360

‏قرۃالعین کا سفر – قہر سے قبر تک

سید غازی علی زیدی

شوہر کا تشدد سہتے سہتے ہار گئی! قرۃالعین بلآخر سکون پاگئی۔ نیل کے نشان جسم لہولہان مسخ شدہ چہرہ ٹوٹا منکا بگڑے خدوخال عورت کا استحصال بنت حوا کی تذلیل قوانین کی تحلیل مرد حاکم بیوی خادم آنکھ پرنم زبان گنگ اپنے معصوم پھولوں کے سامنےسالہاسال سے اذیت برداشت کرتی رہی۔ اپنا گھر جو راحت کدہ سمجھا جاتا اس کیلئے کسی عقوبت خانے سے کم نہیں تھا۔ مرد حاکم اور عورت محکوم جب یہ سبق بچپن سے ازبر کرایا جائے گا تو کیسے کوئی ستم رسیدہ عورت قانون کا سہارا لے پائے گی؟ عیاش اور بااثر شوہر کا جبر سہتی رہی، گھونسے و لاتیں کھاتی رہی، لیکن پھر بھی اس انا پرست مرد کی مردانگی کو تسکین اس کا گلا گھونٹ کر ملی۔ اپنے زخم میک اپ کی دبیز تہوں میں چھپا کر دنیاکے سامنے مسکراتی تھی، والدین،بچوں، معاشرہ کی خاطر ہر روز سمجھوتہ کرتی تھی لیکن آخرکار اس کے تمام زخم دنیا کے سامنے موت نے عریاں کر دیے۔ منوں مٹی تلے خود تو جا کر سو گئی لیکن ہر حساس دل پر منوں بوجھ ڈال گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ المناک واقعہ بے حس معاشرے کو جھنجھوڑنے میں کامیاب ہوگا یا پھر اس کی دھول بھی وقت کے گرداب میں بیٹھ جائے گی؟؟؟ عقل دنگ رہ جاتی جب یہ خبر منظر عام پر آتی کہ مجرم شوہر کے کیس کی وکالت کوئی اور نہیں بلکہ ایک خاتون ہی کررہی ہیں۔ جو اس بات کا اقرار بھی خود کر رہی ہیں کہ ہاں تشدد تو بہت ہوا لیکن شاید موت کی وجہ کچھ اور ہو۔ غضب خداکا، یہ بات سچ ثابت کردی ان وکیل صاحبہ نے کہ عورت کی سب سے پڑی دشمن عورت ہی ہوتی۔ احساس کمتری کا شکار مرد معمولی بات پر عورت پر ظلم وبربریت کے پہاڑ توڑ ڈالتے۔ ستم ظریفی یہ کہ مونچھوں کو تاؤ دیتے، مردانگی جھاڑتے، نام نہاد مرد کو نہ تو کوئی افسوس ہوتا نہ کوئی پچھتاوا۔ ستم بالا ستم پدرشاہی معاشرہ بھی مرد کو نہ صرف ہلا شیری دیتا بلکہ عورت کو ہی مورد الزام ٹہراتا۔ غضب یہ کہ اگر کوئی شوہر اعلیٰ تربیت و اخلاق کی بنیاد پر اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اسے فوراً زن مریدی کا طعنہ دے دیا جاتا۔ ہمارے سماج میں میاں بیوی کا رشتہ جس کی بنیاد پیار و احترام ہونی چاہیے ڈر،خوف اور تشدد کی علامت بن چکا ہے۔ بیوی کو ملکیت سمجھتے ہوئے اس پر جسمانی، ذہنی، اور نفسیاتی تشدد معمول کی بات ہے۔ آئے روز کسی نہ کسی حوا کی بیٹی کی تشدد زدہ تصویر یا ویڈیو خبروں کی زینت بنتی۔ دو چار دن سوشل میڈیا پر ہوہاکار مچتی، کبھی نوٹس لیا جاتا تو کبھی نہیں، اور پھر اگلی خبر آنے تک خاموشی چھا جاتی۔ گھریلو تشدد کا الزام جہالت اور غربت پر لگایا جا سکتا تھا لیکن وائے افسوس یہ کینسر معاشرے کے ہر طبقے میں سرایت کر چکا ہے بلکہ زیادہ تر واقعات کا تعلق پڑھے لکھے اور مڈل کلاس گھرانوں سے ہے۔ کہیں پر بیٹی پیدا ہونے کی سزا کے طور پر بیوی کو پھانسی دے کر مار دیا جاتا تو کہیں جہیز نہ لانے کی پاداش میں بہو کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ کبھی کھانا اچھا نہ بننے پر بیوی کو روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا جاتا، تو کبھی اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنل خاتون سے زبردستی تمام تنخواہ چھین لی جاتی ہے جارحیت پسند مرد حضرات صرف اپنی جھوٹی انا کی تسکین کیلئے بیوی پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالتے، خدائی احکامات کو پس پشت ڈال کر خود خدا بن جاتے۔ یہ حقیقت فراموش کر ڈالتے کہ شوہر مجازی خدا ہے حقیقی خدا نہیں۔ میلاد کی محفلیں سجاتے، حج و عمرہ کی سعادتیں سمیٹتے لوگ بھول جاتے کہ خدا صرف رحیم و رحمان نہیں عادل و قہار بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے؛ “اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزران کرو، اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم ایک شے کو ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر کوئی بڑی منفعت رکھ دے۔(النساء:19)” رحمت للعالمینﷺ کی تعلیمات میں خواتین کا احترام بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اہل عرب جو عورت کی پیدائش کو باعث شرم سمجھتے تھے وہاں پر عورت کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی۔ نبی پاک ﷺ پر جان نچھاور کرنے والے سنت نبوی پر عمل پیرا کیوں نہیں؟ “تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل خانہ یعنی بیوی کے ساتھ اچھا ہے اور میں سب سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ اچھا ہوں،(ترمذی،3895)”۔ کیا ایک مسلمان کیلئے حضورﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ نہیں؟ خطبہ حجتہ الوداع میں حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا؛ “ہاں اے لوگو!عورتوں کے بارے میں اللہ پاک سے ڈروکیونکہ تم نے انہیں اللہ پاک کے نام پرحاصل کیااوراسی کے نام پرتمہارے لئے حلال ہوئیں” ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق صرف سال2020 میں پورے پاکستان سے گھریلو تشدد کے 1422 کیسز ریکارڈ کیے گئے جبکہ خواتین پر تشدد کے 9401 کیسز منظر عام پر آئے۔ درحقیقت یہ وہ اعداد و شمار ہیں جوتھانوں میں رپورٹ ہوئے: جب ملک کے ہر دوسرے گھر میں خواتین پر تشدد ایک معمولی بات سمجھی جاتی ہو تو یقیناً اصل تعداد ہوشربا حد تک زیادہ ہے۔ (“Tracking Numbers: State of Violence Against Women and Children in Pakistan”) درحقیقت گھریلو تشدد ہمارے سماج کا بہت بڑا المیہ ہے۔ مرد اپنی حاکمیت کے زعم میں صنف نازک کو ذہنی و جسمانی تشدد کی بھٹی میں جھونک دیتے۔ بےجا معاشرتی دباؤ کا شکار مظلوم عورتیں نہ تو زیادتیوں کیخلاف آواز بلند کر سکتیں نہ ہی ڈھائے گئے مظالم کا نوحہ کسی کو سنا سکتیں۔ اگر کوئی عورت غلطی سے ہمت کر ہی لے تو اس پر خودسری اور مغرب زدہ ہونے کا لیبل لگا کر اچھوت قرار دے دیا جاتا۔ نتیجتاً آئے روز ایک نئی دلدوز داستان ابھر کر منظر عام پر آتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ارباب اختیارخالی خولی باتوں سے آگے بڑھ کر ٹھوس اقدام اٹھائیں۔ ملک گیر آگاہی مہم اور سخت ترین قوانین اور ان کا فوری اطلاق یقینی بنائیں۔ نیز علمائے کرام بھی لوگوں کو اسلام کی صحیح تعلیمات سے روشناس کرائیں تاکہ لاچار و مجبور بنت حوا کو معاشرے میں اس کا جائز اور باعزت مقام مل سکے۔ اور آئندہ کوئی قرۃ العین کسی کم ظرف مرد کی مردانگی کی بھینٹ نہ چڑھے۔ ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں