131

دلیپ کمار… ایک عہد تمام ہوا

علی احمد ڈھلوں

دلیپ کمار ایک عہد کا نام تھا، جو 7جولائی 2021کو ختم ہوگیا، وہ مجھ سمیت بہت سوں کے بچپن ہی سے آئیڈیل فلم اسٹار تھے۔ دلیپ کمار کا پاکستان سے دل کا رشتہ رہا،جس کا اظہار وہ اکثر کیا کرتے تھے، پشاور سے تعلق اور اس سے جڑی یادیں ہمیشہ تازہ کرتے تھے۔ وہ پشاور کے محلہ خدا داد میں 1922میں پیدا ہوئے، اُن کا نام یوسف خان تھا،جو بعد میں فلم انڈسٹری میں قدم رکھتے ہی دلیپ کمار رکھ دیا گیا۔

اُن کے والد کا نام سرور خان تھاجب کہ اُن کے بڑے بھائی کا نام ناصر خان تھا، وہ بھی فلم پروڈیوسر رہے اور دلیپ کمار کے معاون بھی۔ اہل خانہ کے ساتھ 1935 میں کاروبار کے سلسلے میں ممبئی منتقل ہوئے، بعد میں وہ کئی بار پاکستان آئے اور اپنے پسندیدہ مقامات پر گئے۔دلیپ کمار عمران خان کے کرکٹ کیریئر اور خیراتی کاموں کے بھی معترف رہے،کرکٹ ہی کی وجہ سے اُن کے عمران خان سے اچھے تعلقات کے ساتھ ساتھ وہ ان کے مداح بھی تھے، بلکہ انھیں اپنے دور کے تمام کرکٹرز سے والہانہ محبت ہوا کرتی تھی۔

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں کرکٹ سے کس قدر لگاؤ تھا۔ دلیپ کمار 1988میں جب پاکستان آئے تو راقم نے اداکار محمد علی کے گھر پر اُن سے ملاقات کی تھی۔ ملاقات کیا تھی، بس ایک سرسری سی سلام دعا اور چند جملوں کا تبادلہ تھا، اُس وقت بالی ووڈ کے نمبر ون اداکار سے اتنی سی ملاقات بھی ’’باعث شرف ‘‘ سمجھی جاتی تھی۔

جس طرح تمام سیلیبرٹیز کی زندگی معاشقوں سے بھری ہوتی ہے، اُسی طرح دلیپ کمار کی زندگی بھی معاشقوں سے بھری تھی، ایک وقت میں تو وہ مدھو بالا کے عشق میں گرفتار ہوگئے۔ دونوں کی شادی قریب ہی تھی کہ مدھو بالا کے والد ان بن ہوگئی جس کی وجہ سے یہ  یہ شادی نہ ہوسکی۔پھر پری چہرہ سائرہ بانو ملیں جن سے 1966 میں شادی ہوئی ، سائرہ بانو اُن سے عمر میں  لگ بھگ تیس برس چھوٹی تھیں۔ دلیپ کمار اور سائرہ بانو کی رفاقت 50برس سے زیادہ رہی۔ اُن کی کوئی اولاد نہیں تھی۔

اولاد ہی کے لیے انھوں نے سائرہ بانو سے شادی کے 14سال بعد اسما رحمان نامی خاتون سے چھپ کر شادی کی، تاہم یہ شادی زیادہ دیر تک نہ چل سکی اور دو سال بعد ہی ختم ہوگئی۔ اُس کے بعد اولاد کے حوالے سے انھوں نے اﷲ کی رضا پر سب کچھ چھوڑ دیا۔ لیکن وہ کبھی سائرہ بانو سے اولاد نہ ہونے کا شکوہ نہیں کرتے تھے، 2012میں ایک بھارتی میڈیا ادارے کو انٹریو دیتے ہوئے دلیپ کمار نے کہا تھا کہ ’’وہ اپنی اہلیہ کی خوشی کے لیے زندہ رہنا چاہتے ہیں، کیونکہ میری ماں کے بعد سائرہ بانو سے زیادہ کسی نے مجھ سے محبت نہیں کی‘‘۔اس لیے سائرہ بانو آپی کو دونوں ہاتھوں سے سلیوٹ کرنے کو دل چاہتا ہے کہ انھوں نے شوہرکی خدمت کرکے زندگی میں ہی جنت کما لی۔حالانکہ اُن کا تعلق بھی شوبز سے تھا مگر وہ لاجواب گھریلو خاتون ثابت ہوئیں۔

دلیپ کمار کو حکومتِ ہند نے اپنے سب سے بڑے فلمی ’’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘‘ سے نوازا تو حکومتِ پاکستان نے اپنا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ ’’نشانِ پاکستان‘‘ ان کی نذر کیا لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس آفتابِ فن کی روشنی میں تمام تر ایوارڈز کی چمک ماند پڑتی دکھائی دیتی ہے، شاید دلیپ کمار کی زندگی کا سب سے بڑا ایوارڈ کروڑوں انسانوں کی ان کے ساتھ وہ والہانہ محبت ہے جو کئی نسلوں پر محیط ہے جو مذہبی، نسلی، لسانی یا جغرافیائی سرحدوں سے ماورا ہے۔

بلاشبہ موت برحق ہے جس سے کسی کو بھی مفر نہیں، جو پیدا ہوا ہے اسے ایک دن جانا ہے۔ دلیپ کمار سے بڑھ کر کیا مثال دی جا سکتی ہے۔ اتنی محبت بھری طویل اور بھرپور زندگی کس کو نصیب ہوئی ہو گی مجھے ان کی موت کا افسوس نہیں ہے، نہ یہ کہوں گا کہ ان کے جانے سے انڈین فلم انڈسٹری میں کوئی ایسا خلا پیدا ہو گیا جو کبھی پر نہیں ہو سکے گا، سب خلا پُر ہو جاتے ہیں، قدرت نئے سے نئے اَن گنت پھول اگاتی ہے جو اپنی مدت گزارتے ہیں اور پھر نئے پھول آ جاتے ہیں۔

اصل چیز یہ ہے کہ آپ کو دنیا کے اس اسٹیج پر کارکردگی دکھانے کا جو محدود دورانیہ ملا ہے، آپ نے اس میں کون سے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ دلیپ کمار نے اہلِ فن کو ہمیشہ کے لیے مسحور کیے رکھا، پرتھوی راج کپور اور دادا سے لے کر نئی نسلوں کے محبوب اداکار شاہ رخ خاں تک سب کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ حالانکہ کپور خاندان سے اُن کی خاصی مخالفت رہی، لیکن کپور خاندان بھی اُن کی صلاحیتوںکا ہمیشہ معترف رہا۔

بھٹو دور میںنے دلیپ کمار کی پہلی فلم کوہ نور دیکھی۔ جب لاہور اور گرد ونواح میں انڈین ٹی وی کی نشریات دیکھی جانے لگی تو یہ پہلی فلم تھی، ’’کوہ نور‘‘میں دلیپ ہیرو اور میناکماری اُن کی ہیروئین تھی ۔ جس دن یہ خبر آئی کہ دلیپ کمار کی فلم ٹی وی پر لگ رہی ہے، اُ س وقت پورے لاہور میں کرفیو کا سما تھا، اُس کے بعد مغل اعظم آئی تو وہ بھی سب سے پہلے ٹی وی پر آئی اُس کے بعد ہم یہ فلمیں اپنے آبائی شہر ’’کھڈیاں‘‘ میں ’’کچی ٹاکی‘‘ پر دیکھا کرتے تھے۔ مطلب آپ جوار بھاٹا اور جگنو سے شروع ہو جائیں مغلِ اعظم، دیدار، انداز، جوگن، میلہ، ملن، سنگ دل، داغ، آن، نیا دور، ترانہ، مدھومتی رام اور شیام، دل دیا درد لیا، مشعل، مزدور، لیڈر، آزاد، یہودی، کوہ نور، گنگا جمنا، مسافر، گوپی، امر، داغ، اڑن کھٹولا، داستان، ودھاتا کس کس کی بات کریں ’’آدمی‘‘ جو بطور ہیرو ان کی آخری فلم تھی ،کیا بات ہے۔ ہر فلم گویا ایک شاہکار تھی۔

دلیپ کمار جیسے لوگ واقعی صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں، وہ سیاسی ، تعلیمی اور فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش رہے۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری میں اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے ساتھ ساتھ لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی، اٹل بہاری واجپائی، این سی پی رہنما شرد پوار اور شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے اور ان کے اہل خانہ کے درمیان تعلقات کے ساتھ ہی اپنی سیاسی تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں کو ’’نیا کردار  نیک مقصد کی تئیں ‘‘کے عنوان سے پیش کیا ہے۔

اس کے علاوہ اُن کے پاکستانی سیاستدانوں کے ساتھ بھی اچھے مراسم تھے، ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نواز شریف تک سبھی کے ساتھ اُن کے تعلقات بہترین رہے۔ بہرکیف آج ہمارے لیجنڈ ہیرو دلیپ کمار ممبی کے ہندوجا اسپتال سے جوہو قبرستان میں منوں مٹی تلے جا سوئے ہیں، میرا فیورٹ ہیرو آخر کار چلا گیا، ان کے تمام فلمی کردار آج دماغ کی اسکرین پر تیزی سے چل رہے ہیں، وہ شائقین کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ دنیا فانی ہے سب نے چلے جانا ہے، لیکن بقول شاعر نا م صرف اللہ کا رہ جانا ہے۔

بس نام رہے گا اللہ کا

جو غائب بھی ہے حاضر بھی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں