنے افغانستان لے گئے لیکن چند ہی دنوں میں والدین کے جگر گوشوں کو مروا کر جب واپس آئے تو پھر افغان بارڈر پر رک گئے اور مشرف حکومت کی منتیں کرنے لگ گئے کہ انھیں گرفتار کر لیا جائے کہ اگر فوری طور پر اپنے علاقہ میں جائیں گے تو جن بچوں کو بے موت مروا کر آ رہے ہیں ان کے ورثاء انھیں نہیں چھوڑیں گے ۔خودداری کے وہ درس اس حد تک بڑھے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد دہشت گردوں کو امریکہ مخالف مجاہدین سمجھ کر دہشت گردی پر بھی برسوں خاموش رہی ۔اب پینترا بدل کر خان صاحب قوم کو ایک اور طریقہ سے اسی امریکہ کے خلاف خودداری کے درس دے رہے ہیں اور یہ جو امریکہ کے خلاف ہر جلسہ میں بڑی بڑی بڑھکیں ماری جا رہی ہیں تو لگ ایسے رہا ہے
کہ خان صاحب کی کوشش ہے کہ امریکہ کسی طرح پاکستان کی برآمدات پر پابندی لگا دے جو کہ پاکستان کی کل برآمدات کا بیس فیصد ہے اور معیشت جو پہلے ہی آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر ہے اس کا دھڑن تختہ ہو جائے اور اگر خان صاحب دوبارہ اقتدار میں آئیں کہ جس کا امکان بہت کم ہے تو جس طرح انھوں نے پونے چار سال کے عرصہ میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ قرض لینے کا ریکارڈ بنا کر بھی اپنے دعوؤں کے برعکس خود کشی نہیں کی تو خودداری پر بھی انھوں نے یو ٹرن لے کر وہ امریکنوں کے بھی اسی طرح ڈرائیور بن جائیں گے کہ جس طرح خودی کے چمپئن سعودی ولی عہد کے بنے تھے ۔بات خودداری کی نہیں ہے بلکہ اصل بات کرپشن کی وہ وڈیوز اور ناقابل تردید ثبوت ہیں کہ جو آنے والے دنوں میں خان صاحب کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ خان صاحب اس شدید گرمی کے موسم میں لانگ مارچ اور دھرنے کی کال دے رہے ہیں لیکن دیوار پر لکھا صاف نظر آ رہا ہے کہ آنے والے دن خان صاحب اور پی ٹی آئی کے لئے اچھے دنوں کی نوید نہیں بلکہ مشکلات کا پیغام لا رہے ہیں ۔ کیونکہ جنہوں نے بڑی محنت کے ساتھ عمران خان جیسے خود غرض،لالچی،کنجوس،اور منگتے خان کی ایمانداری کا ڈھونگ رچا کر اس کی طرف نوجوان نسل کو راغب کیا تھا وہی لوگ اب اس کے چہرے سے ایمانداری کا جعلی نقاب نوچ پھینک کر اس کی اربوں کھربوں کی کرپشن منظر عام پر لائیں گے کہ اب اس جن کو بوتل میں بند کرنے کا وقت آگیا ہے جو بوتل سے نکالنے والوں کو ہی آدم بو ،آدم بو کرکے ان کے گلے پڑ رہا ہے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں