118

جہاں ادب کے معیار بدل جاتے ہیں

ذوالفقار علی شاہ

سورہ حجرات آیت نمبر دو میں ارشاد ربی ہے ‘ترجمہ:اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو۔
مسجد نبوی ۖ میں جو واقعہ پیش آیا ایک مسلمان کی حیثیت سے فوری کالم لکھا جو 30اپریل کو شائع ہوا ۔کوشش یہی تھی کہ فرض ادا کریں لیکن ہمارے اس کالم پر کچھ قریبی عزیزوں نے اعتراض کر دیا اور اس کے بعد کچھ واقعات ایسے رونما ہوئے کہ جس پر احباب نے کہا کہ ان پر صرف رائے زنی کافی نہیںبلکہ یہ انتہائی حساس معاملات ہیں لہٰذا اس پر ایک کالم لکھنا بنتا ہے ۔ ہم ایسے گناہگار کے لئے تو یہ بات کسی سعادت سے کم نہیں ہے کہ ہمیں آقا کریم ۖ کی شان میں کچھ کہنے کا موقع ملے ۔ سب سے پہلے ہمارے کالم پر جو اعتراض ہوا اس پر بات کر لی جائے ۔ ہم اس اعتراض کے حوالے سے کچھ نہیں کہیں گے تاکہ کسی کے پاس مزید بحث کا جواز نہ پیدا ہو جائے ۔اعتراض یہ تھا کہ جو کام ابھی مسجد نبوی میں ہوا ہے یعنی میاں شہباز شریف اور ان کے ساتھ پاکستانی حکومتی وفد کو دیکھ کر وہاں موجود کچھ لوگوں نے جس طرح شور مچایا تو اسی طرح کا شور تو 2019میں جب وزیر اعظم کے طور پر عمران خان مسجد نبوی ۖ گئے تھے تو اس وقت یہی کام نواز لیگ کے حامیوں نے کیا تھا تو اس وقت کسی کی دینی حمیت اور غیرت کیوں نہیں جاگی تھی اور ہم پر خاص طور پر اعتراض یہ تھا کہ اس وقت ہم نے کالم لکھ کر مذمت کیوں نہیں کی ۔اس لئے اب کالم لکھنا صرف عمران خان کی مخالفت کرنا ہے اور کچھ نہیں ۔
ہم نے اسی عنوان سے جو کالم لکھا تھا اس کی ابتدا بھی سورہ حجرات کی اسی آیت سے کی تھی ۔2019میں جنھوں نے عمران خان کی مسجد نبوی ۖ میں موجودگی پر شور مچایا تھا تو وہ بھی اتنے ہی گناہگار تھے جتنے کہ موجودہ شور مچانے والے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن پاک کا ایک ایک لفظ ایک ایک آیت صرف تحریک انصاف والوں کے لئے نہیں ۔ صرف نواز لیگ کے لئے نہیں ۔ صرف پاکستان پیپلز پارٹی والوں کے لئے نہیں بلکہ قیامت تک اس کرہ ارض پر بسنے والے ہر جن و انس کے لئے ہے اور سب پر قرآن پاک کے ایک ایک حرف پر نہ صرف یہ کہ ایمان لانا ضروری ہے بلکہ عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔ ہم گناہگار انسان ہیں اس لئے عین ممکن ہے کہ بہت سی دین کی باتوں پر عمل نہ کرتے ہوں لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ شریعت کے کسی حکم پر عمل نہ کرنا گناہ کے زمرے میں آتا ہے لیکن اس گناہ پر اترانا یا اس کی تاویلیں کرنا ”عذر گناہ بدتر از گناہ” میں شمار ہو گا اور اگر بات میرے آقا ۖ کی حرمت کی ہو تو وہاں تو ادب کے قرینے ہی بدل جاتے ہیں ۔ہم کسی لگی لپٹی کے بغیر کہتے ہیں کہ 2019میں ہمیں یاد نہیں ہے لیکن اگر اس وقت مسجد نبوی ۖ میں نواز لیگ کے حمایتی کچھ لوگوں کے شور کا واقعہ ہمارے علم میں آیا تھا اور ہم نے اس سے صرف نظر کیا تھا تو خدائے پاک ہمیں معاف کرے ہم بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے تھے لیکن اگر ہمارے علم میں نہیں آیا تھا تو دعا ہے کہ خدائے پاک ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ہماری نیت پر شک کرنے والوں کو یا ہم پر اعتراض کرنے والوں کو کچھ اپنے کردار پر بھی ضرور نظر ڈالنی چاہئے کہ موجودہ واقعہ کے ایک آدھ دن بعد ہی جو عزیز ہم پر اعتراض کر رہے تھے انھی کی جانب سے ایک وڈیو بلاول بھٹو زرداری کی موصول ہوئی کہ جس میں بلاول اسی جگہ سے گذر رہے تھے اور مسجد نبوی ۖ میں جئے بھٹو کے نعرے لگ رہے تھے ۔ ہم نے اس وڈیو کہ جس میں جعل سازی سے جئے بھٹو کی آڈیو شامل کی گئی تھی جب اصلی وڈیو بھیجی تو پھرفضول بحث لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جنھوں نے مسجد نبوی ۖ کے مقام پر جھوٹ تراشا اور فقط اس لئے کہ اپنے فعل کا جواز پیدا کر سکیں کیا وہ قابل مذمت نہیں ہیں اور کیا ان کی نظر میں اگر مسجد نبوی ۖ کا کوئی تقدس تھا تو کیا وہ ایسا کرتے لیکن جیسا کہ عرض کیا کہ احکام شریعت سب کے لئے ہیں اور ہر ایک پر یکساں لاگو ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے قیامت تک ہر جن و بشر کے لئے ۔
اس کے بعد بات کرتے ہیں دوسرے معاملہ کی کہ جو اسی سے منسلک ہے اور اس پر بھی دل سے قریب جو اہل درد ہیں انھوں نے کالم کی ہدایت کی ہے اور درحقیقت اس پر بھی کالم لکھنا بنتا ہے ۔ مسجد نبوی کے واقعہ پر حکومت نے تحریک انصاف کے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی ہیں ۔ اس کے بعد شیخ رشید کے بھتیجے جو تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی بھی ہیں انھیں پاکستان واپسی پر اسلام آباد ائر پورٹ سے گرفتار کر لیا گیا اور اب وہ چودہ روزہ ریمانڈ پر جیل میں ہیں ۔ان مقدمات کے حوالے سے تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے اقوام متحدہ کو خط لکھ دیا ۔ جس میں موقف اختیا کیا گیا کہ یہ مقدمات آزادی رائے کے منافی ہیں اور حکومت پاکستان کو توہین مذہب کے غلط استعمال سے روکا جائے ۔میڈیا میں جو رپورٹ ہوا ہے اگر ایسا ہی ہے تو پہلی بات یہ ہے کہ مسجد نبوی ۖ میں شور کرنا کسی طرح بھی آزادی رائے میں شمار نہیں ہوتا اور ہم بار دیگر کہہ رہے ہیں کہ اگر اقوام متحدہ کو لکھے خط میں آزادی رائے کا ذکر ہے تو یہ بات ہر طرح سے قابل مذمت ہے اور یہ اتنی ہی سنگین ہے کہ جتنی مسجد نبوی ۖ میں شور مچانا ۔ اس لئے کہ کچھ بد بخت جب میرے آقا دو جہاں ۖ کی ذات کے متعلق گستاخی کرتے ہیں تو جب ان پر بات کی جاتی ہے تو وہ لوگ بھی اسے آزادی رائے کہتے ہیں ۔ جو لوگ یہ بات کر رہے ہیں کہ یہ واقعہ منظم نہیں ہے تو عمران خان صاحب کے دوست کا لندن سے عین پاکستانی وفد کی آمد پر وہاں موجود ہونا اور کسی کا چیخ چیخ کر انھیں پکارنا ۔ شیخ رشید کا ایک دن پہلے غیر مبہم انداز میں اس واقعہ کی پیشگی اطلاع دینا اور شیخ رشید کے بھتیجے کے اس پر اظہار تفاخر کی وڈیو کیا یہ سب اس بات کے اشارے نہیں کہ یہ سب کچھ ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عدالت کے حکم کے باوجود بھی شیخ رشید کے بھتیجے راشد شفیق نے اپنا موبائل پولیس کو نہیں دیا ۔ آخر میں صرف اتنا کہیں گے کہ سیاست کو سیاست تک محدود رہنے دیں اس میں مذہب کو گڈمڈ نہ کریں ۔ہمیں کسی سیاسی لیڈر نے نہیں بلکہ نبی پاک ۖ کی شفاعت اور خدائے پاک کی رحمت نے جنت میں لے کر جانا ہے اس لئے جو لوگ سیاست کو مذہب پر فوقیت دے کر مسجد نبوی ۖمیں ہونے والے واقعات پر تاویلیں اور صفائیاں دینے کی جسارت کر رہے ہیں انھیں دوسروں پر تنقید سے پہلے اپنے ایمان کی فکر ضرور کرنی چاہئے ۔

ذوالفقار علی شاہ
Email:zulfqarshah@ymail.com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں