134

قدرت کا لاٹھی چارج

سعد اللہ جان برق

مشین تو مشین ہوتی ہے اور مشین سے انسانیت کی توقع کرنا حماقت کے سوا اور کچھ نہیں جو چیز تم نے اس کے اندر ڈالی ہی نہیں، وہ اس میں کیسے پاسکتے ہو۔

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

انسان اس حیوانی سطح پر آگیا ہے جو جبلت کے تابع ہوکر صرف اپنے لیے جیتا ہے، چاہے اس کا نتیجہ دوسروں کی تباہی ہی کیوں نہ ہو۔دوسرا زوج حکومت اور عوامیہ کا ہے۔جو چند ممالک میں باقی ہے لیکن زیادہ ترٹوٹ چکا ہے۔ اس جوڑے یا زوج کاکام یہ ہے کہ ایک کے فرائض ہیں، دوسرے کے حقوق ہیں اور جو ایک کے حقوق ہیں وہ دوسرے کے فرائض ہیں۔

اب اگردونوں اپنے اپنے حقوق وفرائض ادا کرتے رہیں گے تو زوج بحال رہے گا۔ حکومت کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ عوام سے ٹیکس اور واجبات وصول کرے اور یہی عوامیہ کے فرائض ہیں یعنی واجبات ادا کرنا اور حکمرانیہ کا ہاتھ بٹانا۔ بدلے میں عوامیہ کے جو حقوق ہیں وہ حکمرانیہ  کے فرائض ہیں۔لیکن یہاں بھی وہی استعمال اور عدم استعمال والا سلسلہ رہاہے۔

حکمرانیہ نے کتاب والے کو ساتھ ملاکر’’عوامیہ‘‘کو صرف مشقت کرنے تک محدود رکھا ہوا ہے، چنانچہ پچاسی فیصد عوامیہ صرف کام کرتی ہے، محنت کرتی ہے، کماتی ہے اور اشرافیہ آرام سے بیٹھ کر باتوں اور دماغی پینترہ بازیوں سے کھاتی ہے اور بہت زیادہ کھاتی ہے کیونکہ تلوار اور کتاب دونوں اس کے ہاتھ میں ہیں۔خود کو مقدس اور اشراف کہہ کر اور عوامیہ کو چتربازیوں سے سبزباغ دکھا دکھا کر وسائل کا پچاسی فیصد ہڑپتی رہتی ہے۔ظاہر ہے کہ اس حکمرانیہ و اشرافیہ کے ہاتھوں نظام اور معاشرے کا زوج ٹوٹ چکا ہے۔

ایک فریق دوسرے سے سب کچھ کھینچ لیتا ہے ۔ حکمرانیہ و اشرافیہ کتاب اور تلوار کے اتحاد سے اپنے حقوق سے کہیں زیادہ چھین لیتی ہے اور بدلے میں جو اس پر فرائض سونپے گئے گئی، وہ ادا نہیں کرتی اور  عوامیہ کوحقوق نہیں دیتی۔

اپنی ساری کمائی اور محنت دے کر بدلے میں عوامیہ کے جو حقوق بنتے ہیں ،وہ سب کچھ سمیٹ کر یا پچاسی فیصد کھینچ کر بدلے میں حکمرانیہ کے جو فرائض بنتے ہیں، وہ چار ہیں۔(1)عوامیہ کو جان، مال اور عزت کا تحفظ دینا(2)عوامیہ کی صحت کا خیال رکھنا(3)تعلیم دینا اور(4) روزگار فراہم کرنا۔ اب ظاہر ہے کہ جب حکمرانیہ اپنے فرائض ادا نہیں کرتی اور عوامیہ سے اس کی ساری محنت اور کمائی کو اپنے ’’حقوق‘‘بناکر چھینتی ہے لیکن بدلے میں کچھ بھی نہیں بلکہ تحفظ،صحت تعلیم اور روزگار مہیاکرنے کے لیے جو محکمے اور ادارے بناتی ہے وہ بھی استحصالی ہوتے ہیں، اپنے فرائض ادا کرنے کے بجائے ’’ان فرائض‘‘کے  نام پر اور زیادہ لوٹتی ہے۔

ظاہرہے کہ جب زوج ٹوٹ جاتا ہے یا ایک فریق اپنی حدود چھوڑ کر دوسرے کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے تو تباہی تو ہوگی لیکن جسمانی ازواج ٹوٹنے کی آواز بھی آتی ہے اور اس کے اثرات بھی دکھائی دیتے ہیں لیکن غیرجسمانی ازواج ٹوٹنے کی آواز تو نہیں آتی البتہ اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ایسا ناہموار معاشرہ اور نظام جہاں حکمرانیہ اپنے فرائض ادا نہیں کرتی بلکہ ایک طرح سے ڈاکو اور لیٹرا بن جاتی ہے، اس میں ’’عدم تحفظ‘‘جنم لیتاہے۔

عدم تحفظ سے پھر ہرقسم کی خرابی پیدا ہوتی ہے، طرح طرح کے جرائم پیدا ہونے لگتے ہیں کیونکہ انسان کے ذہن میں ’’عدم تحفظ‘‘جنم لیتا ہے تو وہ اپنے تحفظ کے نام پر ہرجائز ناجائز کام لینا شروع کرتا ہے کہ جیسے بھی ہو، چاہے دوسروں کی لاشوں پر سے گزرنا کیوں نہ پڑے، مجھے خود کو محفوظ کرنا ہے، خود کو، اپنی اولاد کو، اپنے خاندان کو اور اپنے مستقبل کو صرف مجھے ہی محفوظ کرنا ہے کیونکہ تحفظ فراہم کرنے والا ادارہ حکمرانیہ توخود ڈاکو، لیٹرا بن چکا ہے۔ کل کو اگر میں معذورہوجاؤں، بیمار ہوجاؤں، بے روزگار ہوجاؤں تو میرے اور میرے خاندان کا تحفظ کون کرے گا، اس لیے وہ جائز ناجائز جیسے بھی ہو زیادہ سے زیادہ کمانے، بٹورنے اور حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ میرا ایک دوست ’’کرلیمنالوجی‘‘کا ماہر ہے۔

ایک دن میں نے اسے جرائم پر فلسفہ بگھارتے ہوئے دیکھا۔تو کہاکہ یہ جرائم ، بے راہ روی کی شاخیں اور پتے ہیں۔جب تک اس کا تنا اور جڑیں موجود ہیں، پتے اور شاخیں توڑنے سے کچھ  بھی ہونے والا نہیںہے اور وہ درخت، وہ ’’جڑ‘‘ حکمرانیہ ہے جس نے نظام اور معاشرے میں ’’حقوق و فرائض‘‘ کا زوج توڑدیاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں