Zulfiqar Ali shah 104

بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ

ذوالفقار علی شاہ

ملکی سیاسی تاریخ میں پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ سے ہی انوکھی مگر مثبت روایات قائم کرنے کا شاندار ریکارڈ رکھتی ہے۔یہ واحد پارٹی ہے جس کی پوری لیڈر شپ نے ہی سب سے بڑھ کر جمہوریت کے لئے قربانیاں دیں اور وہ بھی جانوں کے نذرانوں کی صورت میں ۔اب اس پارٹی کے بانی چئیرمین قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جانشین بیٹی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے لختِ جگر نے اپنے نانا کی طرح جس سیاسی سفر کا آغاز کیا ہے وہ نانا کی ہی وزارت خارجہ والی کرسی ہے جس پر وہ متمکن ہونے والے سب سے کم عمر وزیر ہیں ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کے بطور وزیر خارجہ حلف اٹھانے میں چند دن کی جو تاخیر ہوئی اس میں تحریک انصاف کیمپ کو بہت کچھ کہنے سننے کو مل گیا ۔جس دن کابینہ نے حلف اٹھایا تو اس کے باوجود بھی کہ اس کابینہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان موجود تھے اور اس سے بھی پہلے اس حکومت میں وزیر اعظم کے بعد کسی نے انتہائی اہم عہدے کے لئے اگر حلف اٹھایا تو وہ اسپیکر قومی اسمبلی کے لئے راجہ پرویز اشرف تھے لیکن اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان اختلافات کی خبروں کو خوب ہوا دی گئی اور کہا گیا کہ بلاول کا حلف نہ اٹھانا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومتی اتحاد میں یقینا کچھ گڑبڑ ہے ۔یہ منفی پروپیگنڈا چل رہا تھا لیکن دونوں جماعتوں کے اکابرین سے جب میڈیا والے
پوچھتے تو ان کی جانب سے انتہائی مثبت انداز میں بتایا جاتا کہ کچھ نہیں ہے بس چند دن بعد بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ کا حلف اٹھا لیں گے ۔خود
پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے واضح انداز میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ بلاول لندن میں میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد واپس پاکستان آ کر حلف اٹھا لیں گے لیکن جھوٹ کی فیکٹریوں نے اپنا کام جاری رکھا اور پروپیگنڈا کادائرہ دیگر اتحادی جماعتوں تک وسیع کر دیا گیا ۔اس پروپیگنڈا سے فی الوقت حکومت یا اس کی اتحادی جماعتوں کے تعلقات پر تو کوئی اثر نہیں پڑا ۔ اس کی وجہ ہے کہ ابھی اس حکومت کو قائم ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں تو ہر اتحادی نے بلند و بانگ دعوئوں کے ساتھ اس حکومت میں شمولیت اختیار کی تھی اس لئے اگر بالفرض محال مان بھی لیا جائے کہ درون خانہ تعلقات میں کوئی دراڑ آ چکی ہے تو پھر بھی اس کے اظہار کے لئے کچھ وقت درکار ہوتا ہے لیکن حال کی گھڑی تک تو ایسی کوئی بات ہوئی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی اگر اس طرح کا منفی پروپیگنڈا کیا جاتا رہے گا تو اس سے ملک میں سیاسی استحکام کی بجائے عدم استحام اور انتشار کی کیفیت جنم لے گی کہ جو پہلے سے موجود معاشی ابتری میں مزید اضافہ کا باعث بنے گی ۔بلاول کے وزیر خارجہ بننے کے بعد حکومتی اتحاد میں اختلافات کے تاثر میں کمی آئے گی ۔
کیسا عجیب اتفاق ہے کہ بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کم عمر ترین صدر ، بلاول کی والدہ محترمہ شہید بینظیر بھٹو کم عمر ترین وزیر اعظم اور اسلامی دنیا کی پہلی وزیر اعظم اور بلاول بھٹو زرداری دنیا کے کم عمر ترین وزیر خارجہ ۔خارجہ تعلقات کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو برسوں کی نالائقی اور نا اہلی کے سبب کئی سالوں سے دنیا میں پاکستان تنہائی کا شکار ہے اور کس حد تک تنہائی ہے اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کا نو منتخب صدر پاکستان کے وزیر اعظم کی لاکھ کوشش اور ترلے منت کرنے کے بعد بھی اسے ایک فون کال تک کرنا گوارہ نہیں کرتا کہ جسے اب ہمارے سابقہ وزیر اعظم ایک مراسلہ کو بنیاد بنا کر خودداری ، آزادی اور پتا نہیں کون کون سی کہانیاں عوام کو کرا رہے ہیں لیکن اس سے بھی قطع نظر کہ بحث سے بچنے کے لئے اگر تھوڑی دیر کے لئے اس سازشی تھیوری کو مان بھی لیں تو جب مودی سرکار نے ہندوستان کے آئین میں ترمیم کر کے کشمیر کو ہندوستان کا حصہ بنا لیا تھا تو عمران حکومت کی ناکامی کی انتہا تھی کہ غیر تو غیر جس اسلامی امہ کے عمران خان نام نہاد لیڈر بنے ہوئے تھے اس اسلامی دنیا میں سے کسی ایک برادر مسلم ملک نے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا اس سے بڑھ کر ہماری سفارتی اور خارجہ سطح پر کیا ناکامی ہو گی لیکن داد دینی چاہئے ان کو کہ جب حکومت نہیں رہی تو جھوٹاپروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ روس کے دورے کے دوران سستی بجلی اور گیس کے معاہدے پر بات ہو گئی تھی ۔اگر بات ہو گئی تھی تو اتنی دیر قوم کو بتایا کیوں نہیں اور اگر بات ہو ہی گئی تھی تو اس کے لئے یقینا کسی ایم او یو پر دستخط ہوئے ہوں گے کہ جس طرح سی پیک پر عمل درآمد تو نواز لیگ کے دور میں ہوا لیکن اس پر دستخط و زرداری حکومت میں ہوئے تھے کہ جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا تو اگر عمران خان کے دورے کے دوران اس طرح کے کسی معاہدے کے لئے دونوں ممالک کے دومیان کوئی بات چیت یا انڈر اسٹیڈنگ ہوئی تھی تو اس کا کوئی دستاویزی ثبوت بھی ہو گا لیکن ایسی کوئی چیز اس لئے نہیں ہو گی کیوں کہ خان صاحب کو بھی اپنی ناکامیوں کا پتا ہے اور انھیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ جب ان کی جگہ پر کوئی دوسرا آئے گا تو اس نے اپنی اہلیت کے مطابق کارکردگی دکھانی ہے لہٰذا جو کام آنے والے نے مستقبل میں کرنا ہے اس کا کریڈٹ خود لے لو ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جس طرح پونے چار سال کے عرصہ میں عمران خان نے کوئی بڑا تو کیا کوئی چھوٹا پروجیکٹ بھی شروع نہیں کیا تھا لیکن پچھلی حکومتوں کے شروع کئے گئے منصوبوں کا دو دو تین تین بار افتتاح کر کے اپنے نام کی تختیاں ضرور لگا دیں تھیں کہ جس کے بعد پتا چلے کہ یہ منصوبے تحریک انصاف کی حکومت نے شروع کئے ہیں ۔
بلاول بھٹو زرداری کی رگوں میں اس کے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور عظیم ماں محترمہ شہید بینظیر بھٹو کا خون دوڑ رہا ہے اور ان کی تربیت بھی بی بی شہید کے ہاتھوں ہوئی ہے اس لئے بطور وزیر خارجہ ان سے بہت ساری توقعات ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے خارجہ امور میں کبھی ہاتھوں پہ سرسوں نہیں جمائی جاتی بلکہ اس میں جو نظر آتا ہے اس کے نظر آنے کے لئے اس سے پہلے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے ۔اس وقت تو حالت یہ ہے کہ ناکام اور ناقص خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان عالمی دنیا میں تنہائی کا شکار ہے اور چین ایسا مخلص دوست اور برادر اسلامی ممالک اور پڑوسی اسلامی ممالک تک سے ہمارے تعلقات میں دراڑ آ چکی ہے لیکن غنیمت ہے کہ نئی حکومت کے آنے کے بعد چین اور عالمی دنیا نے اس کا گرمجوشی سے استقبال کیا ہے ۔اس تناظر میں میں بلاول بھٹو زرداری کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں لیکن جس سیاسی وراثت کو لے کر بلاول بھٹو زرداری چل رہے ہیں اس سے قوی امید ہے کہ پاکستان اب ایک آزاد خارجہ پالیسی کے تحت دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لے گا اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن یہی اصل میں بھٹو کے نواسے اور بی بی شہید کے بیٹے کا امتحان ہے اور امید ہے کہ بلاول اس میں ضرور سرخرو ہوں گے لیکن اس کے بعد کسی مرحلے پر عمران خان کی طرح نوٹنکی کر کے کوئی خط نہیں لہرائیں گے اور ویسے بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی ہر دور حکومت میں خارجہ پالیسی کامیاب رہی ہے ۔بلاول اپنی پارٹی کی جانب سے مستقبل میںوزیراعظم کے امیدوار ہیں اورقوی امید ہے کہ بطور وزیر خارجہ ان کی کارکردگی نہ صرف یہ کہ وزارت عظمیٰ کے لئے ان کی اہلیت پر مہر تصدیق ثبت کر دے گی بلکہ شیخ رشید ایسے مسخروں کی بے جواز تنقید کا بھی مکو ٹھپ دے گی ۔جو باسی کڑھی کے ابال کی طرح ہر وقت ابلتے رہتے ہیں ان کے مسلسل پک پک کر ابلتے رہنے سے ماحول میں پھیلنے والی سڑاند سیاسی فضا کو مکدر کئے رکھتی ہے خدا کرے کہ ہر چلتی گاڑی کے ساتھ بھاگ بھاگ کر منہ سے کف اچھالتی زبان نکالے ہانپنے والے کو آخری عمر میں کسی دکان کے تھڑے تلے دوچار پل سکون کے میسر آجائیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں