139

بڑی عید سے قبل عوام کو ’’بڑے‘‘ حکومتی ’’تحائف‘‘

تنویر قیصر شاہد

خیال تو یہ تھا کہ پاکستان کی شمال مغربی سرحد کے پار سے مختلف النوع اُمنڈتے خطرات کے بارے میں اظہارِ خیال کیا جائے لیکن عید الاضحی سے پہلے حکومت نے عوام کے خلاف ’’پٹرول بم‘‘ کی شکل میں جو نئی مہنگائی کی نئی قیامت نازل کی ہے، اس نے بقیہ سارے خطرات بھلا دیے ہیں۔

جان لیوا مہنگائی میں تڑپتے پاکستانی عوام کہتے ہیں کہ افغانستان کا بحران جائے بھاڑ میں۔عوام کالانعام کی جان قبض کرنے والے حالیہ قومی بجٹ کے بعد حکومت تیسری بار پٹرول کی قیمتیں بڑھا چکی ہے ۔ اور اِس بار تو پٹرول کی قیمتوں میں تقریباً6روپے فی لٹر اضافہ کرکے جان نکالنے کی نئے سرے سے کوشش کی گئی ہے ۔

عوام کی ’’خدمت‘‘ میں نئی مہنگائی کا یہ نیا ’’تحفہ‘‘ عین اُس روز پیش کیا گیا جس روز وزیر اعظم صاحب ازبکستان کے دَورے پرتھے۔ یوں خانصاحب ایک بار پھر یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے تو ’’عوام سے کی گئی اس زیادتی‘‘ کا پتہ ہی نہ چل سکا۔ یہ تبدیلی سرکار عوام کا  کچومر نکالنے کی اس قدر شوقین ہے کہ یہ بھی صبر نہ ہو سکا کہ کم از کم عید الاضحی کے گزرنے ہی کا انتظار کر لیا جاتا اور تب ’’پٹرول بم‘‘ گرایا جاتا ۔ ایسا مگر نہیں ہو سکا ۔

پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو سب اشیا کی قیمتیں بھی نئے سرے سے بڑھ جاتی ہیں۔ ایک جانب تو مہنگائی کی یہ نئی بجلی گرائی گئی ہے اور دوسری جانب مرکزی حکومت کے وزیر اور مشیر اپنے انوکھے بیانات کے گولے داغ کر عوام کے زخموں پر بیدردی سے نمک پاشی کرتے ہیں ۔ ابھی ایک ستم ظریف وفاقی وزیر کاوہ بیان مدہم نہیں پڑا ہے جب آنجناب نے قومی اسمبلی کے فلور پر ارشاد فرمایا:’’ ملک کو اگر ترقی کرنی ہے تو ملک میں مہنگائی بے حد ضروری ہے۔‘‘ لیجیے، ہمارے ہاں ماہرینِ اقتصادیات کی یہ نئی قسم بھی پیدا ہُوئی ہے ۔

مہنگائی اور ترقی کا اسقدر باہمی تعلق ؟ یہ نئی تھیوری پیش کرنے پر مذکورہ وفاقی وزیر کو اقتصادیات کا نوبل انعام ملنا چاہیے ۔ اور اب پٹرول کی قیمت میں تقریباً چھ روپے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے تو حکومتی وزیروں اور مشیروں نے یہ کہہ کر ہم سب عوام کے رستے زخموں پر یوں نمک چھڑکا ہے: ’’ عوام شکر کریں کہ ’’صرف‘‘ چھ روپے فی لٹر کا اضافہ کیا گیا ہے ، اور یہ عوام پر وزیر اعظم کی خاص مہربانی ہے ، حالانکہ’’ اوگرا‘‘ نے تو 12روپے فی لٹر اضافے کا مطالبہ کیا تھا‘‘۔حکومت اور وزیر اعظم کی ایسی ’’مہربانیوں‘‘ سے اب عوام اسقدر تنگ آ چکے ہیں کہ سب یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ وزیر اعظم صاحب اب مہربانی فرمائیں اور ’’اوگرا‘‘ کو اپنی مرضی کرنے دیں تاکہ سرکاراور ’’اوگرا‘‘ میں بیٹھے صاحب لوگوں کا رانجھا راضی ہو جائے اور عوام بھی یہ منظر دیکھ ہی لیں کہ یہ تبدیلی سرکار کہاں تک نا مہربان ہو سکتی ہے ۔

گلا گھونٹ دینے والی مہنگائی منہ زور بھی ہے اور حکومت کا عوام سے مطالبہ بھی ہے کہ وہ اس پر احتجاج کریں نہ لب کشائی ۔ سرکار ہر جانب سے بے کس عوام کی مشکیں کسنے کے درپے ہے۔ لاتعداد اور لامتناہی حکومتی مراعات سے دن رات لطف اندوز ہونے والے وزیر اور مشیر مہنگائی سے بلکتے عوام کا ٹھٹھہ بھی اُڑاتے ہیں ۔

یہ اپنی جگہ پر ظلم ہے۔ مثال کے طور پر بے زبان  عوام پر پٹرول کی شکل میں بے لگام مہنگائی کا  نیابم گرایا گیا ہے تو ایک مشہور وفاقی وزیر نے ایک دلفگار ٹویٹ کی۔ پاکستان کے کئی ہمسایوں کے نام لکھ کر، ایک گراف کی شکل میں، موصوف نے فرمایا:’’ ان ممالک کو دیکھیے اور وہاں پٹرول کی قیمتیں دیکھیں تو صاف نظر آئیگا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ سستا پٹرول فروخت ہو رہا ہے ۔‘‘ ہم وزیر موصوف سے دست بستہ گزارش کریں گے کہ وہ ایسے تقابلی جائزوں سے گریز اور اعراض ہی برتیں تو مناسب ہوگا ۔

ایسے تقابلی گرافوں سے عوام کے دل دکھانے سے باز رہا جائے۔ ایسے تقابلی جائزے دیکھنے والے عوام پھر یہ مطالبہ بھی کرتے سنائی دے رہے ہیں کہ قبلہ، پاکستان کے ہمسایہ ممالک میں سے کسی ایک وزیر اعظم یا صدر کی مثال بھی پیش فرما دیجئے جو 300کنال پر پھیلے عظیم الشان اور پُر شکوہ گھر میں رہائش پذیر ہو ۔

نمکین عید الاضحی سے پہلے پٹرول مہنگا کرکے حکومت نے عوام کے منہ کی کڑواہٹ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ اِسی پر بس نہیں کی ۔ وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی(CEC) نے اکٹھے بیٹھ کر اور اتفاقِ رائے سے اُن تین بڑی خوردنی اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا ہے جس سے عوام رو پیٹ کر اپنے پیٹ کا جہنم سرد کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ عید الاضحی سے ٹھیک چار دن پہلے وفاقی کابینہ نے رَل مل کر عوام کے منہ سے نوالہ چھیننے کی ایک اور کامیاب کوشش یوں کی ہے کہ آٹا، چینی اور گھی کی قیمتوں میں کمر شکن اضافہ کر دیا ہے ۔

گویا عید الاضحی سے قبل حکومت کی طرف سے عوام کو ’تحائف‘‘ پیش کرنے کی ’’بیش بہا‘‘ کوششیں کی گئی ہیں۔ یوٹیلیٹی اسٹورز ، جہاں عوام کو کچھ اشیا نسبتاً کم نرخوں پر مل جاتی ہیں، پر بھی آٹا ،  چینی اور گھی کے نرخ آسمانوں تک جا پہنچے ہیں ۔ چینی کی قیمت میں 17روپے فی کلو اضافہ کیا گیا ہے تو گھی اب 260روپے فی کلو فروخت کیا جارہا ہے جو پہلے 170روپے فی کلو بیچا جا رہا تھا۔

گویا گھی کی قیمت میں 90روپے فی کلو اضافہ کیا گیا ہے ۔ اور 20کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت (جو پہلے 800روپے تھی) اب 950روپے کر دی گئی ہے ۔بڑی عید سے قبل کیا یہ حکومت کی طرف سے عوام کے لیے ’’بڑے‘‘ تحائف نہیں ہیں ؟اور’’ مزے‘‘ کی بات یہ ہے کہ عوام کو مزہ چکھانے کے لیے یہ فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ نے کیا ہے ۔ ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے !

عوام پر حکومت کی یہ ’’مہربانیاں‘‘ ابھی مزید جاری ہیں اور آیندہ ہفتوں اور مہینوں میں بھی یہ ’’مہربانیاں‘‘ جاری رہیں گی۔ تبدیلی حکومت کا یہی دستور جاری ہے۔ تبدیلی کا یہ سکّہ عوام کے دلوں پر جم چکا ہے ۔ ’’حکومتی مہربانیوں‘‘ کو عوام دل سے تسلیم نہ کریں تو یہ عمل نا شکری کے زمرے میں رکھا جائے گا۔ حتیٰ کی اب تو کورونا سے محفوظ رہنے کے لیے ویکسین بھی دستیاب نہیں ہے ۔ جس ویکسین کی دوسری خوراک، پہلے انجکشن کے 21دن بعد لگتی تھی ، اب یہ مدت 42روز کر دی گئی ہے ۔ یہ کس بات کی چغلی کھائی جا رہی ہے؟ حکومت عوام کو وجہ بتانے سے قاصر ہے۔اور حکومتی سطح پر کورونا کی کسی نئی اور مہلک لہر کی سرکاری دُہائی بھی دی جارہی ہے۔

عوام کو مہنگائی اور دوسرے جن سنگین مسائل ومصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، ان کے خاتمے یا کمی کے لیے عوام اپوزیشن کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھا کرتے تھے کہ اپوزیشن لیڈرز عوام کے دکھوں کی پکار بن کر حکمرانوں کے کان کھولیں گے ۔ یہ پاکستان کے 22کروڑ عوام کی اجتماعی بد بختی ہے کہ اِس بار اپوزیشن ، حکمرانوں سے بڑھ کر عوام کی دشمن بن گئی ہے ۔عوام مخالف حکمران طبقے کے اقدامات کے خلاف اپوزیشن لیڈرز کی مجرمانہ خاموشی اور مریل سی آواز عوام پر مزید قیامتیں ڈھا رہی ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں