117

جمہوریت کا فریب

ظہیر اختر بیدری

یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ملک کے چند ہزار خاندان مل کر جمہوریت کی مالا جپ رہے ہیں اور سادہ لوح عوام اس خاندانی جمہوریت کے آگے کھڑے جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔ سیاست میں جمہوریت کی جو تعریف کی گئی ہے، اس کے مطابق عوام کی حکومت، عوام کے لیے ، عوام کے ذریعے ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری جمہوریت نہ عوام کے لیے ہے، نہ عوام کے ذریعے ہے۔ عوام کی حکومت ہے ہی نہیں بلکہ صورتحال اس قدر افسوس ناک ہے کہ صرف  چند خاندانوں پر مشتمل جمہوریت ہے اور یہی خاندان الیکشن لڑ کر حکومت بناتے ہیں۔ اس قسم کی جمہوریت صرف پاکستان کے اندر ہی دیکھی جاسکتی ہے۔ آنے والے دنوں میں انتخابات کا ڈول ڈالا جانے والا ہے اور یہی اشراف انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔

ہم جس جمہوری عہد سے گزر رہے ہیں اس عہد کو جمہوری اس لیے کہا جاتا ہے کہ سلاطین کے دور میں ایک خاندان ایک ملک یا ایک ریاست کا فرمانروا ہوتا تھا اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا تھا۔ دنیا کے مفکرین کو یہ طرز حکومت ذرا نہ بھایا بہت سوچ بچار کے بعد ان اکابرین نے جمہوریت کے نام سے ایک نئے طرز حکمرانی کو متعارف کرایا جس کو جمہوریت کا نام دیا گیا۔

اس نے طرز حکمرانی میں عوام کی طاقت کو بالادست تسلیم کیا گیا لیکن مسئلہ یہ رہا کہ عوام اس طرز حکمرانی سے واقف نہ تھے سو لشٹم پشٹم یہ طریقہ حکمرانی جاری رہا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ عام آدمی جو جمہوریت کا نمایندہ تھا سیاسی حوالے سے بیدار نہ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا سیاسی حوالے سے بیدار نہ تھا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اشرافیہ نے اس نئے طرز حکمرانی پر قبضہ کرلیا ، چونکہ شخصی حکومتوں کے دوران امرا کا ایک عوام دشمن طبقہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی جمہوریت کو لے آیا جس میں سیاسی طاقت سلاطین کے ہاتھوں سے نکل کر اشرافیہ کے ہاتھوں میں آگئی۔

عام آدمی کا کام اس جمہوریت میں صرف ووٹ ڈالنا رہ گیا بدقسمتی سے یہ سلسلہ آج تک جاری ہے خصوصاً پسماندہ ملکوں میں جمہوریت کا مطلب خواص کے حق میں ووٹ ڈالنا رہ گیا۔ اور یہی خواص اب تک حکمرانی کے مزے لے رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں دو بڑی پارٹیاںہیں ایک پیپلز پارٹی دوسری مسلم لیگ (ن)۔ ان دو پارٹیوں کے اکابرین نے جمہوریت کے طویل عرصے تک حکمرانی کی ہے جس کی وجہ قومی دولت چند ہاتھوں میں سمٹ آئی۔دولت کے ارتکاز کا اندازہ آپ اس طرح لگا سکتے ہیں ۔

آج کل اشرافیہ نے وقت سے پہلے جمہوری انتخابی تحریک کا آغاز کر دیا ہے چونکہ اقتدار سب کو عزیز ہوتا ہے، ماضی میں شاہ اقتدار کے لیے ایک دوسرے کو قتل کردیتے تھے، اب ہماری اشرافیہ اتنی مہذب ہوگئی ہے کہ وہ جسمانی قتل نہیں کرتی معاشی قتل کرتی ہے اور مقتول بے چاری عوام ہوتی ہے جس جمہوریت کو اکابرین نے متعارف کرایا تھا۔ اس میں حکومت کا اختیار عوام کے ہاتھوں میں ہوتا ہے لیکن عوام کی تعداد چونکہ کروڑوں تک پہنچ گئی ہے لہٰذا نیابتی جمہوریت کو اختیار کیا گیا یعنی عوام کی نمایندگی اشرافیہ کرتی ہے ۔

اس طرز حکومت نے اشرافیہ کو بالواسطہ ہمیشہ کے لیے حاکم بنا دیا۔ اب ہم ایسی جمہوریت سے گزر رہے ہیں جس میں سوائے اشرافیہ کے کوئی حکومت نہیں بنا سکتا۔ اس دور میں نیابتی جمہوریت اور نیابت کو اتنا مضبوط بنا دیا گیا ہے اور اس طرح قابل قبول بنا دیا گیا ہے کہ کوئی اس فراڈ جمہوریت کا متبادل سونے کے لیے تیار نہیں ہر دور میں قومی غلطیوں کا ازالہ مفکرین کرتے رہے ہیں لیکن ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، اس دور میں مفکرین عموماً اشرافیہ کی جیبوں میں پڑے سڑ رہے ہوتے ہیں انھیں صرف کرنسی کی خوشبو غذا پہنچاتی ہے اور مفکرین اسی غذا سے زندہ رہتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ کیا کوئی طریقہ ایسا ہے کہ اشرافیہ کی سیاست اور اقتدار پر سے بالادستی کا خاتمہ کیا جائے؟ ملک میں 22 کروڑ عوام رہتے ہیں جو ڈمی بنے ہوئے ہیں۔ اس مایوس کن صورتحال میں میڈیا ایک ایسی طاقت ہے جو اشرافیہ کی نام نہاد نیابتی جمہوریت کو بے نقاب کرکے ملک میں عوامی جمہوریت کی راہ ہموار کرسکتا ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں