137

عید قربان: حکومت خود سنجیدہ نہیں!

علی احمد ڈھلوں

’’بڑی عید‘‘ کی آمد آمد ہے اور لوگ سنت ابراہیمی ؑ کو زندہ رکھنے کے لیے جانور خرید رہے ہیں، جس کے لیے ہر سال کی طرح ملک بھر میں مویشی منڈیاں لگ چکی ہیں۔ پاکستان دنیا بھر میں قربانی کرنے والے ممالک میں سعودی عرب کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے یعنی ہر سال یہاں 80لاکھ سے زائد جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے، اور ہر سال ہی یہ بڑا اسلامی تہوار غیر موثر انتظامات کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔

غیر موثرانتظامات اس لیے کہ نہ تو حکومت اس حوالے سے کوئی لائحہ عمل بنا سکی ہے کہ قربانی کس کس جگہ پر کی جا سکتی ہے، اور نہ اس حوالے سے کوئی حکمت عملی ہی وضع کی جا سکی ہے کہ عوام کو جانور خریدنے میں حکومت کیسے مدد کر سکتی ہے، پھر ہر عید الاضحی پر ہوتا یہ ہے کہ ہمارے گلی محلے ’’قربان گاہوں‘‘ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اور قربان کیے گئے جانوروں کی آلائشیں ادھر اُدھر پھینک دی جاتی ہیں، جو بیماریاں پھیلانے کا سبب بنتی ہیں۔

بلکہ اس سال تو گزشتہ سال کی طرح مویشی منڈیاں بھی کورونا پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں، کیوں کہ ایک طرف تو حکومت کورونا کی چوتھی لہر کے شدید ہونے کے بارے میں خبردار کر رہی ہے جب کہ دوسری طرف ہم غلطیوں پر غلطیاں کیے جا رہے ہیں جیسے پہلی غلطی تو یہ ہو رہی ہے کہ حکومت نے خود ہی ریلیف دے دیا ہے کہ کورونا کا زور ٹوٹ گیا ہے، تبھی لوگوں نے ماسک پہننا چھوڑ دیے ہیں۔

آخر امسال عید قربان پر ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ہے کہ ہم سب لوگ اداروں کے ذریعے یا حکومتی نگرانی میں اپنی قربانی کا اہتمام کریں، اس طرح وبا سے بھی محفوظ رہیں گے اور ہمارے گلی محلوں میں موسمی قصائیوں اور جانوروں کی آنتوں کی ہڑبونگ بھی نہیں مچے گی۔

ترکی اور ملائشیا میں ہماری طرح گھر گھر قربانی کا جانور ذبح نہیں ہوتا۔ ترکی میں ہر محلے کی مسجد ہے، اور ہم نے دیکھا کہ سب مساجد ڈیزائین نیلی مسجد کا ایک منی ایچر ہیں، مسجد کے باہر کنالوں پر مشتمل لان ہوتا ہے، اہل محلہ اپنے جانور یہیں لاتے ہیں اور مشینوں کے ذریعے گوشت بنا کر انھیں دے دیا جاتا ہے۔ جب آبادی پھیل جاتی ہے اور شہرگنجان ہو جاتے ہیں تو اسلامی تہواروں میں نئی روایات جنم لیتی ہیں۔ از روئے قرآن، اللہ تک ہمارے دلوں کا تقوٰی پہنچتا ہے، قربانی کے جانوروں کا خون اور گوشت نہیں۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جو تہوار ہر سال آتا ہو، اُس کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں، حکومت ہر چیز کو اپنے ہاتھ میں لے، خود قربانی کی جگہوں کا تعین کرے، اگر یہ بھی ممکن نہیں تو خدارا آپ آن لائن قربانی کو ترجیح دیں۔ اس وقت بھی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ عید الاضحی کے بعد پاکستان میں کورونا عروج پر ہوگا۔ اور کم از 5لاکھ نئے کیسز سامنے آسکتے ہیں۔ اس لیے احتیاط کا دامن ہاتھ میں رکھیں اور آن لائن قربانی ہی کو ترجیح دیں۔ اس سے آپ کئی مسائل سے بچ سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو منڈی بہت خطرناک جگہ ہے کیوںکہ وہاں آپ کو وائرس لگ سکتا ہے، اس رجحان کو دیکھتے ہوئے ایدھی فاؤنڈیشن، الخدمت فاؤنڈیشن، شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال اور سہارا ٹرسٹ فار لائف جیسے درجنوں رفاہی اداروں، اسپتالوں اور دیگر انجمنوں اور تنظیموں کے ساتھ ساتھ کئی ڈپارٹمنٹل اسٹور اور گوشت کا کاروبار کرنے والی کمپنیاں بھی سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے تشہیر کر رہی ہیں کہ آن لائن قربانی کرنے کے خواہش مند لوگ ان کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔زیادہ تر کمپنیاں وعدہ کر رہی ہیں کہ وہ قربانی کا گوشت صارفین کے گھر پر پہنچائیں گی جب کہ اکثر رفاہی اداروں کا کہنا ہے کہ وہ خود ہی گوشت مستحقین میں تقسیم کریں گے۔

یہ طریقہ کار احسن انداز میں ملائشیا، ترکی، سعودی عرب اور ایران میں لاگو ہے ۔ سعودی عرب میں تو آن لائن قربانی کی شروعات 2009 میں شروع ہوئی تھی ، جس پر کسی کو آج تک کوئی اعتراض بھی نہیں ہوا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں