89

آزادی صحافت کا دن اور دنیا میں صحافت کے لیے خطرات

خصوصی تحریر

پیرس میں قائم میڈیا پر نظر رکھنے والے ادارے رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف)نے 3 مئی کو عالمی یوم صحافت کے موقع پر اپنی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق میڈیا کی آزادی کی عالمی فہرست میں پاکستان 12 درجے تنزلی کے بعد 157ویں نمبر پر آگیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق آر ایس ایف نامی میڈیا ایڈوکیسی گروپ کی جانب سے رواں ہفتے جاری کردہ ‘2022 فریڈم انڈیکس’ نے پورے جنوبی ایشیا میں بھی عمومی کمی کو ظاہر کیا۔
180 ممالک کی فہرست میں پاکستان 2021 کے انڈیکس میں 145 ویں نمبر پر تھا اور 2022 میں تنزلی کا شکار ہوکر 157 ویں نمبر پر آگیا، بھارت 8 درجے تنزلی کا شکار ہوکر 150 ویں نمبر پر آ گیا جو گزشتہ سال 142 ویں نمبر پر تھا۔
نیپال کے علاوہ تمام جنوبی ایشیائی ممالک نے آر ایس ایف 2022 ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا، رواں سال سری لنکا 127ویں، بنگلہ دیش 152ویں اور میانمار 140ویں نمبر پر ہے، تاہم نیپال نے عالمی درجہ بندی میں 30 پوائنٹس کا اضافہ حاصل کیا جو گزشتہ سال کے 106 ویں نمبر سے 76 ویں پوزیشن پر چلا گیا۔
واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس دن ایک خصوصی نیوز بریفنگ کا انعقاد کیا جس میں عالمی برادری کو یاد دلایا گیا کہ ایک متحرک آزاد میڈیا کسی بھی صحت مند جمہوریت کا سنگ بنیاد ہے۔بریفنگ میں ایک سوال کے جواب میں چیف امریکی سفارت کار نے پاکستان میں میڈیا کی حالت پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ اس معاملے کو اٹھاتے ہیں، یہ انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹس کا بھی ایک اہم جزو ہے جو ہم پیش کرتے ہیں، یقینا ہم پاکستان میں بڑے پیمانے پر میڈیا آؤٹ لیٹس اور سول سوسائٹی پر نمایاں پابندیوں سے آگاہ ہیں۔
انٹونی بلنکن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ایک متحرک آزاد میڈیا اور باخبر شہری پاکستان سمیت کسی بھی قوم اور اس کے مستقبل کے لیے اہم ہیں، انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان میں ہم اس حوالے سے جو طرز عمل دیکھتے ہیں وہ اظہار رائے کی آزادی کو مجروح کرتا ہے، وہ پرامن احتجاج کو نقصان پہنچاتا ہے، وہ پاکستان کے تاثر اور ترقی کی صلاحیت کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
آر ایس ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1947 کے بعد سے پاکستان سول سوسائٹی کی جانب سے آزادی صحافت کی جدوجہد اور سیاسی اور فوجی اشرافیہ کی جانب سے میڈیا پر کنٹرول کی کوششوں کے درمیان کشمکش کا شکار ہے۔
مزید بتایا گیا کہ 2002 کے بعد سے پاکستان میں میڈیا کا منظر نامہ انتہائی متنوع ہو چکا ہے اور ملک میں اب 100 کے قریب ٹی وی چینلز اور 200 سے زیادہ ریڈیو سٹیشنز ہیں جو نسبتا کم شرح خواندگی والی آبادی کو خبریں اور معلومات فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں انگریزی پریس کو آزادی کی ایک مضبوط روایت حاصل ہے اور 2 سرکردہ میڈیا گروپس ‘جنگ اور ڈان’ اس کی نمایاں مثال ہیں۔
سیاسی تناظر:
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاسی طاقت میں تبدیلی کے باوجود یہ روایت بدستور برقرار رہتی ہے کہ حزب اختلاف میں سیاسی جماعتیں آزادی صحافت کی حمایت کرتی ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے خود اسے محدود کرتی ہیں۔ یہ بھی دعوی کیا گیا کہ سیاست میں فوج اور انٹیلی جنس ایجنسی کی مداخلت کی کوریج صحافیوں کے لیے ممنوع ہوچکی ہے۔ مزید کہا گیا کہ صحافت کے تحفظ کی آڑ میں پاکستانی قانون حکومت اور مسلح افواج پر کسی بھی قسم کی تنقید کو سنسر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔آر ایس ایف کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ان مبہم قوانین کے نتیجے میں حکام کی جانب سے متعین حدود کو عبور کرنے والے صحافیوں کو بھاری انتظامی اور مجرمانہ سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
معاشی تناظر:
یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ نجی ملکیت والے میڈیا(خاص طور پر مقامی میڈیا)کے ادارے اپنی فنڈنگ کے لیے سرکاری اشتہارات اور قانونی اعلانات پر انحصار کرتے ہیں جس کے نتیجے میں صوبائی اور قومی سطح پر اطلاعات کی وزارتوں کو ادارتی پالیسی پر اثر انداز ہونے کے لیے اشتہارات واپس لینے کی دھمکیاں دینے کا موقع ملتا ہے۔
جو میڈیا آؤٹ لیٹس حدود کو عبور کرنے کی ہمت کرتے ہیں انہیں ہر طرح کے مالی انتقام کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ امر سیلف سنسرشپ کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے کہ جب میڈیا اداروں کو مالی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو صحافیوں کی تنخواہوں میں اکثر کٹوتی کی جاتی ہے۔
دوسری جانب عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں روس کی عالمی درجہ بندی یوکرین پر حملے کے بعد اور کریملن کی سنسرشپ پالیسی کی وجہ سے ایک بار پھر گر گئی ہے۔ میانمار ہو یا میکسیکو صحافی خبریں پہنچانے کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے رہتے ہیں۔
روسی حکومت یوکرین پر حملے کے بارے میں عوام کے نقطہ نظر کو کنٹرول کرنے کے لیے خبروں اور معلومات تک رسائی پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے۔ ‘رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی جانب سے یہ بات تازہ ترین ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں شائع کی گئی ہے۔
اس ادارے کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جنگ کے دوران سنسرشپ اس حد تک پہنچا دی ہے کہ جس کی مثال سوویت یونین کے ادوار میں ہی دیکھنے کو ملی تھی۔ ماسکو حکومت یوکرینی جنگ کے لیے جواز پیش کرنے پر بڑے پیمانے پر غلط معلومات کی مہم شروع کر رکھی ہے۔
روس، پہلے آزاد میڈیا کے خلاف ایک دہائی کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں 180 ممالک میں 150 ویں نمبر پر تھا۔ تازہ ترین انڈیکس میں مزید پانچ درجے گر کر زمبابوے، سوڈان اور لیبیا سے بھی نیچے، 155 پر آ گیا ہے۔
یوکرین کی نیشنل یونین آف جرنلسٹس کے مطابق، 24 فروری کو یوکرین میں روسی حملے کے بعد سے کم از کم 20 صحافی اور میڈیا کارکن ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ صدر پوٹن کی جانب سے میڈیا اور صحافیوں پر پابندی جنگ سے پہلے عائد کر دی گئی تھی۔ سن 2017 سے تقریبا 90 میڈیا ادارے اور افراد کو غیر ملکی ایجنٹ کا لیبل لگایا گیا ہے اور انہیں گرفتار کرنے یا ملک سے فرار ہونے پر مجبور کیا گیا ہے۔
ہانگ کانگ اس درجہ بندی میں 68 درجے گر کر 148 ویں نمبر پر آگیا اور اسی کے ساتھ سعودی عرب بھی 166 ویں نمبر پر ہے۔ اس ملک کو صحافیوں کے لیے بد ترین قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی رپورٹ کے مطابق یہ رجحان سابقہ سوویت یونین کے حلیف ممالک جس میں بیلاروس بھی شامل ہے، میں پایا جاتا ہے۔ بیلاروسی میڈیا آؤٹ لیٹس کی بڑھتی ہوئی تعداد کو انتہا پسند عناصر کا لیبل لگا کر ان کے پڑھنے اور شیئر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ بیلاروس میں 20 سے زائد میڈیا کارکن اس وقت جیل میں ہیں۔ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس ان شدید خطرات کی نشان دہی کرتا ہے جن کا صحافیوں اور بہت سے ذرائع ابلاغ کو عالمی واقعات کی رپورٹنگ میں آمریت کی وجہ سے سامنا ہے۔
افغانستان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے 156 ویں نمبر پر ہے۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صحافی تنازعات والے علاقوں سے یا جرائم پیشہ گروہوں کے کام پر رپورٹنگ کرتے ہوئے اکثر موت کا خطرہ مول لیتے ہیں۔ اس درجہ بندی میں میکسیکو 127 نمبر پر ہے۔ جہاں 2021 میں کم از کم سات صحافیوں کو قتل کیا گیا تھا میڈیا کے لیے یہ ملک دنیا کا سب سے خطرناک ترین ملک جانا جاتا ہے۔
پچھلے ایک سال کے دوران مشرق وسطی میں کئی صحافیوں کو ہلاک کیا گیا۔ بشمول لبنان 130 ویں پوزیشن پر ہے، جہاں ایک صحافی اور اسلامی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے ناقد لقمان سلیم اپنی کار کے قریب مردہ پائے گئے۔ کئی دیگر یمن اور اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازعات کا احاطہ کرتے ہوئے ہلاک ہوئے۔
افریقہ میں، دو ہسپانوی صحافیوں کو گزشتہ سال برکینا فاسو میں قتل کر دیا گیا تھا، یہ 41 ویں نمبر پر ہے۔ فرانسیسی رپورٹر اولیور ڈوبوئس کو مالی میں مسلح گروہ نے اغوا کر لیا تھا۔ ترکی اس فہرست میں 149ویں نمبر پر ہے جہاں متعدد صحافیوں پر قاتلانہ حملے کیے گئے۔ ایران کا نمبر البتہ ترکی کے کافی بعد آتا ہے۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے شمالی افریقہ کو ایک ایسے خطے کے طور پر پیش کیا ہے جہاں آزادی صحافت میں نمایاں کمی آئی ہے اور کئی صحافی اس وقت جیل میں اپنے مقدمات کی سماعت اور انصاف کا انتظار کر رہے ہیں۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے شمالی افریقہ کو ایک ایسے خطے کے طور پر پیش کیا ہے جہاں آزادی صحافت میں نمایاں کمی آئی ہے اور کئی صحافی اس وقت جیل میں اپنے مقدمات کی سماعت اور انصاف کا انتظار کر رہے ہیں
دنیا بھر کے کئی سیاست دانوں نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کتاب سے اتفاق کیا ہے۔ وہ خبروں کے لیے ‘فیک نیوز کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ صدر جو بائیڈن کے دور میں امریکہ کے حالات صحافیوں کے لیے کچھ بہتر ہوئے ہیں۔ اس فہرست میں امریکہ دو درجے کی بہتری کے بعد 42 ویں نمبر پر آگیا ہے۔
اس لسٹ میں ناروے سرفہرست ہے، نیدر لینڈ ٹاپ 10 سے باہر ہو گیا ہے اور اب صحافی پیٹر آر ڈی وریس کے قتل کے بعد 28 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے ۔ یونان 108 ویں نے یورپ میں بلغاریہ کی 91 ویں جگہ لے لی ہے۔ کچھ یورپی یونین اور ہمسایہ حکومتوں کو صحافیوں کے خلاف سخت قوانین لاگو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان ممالک میں سلووینیہ 54 ویں، پولینڈ 66 ویں، ہنگری 85 ویں اور البانیہ 103 ویں شامل ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں