132

نظام کی اصل تصویر ؟

رائو منظر حیات

صرف دس سال بعد یعنی 2031 میں اسلام آباد بالکل ایسا ہی ہو گا ‘ جیسے آج یا شاید نہیں۔ حد درجہ آبادی اور آلودگی کے درمیان نیم مردہ سا شہر۔ اردگرد کے پہاڑ مزید گنجے ہو چکے ہونگے۔

ہاں‘ سرکاری دفاتر‘ بھدی قسم کی رہائش گاہیں بہت بڑھ چکی ہوں گی۔ اس وقت تک پرندے بہت کم ہونگے۔ ایک عدالت کے سامنے لوگوں کا جم غفیر ہو گا۔ انھوں نے اعلیٰ لباس پہنا ہو گا، بڑی بڑی گاڑیاں کھڑی ہوں گی۔ کسی سیاسی پارٹی کے جھنڈے بھی آراستہ ہوں گے ۔ زندہ باد زندہ باد ۔ ایک اہم شخص کے حق میں شاندار نعرے بازی جاری ہو گی۔

پولیس بھی مستعدی سے اس شخص کے لیے حفاظت کا فریضہ انجام دینے کی کوشش میں مصروف ہو گی۔ وہ شخص بڑے تحکمانہ طریقہ سے عدالت سے باہر آئے گا۔ اس کے ساتھ تین ساتھی بھی ہوں گے۔

وکٹری کے نشان بنائے ہوئے یہ لوگ مسکراتے ہوئے باہر نکلیں گے۔ ایسے لگے گا کہ انھوں نے قرطبہ دوبارہ فتح کر لیا ہے۔ کشتیوں کو جلائے بغیر ملک اور اسلام کی ایسی خدمت کی ہے کہ مسلم امہ عش عش کر رہی ہے۔ مگر ہجوم میں سے چھوٹا سا بچہ ان لوگوں کی طرف نادانی میں انگلی اٹھا کر زور سے کہے گا۔

یہ تو عثمان مرزا اور اس کے ساتھی ہیں۔ انھوں نے تو اس 11سیکٹر میں ایک نوجوان لڑکی کو برہنہ کر کے اس کی تصویریں بنائی تھیں۔ دونوں کو غلیظ گالیاں دی تھیں۔ زدو کوب کیا تھا۔بچے کا باپ‘ اس کے مونہہ پر ہاتھ رکھ کر اسے خاموش کرا دے گا۔ پورا ہجوم عثمان مرزا کے حق میں نعرے لگا رہا ہوگا۔ کس چیز کے نعرے۔ کیوں۔ اس لیے کہ عثمان مرزا اور ان کے ساتھیوں کو باعزت بری کر دیا گیا ہے۔ تمام الزامات غلط ثابت ہوئے ‘کسی بھی گواہی کے بغیر ۔ بھلا اس انتہائی شریف آدمی کو کیونکر سزا دی جا سکتی ہے ۔ عدالت تو صرف ثبوت دیکھتی ہے ۔

صرف ثبوت۔ بڑے فخر اور تکبر سے عثمان مرزا لوگوں کو خطاب کرے گا۔ آج حق کی فتح ہوئی ہے۔ ساری ویڈیوز جھوٹی ثابت ہوئی ہیں۔ وہ تو سب کا سب فوٹو شوپ تھا۔ بھلا میرا لڑکیوں کی بلیک میلنگ سے کیا تعلق۔ یہ سب سیاسی دشمنوں کی چال تھی۔ جس گاڑی میں جناب عثمان مرزا صاحب تشریف رکھیں گے ۔ وہ ڈرائیور نہیں بلکہ ایک مقامی اہم شخصیت چلا رہی ہو گی۔ جلوس کی صورت میں کسی مقامی دربار پر جایا جائے گا۔

شکرانے کے نفل ادا ہوں گے۔ اور پھر کچھ دنوں بعد عثمان مرزا کئی ساتھیوں سمیت حکومتی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائے گا۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ کئی گھروں میں مظلوم بچیاں کونوں میں دبک کر روتی پائی جائیں گی۔ اس لیے کہ عثمان مرزا کے خلاف سامنے آنے کی حماقت انھوں نے کی تھی۔ کئی لڑکے‘ جن کے ساتھ بدفعلی کی گئی‘ چھپ کر بیٹھ جائیں گے‘ کیونکہ ان کی بھی برہنہ وڈیوز بنائی گئی تھیں۔ عدالت سے باعزت بری ہونے کے بعد ‘ عثمان مرزا بالکل پاک صاف ہو چکا ہے۔ اور جن کے ساتھ ظلم ہوا‘ وہ سارے ڈر اور خوف کے مارے سانس تک نہیں لے پائیں گے۔

یہ سب کچھ شاید میرا وہم ہو یا شاید اس ملک میں لڑکی اور لڑکوں کو برہنہ کر کے ریپ کرنا یا کروانا جرم رہا ہی نہیں ہے۔وجہ یہ کہ ہمارے تفتیشی اور عدالتی انصاف کا زمینی حقائق سے کسی قسم کا تعلق نہیں ہوتا۔ گمان ہے کہ عثمان مرزا والے کیس میں بھی حسب روایت کچھ نہیں ہو گا۔ چند دن پہلے‘ جب عثمان مرزا اور ان کے ساتھیوں کی بدمعاشی کی تصاویر سوشل میڈیا پر دیکھیں تو دل بیٹھ گیا۔ یہ تو اسلام آباد کا قصہ ہے۔ جہاں بے پناہ وسائل دے کر انتہائی اچھی ساکھ والے افسران لگائے گئے ہیں۔ جہاں کی پولیس بظاہر بہت عمدہ کام کرتی ہے۔

جہاں افسروں کی ایک فوج موجود ہے۔ ریاستی اداروں کے پرشکوہ دفاتر ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں کے افراد چپے چپے پر موجود ہیں ۔ مگر عثمان مرزا اور اس کا گروہ ‘ ان سب سرکاری لوگوں کی موجودگی میں تواتر سے ریپ‘ بلیک میلنگ‘ دھمکی اور دھوکا دہی کرتا رہا۔ ایک گیسٹ ہاؤس میں خفیہ کیمرے لگا کر آنے والوںکی فلمیں بناتا رہا۔ اس کی فاریکس کمپنی ڈبل شاہ کے ماڈل پر عام لوگوں کو مسلسل لوٹتی رہی۔ اس کا عذاب ان گنت لڑکے اور لڑکیاں مسلسل جھیلتے رہے۔ بلیک میل ہو کر پیسے دیے جاتے رہے۔ اس سے اندازہ لگا لیجیے کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں اتنی نااہلی اور سستی کا شکار ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے مونہہ میں چوسنی لے کر خاموش بیٹھے رہے۔ مگر عثمان مرزا اور اس کے ساتھی ‘دارالحکومت میں گھناؤنا کھیل کھیلتے رہے۔ بغیر کسی روک ٹوک کے۔ ویسے اگر اسکاٹ لینڈ یارڈ جیسے کسی معتبر ادارے سے تفتیش کروائی جائے تو آپ کے ذہن بھک سے اڑ جائیں گے۔

ابھی تو ان سرکاری شہزادوں کے نام نہیں آئے‘ جو اس گروہ سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ انتظامیہ کا بھرپور حصہ رہا ہوں۔ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ عثمان مرزا کو کسی نہ کسی طاقتور شخص کی بھرپور ’’ہلا شیری‘‘ اور دست شفقت حاصل ہے۔ یہ تمام بھیانک جرائم اور مظالم سرکاری سرپرستی کے بغیر ہو ہی نہیں سکتے۔ جن سے مخاطب ہوں وہ سب جانتے اور سمجھتے ہیں۔ اس کا ثبوت میرے پاس یہ ہے کہ ابھی تک عثمان مرزا پر کوئی قیامت نہیں ڈھائی گئی۔ اسے انتہائی حفاظت اور عزت سے تھانے میں رکھا گیا ہے۔

کوئی اسے تھرڈ ڈگری کا نشانہ بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ صرف اس لیے کہ ملک میں ہماری پولیس‘ تشدد نہ کرنے کے بھی معقول پیسے لیتی ہے۔ اور عثمان مرزا سے بہتر پیسے دینے والا اور کون دیوتا ہو سکتا ہے۔

وہ تو اس بدبودار نظام کی المناک پیداوار ہے اور اندرونی طور پر اس کا محافظ بھی۔ لہٰذا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اس وقت سوشل میڈیا کی طاقت کے سامنے جن اداروں نے وقتی ہتھیار ڈالے ہیں ۔ چند دن گزرنے دیجیے وہ اپنی پوری منفی طاقت سے واپس حملہ کر یںگے۔ مفتوح لڑکیوں اور لڑکوں کو اتنا ذلیل کیا جائے گا کہ وہ شکایت کرنے پر پچھتائیں گے۔ تھوڑے سے عرصے میں ایک اچھا وکیل عثمان مرزا کو ضمانت لے کر دینے میں کامیاب ہو جائے گا۔پولیس حسب روایت انتہائی کمزور کیس بنائے گی۔ اور معاملہ پھر رفع دفع ہو جائے گا۔

ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر چوبیس گھنٹے میں گیارہ ریپ ہوتے ہیں۔ پچھلے چھ سالوں میں بائیس ہزار ریپ کے کیسز درج ہوئے ہیں۔ ان میں چار ہزار مقدمات عدالتوں میں التوا میں ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر سنیے ۔ چھ سالوں میں صرف ستتر (77) ملزموں کو سزا ہوئی ہے اور صرف اٹھارہ فیصد کیسز پراسیکیوشن کی سطح پر پہنچ پائے ہیں۔ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق ریپ اور اس جیسے واقعات کی واضح اکثریت رپورٹ نہیں ہوتی۔ اصل تعداد ساٹھ ہزار تک ہو سکتی ہے۔ عدالت میں ہر کیس کا پہنچنا ناممکن ہے۔

صرف بارہ فیصد مقدمات عدالت کی سطح پر پہنچ پائے ہیں۔ اور ان میں سے صرف پانچ فیصد پر فیصلے ہوئے ہیں۔ ان میں گیارہ سو لوگوں کو باعزت بری کیا گیا ہے۔ تفتیشی اداروں اور نظام انصاف کو پرکھ کر انتہائی اعتماد سے عرض کر سکتا ہوں۔ کہ عثمان مرزا جیسا طاقتور آدمی کبھی بھی انجام کو نہیں پہنچ پائے گا؟۔

امکان یہی ہے کہ تھوڑے عرصے میں وہ باعزت بری ہونے میں کامیاب ہو گا؟۔ ویسے ہماری سیاسی جماعتوں کو ایسے ’’مضبوط‘‘ لوگ چاہیئں۔ اندرون خانہ کچھ اہتمام تو ہو رہا ہو گا۔ عثمان مرزا اور اس جیسے لوگ ہمارے نظام کی اصل تصویرہیں۔ غلیظ ‘ بھیانک اور ادنی تصویر!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں