145

آزاد کشمیر انتخابات اور بلاول بھٹو کا دَورہ امریکا

تنویر قیصر شاہد

تقریباً 10روز بعد، 25جولائی کو ، آزاد جموں و کشمیر میں عام انتخابات کا انعقاد ہورہا ہے۔ساڑھے تین ملین کے قریب کشمیری رجسٹرڈ ووٹرز ان انتخابات میں حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔

اصل مقابلہ تو مگر آزاد کشمیر میں گجر، راجپوت، جاٹ، سدھن اور عباسی برادریوں میں ہورہا ہے ۔ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی سمیت کوئی تین درجن سیاسی و مذہبی جماعتیں ان انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ یوں محسوس ہورہا ہے جیسے آزاد کشمیر اسمبلی کی 45نشستوں کے لیے یہ انتخابات پی ٹی آئی، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گئے ہیں۔

مذکورہ تینوں جماعتیں اور ان کے نمایاں لیڈرز آزاد کشمیر کے انتخابات جیتنے اور آزاد کشمیر  میں اپنی حکومت قائم کرنے کے دعووں میں اس قدر آگے چلے گئے ہیں کہ شائستگی اور تہذیب کا دامن ہاتھوں سے چھوٹتا صاف نظر آ رہا ہے ۔مقامی کشمیری سیاستدانوں کی آوازیں تو تقریباً دَب کررہ گئی ہیں۔ حکومتِ پاکستان کے کچھ وزرا آزاد کشمیر کے طول و عرض میں مبینہ طور پر اپنی ’’ حکومتی طاقت ‘‘جس اسلوب میں استعمال کر رہے ہیں ، اس سے لگتا یہی ہے کہ اِس بار آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی ہی کی حکومت بنے گی۔

چند ماہ پہلے گلگت بلتستان کے الیکشنز میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور نون لیگ کی نائب صدر محترمہ مریم نواز نے اپنی کامیابی کے بلند دعوے کیے تھے ، ان کے جلسے بھی بظاہر بڑے بھرپوراور جوش بھرے نظر آتے تھے لیکن جب نتائج سامنے آئے تو گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کی حکومت بن گئی۔پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے سبھی دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔

اگرچہ اب پھر نون لیگ کی نائب صدر ، محترمہ مریم نواز، کی للکار اور پکار بھی آزاد کشمیر میں خاصی بلند آہنگ ہے۔ آزاد کشمیر میں اُن کے جلسے بھی بھرپور نظر آ رہے ہیں۔ البتہ شہباز شریف کی آواز بوجوہ خاصی مدہم ہے۔

کیا آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی گلگت بلتستان کی کہانی دہرائی جائے گی؟پاکستان اور آزاد کشمیر کی پچھلی حکومتوں پر ایک نظر ڈالی جائے تو منظر یہی اُبھرتا ہے کہ عمومی طور پر جس پارٹی کی حکومت پاکستان میں تھی ، اُسی سے متاثرہ پارٹی نے آزاد کشمیر میں بھی حکومت تشکیل دی ۔ اگر روایت اور پیمانہ یہی ہے تو اس حساب سے پی ٹی آئی ہی اس بار یہاں حکومت بنائے گی۔

ہمارے محبوب وزیر اعظم جناب عمران خان کو بھی یقینِ کامل ہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں انھی کی پارٹی کی حکومت بننے جا رہی ہے ۔ اب تک ایک درجن سے زائد وزرائے اعظم اور تین درجن کے قریب صدور آزاد کشمیر میں حکومت کر چکے ہیں ۔ کئی افراد دو دو بار صدر اور وزیر اعظم بنائے گئے اور ہر بار اور ہر کشمیری حکمران کا دعویٰ یہی رہا ہے کہ وہ ’’عوام کے منتخب‘‘ نمایندے ہیں۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ پاکستان میں جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے ، اگر اُسی پارٹی کی حکومت آزاد جموں و کشمیر میں بھی بن جائے تو کشمیر کے حکمران کو بہت سے معاملات میں آسانیاں رہتی ہیں۔

خصوصاً فنانس کے معاملات میں۔ ہمارے ہاں یہ بات زبان زدِ خاص و عام ہے کہ اگر آزاد کشمیر میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت بن جائے تو بھلا کونسا آسمان  ٹوٹ پڑے گا؟ جیسی’’ تبدیلی‘‘ اور ’’خوشحالی‘‘ پچھلے تین برسوں کے دوران پی ٹی آئی کی حکومت میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں محسوس کی جارہی ہے ، اگر آزاد کشمیر میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت بنتی ہے تو کشمیری بھی ویسی ہی ’’تبدیلی‘‘ اور ’’خوشحالی‘‘ پا لیں گے ۔

ویسے نون لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ایف) پر مشتمل اپوزیشن پارٹیوں نے جس طرح پاکستان بھر کے عوام کو بُری طرح مایوس کیا ہے ، ایسے پیش منظر میں آزاد کشمیر کے ووٹرز بھلا ان تینوں جماعتوں سے کیا توقع وابستہ کر سکتے ہیں؟ مایوسی کا یہ موسم پی ٹی آئی کو آزاد کشمیر میں بھی حکومت بنانے میں آسانیاں فراہم کر سکتا ہے۔

آزاد جموں و کشمیر کے ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری جس اسلوب میں نون لیگ اور نون لیگی قیادت پر مسلسل حملہ آور ہُوئے ہیں ، یہ اپنی جگہ المیہ بھی ہے اور پیپلز پارٹی کی لاتعداد باطنی مجبوریوں کا عکس و اظہار بھی ۔ بلاول صاحب کی یہ نون لیگ مخالف یلغارانہ آواز مگر آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کے جلسوں کی رونق اور تعداد میں اضافے کا باعث نہیں بن سکی ہے۔

قابلِ قدر بات یہ ہے کہ مریم نواز صاحبہ نے بلاول بھٹو زرداری کی نون لیگ مخالف تلخ و ترش باتوں کا جواب ترکی بہ ترکی اور تلخ لہجے میں نہیں دیا ہے۔ انھیں صحافیوں نے اس بابت اکسانے کی کوشش بھی کی لیکن محترمہ مریم نواز طرح دے گئیں ۔ شائد یونہی پی ڈی ایم کا رہا سہا کچھ وقار اور اعتبار بچ جائے۔

آزاد کشمیر کے باسیوں کا کہنا ہے کہ اصل جنگ تو اُس وقت شروع ہوگی جب آزاد کشمیر کے ان انتخابات کے نتائج سامنے آئیں گے اور نئے وزیر اعظم و صدر کا انتخاب ہوگا۔ اس جنگ میں سردار تنویر الیاس کی شکل میں ایک نیا کردار سامنے آ رہا ہے، جو مبینہ طور پر آزاد کشمیر میں جناب عمران خان کے معتمد ترین دوست بھی ہیں ۔

آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کے عوام نے یہ حیرت انگیز منظر بھی دیکھا ہے کہ جب آزاد کشمیر الیکشنز کی مہم عروج پر پہنچ رہی تھی، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری صاحب امریکا پدھار گئے ۔ اُن کا دَورئہ امریکا خاصا معنی خیز اور پُر اسرار ہے ۔ کہنے کو تو بلاول بھٹو نے اِس دَورے کو ‘‘پرسنل وزٹ‘‘ قرار دیا ہے لیکن یہ اتنا بھی ’’پرسنل‘‘ نہیں ہے۔ اُنکا یہ وزٹ ایک ہفتے کا تھا۔ اِس دَورے کو مگر پی ٹی آئی کے کئی وزیروں اور مشیروں نے ہلکا نہیں لیا ہے۔

ایک اہم حکومتی ڈاکٹر مشیر نے اس ضمن میں کہا: ’’ بلاول بھٹو زرداری اپنی سی وی لے کر ملازمت کے حصول کے لیے واشنگٹن گئے ہیں۔‘‘ اور ایک مرکزی وزیر نے اِسی لہجے میں کہا: ’’ سیاست کی رونق بلاول بھٹو کی اصل سی وی تو میرے پاس ہے ۔‘‘ پھر اِسی ٹون میں ارشاد کیا: ’’ بلاول ایک بار کیا ، تین بار بھی امریکی دَورے پر روانہ ہو جائیں ، عمران خان اپنے پانچ سال پورے کریں گے۔‘‘

حکومتی وزیروں اور مشیروں کے یہ بیانات کیا اس امر کی چغلی نہیں کھا رہے کہ بلاول بھٹو زرداری کا دَورئہ امریکا ان کے دل و دماغ پر دباؤ اور بوجھ بن رہا ہے ؟ خصوصاً اس پس منظر میں جب کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ امریکی صدر، جو بائیڈن، نے  ابھی تک ہمارے محبوب وزیر اعظم جناب عمران خان سے کوئی مکالمہ نہیں کیا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے چند ایک لیڈرز نے بلاول بھٹو کے دَورہ امریکا کے حوالے سے حکومتی وزرا کے بیانات کا جواب دینے کی کوشش تو کی ہے لیکن بات بنی نہیں۔

حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ امریکا پہنچ کر ( امریکا میں پیپلز پارٹی کے صدر کے بقول) بلاول بھٹو زرداری نے کسی صحافی کے سوال کا جواب بھی نہیں دیا۔ بس اتنا کہنے پر اکتفا کیا:’’ستمبر 2021میں امریکا آؤں گا تو کھل کر باتیں ہوں گی۔‘‘ یہ بھی حیران کن امر ہے کہ بلاول بھٹو صاحب امریکا تو پہنچے مگر واشنگٹن نہیں گئے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں