112

اپوزیشن کے بڑھتے اختلافات

محمد سعید آرائیں

گزشتہ سال قائم ہونے والے اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں صرف چھ ماہ بعد ہی دراڑ اس وقت پڑی تھی جب اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی سے وضاحت طلب کی گئی تھی ، جسے پیپلز پارٹی نے شوکاز نوٹس سے تعبیر کیا تھا اور پارٹی اجلاس میں پی ڈی ایم کے جواب طلبی کے نوٹس کو پھاڑ دیا تھا۔

اے این پی نے بھی پی پی کی حمایت میں پی ڈی ایم کو چھوڑ دیا تھا اور دونوں پارٹیوں کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ہر پارٹی کی اپنی پالیسی ہے اور وہ حکومت کے خلاف پی ڈی ایم میں شامل ہوئے تھے اور سب پارٹیوں کا جن متفقہ نکات پر اتفاق ہوا تھا اس میں اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کی کوئی شرط شامل نہیں تھی اس لیے پیپلز پارٹی جو پارلیمنٹ میں تیسری بڑی قوت ہے، اس نے سندھ حکومت چھوڑنے اور پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد اپوزیشن نے اپنا لانگ مارچ ملتوی کردیا تھا حالانکہ پیپلز پارٹی لانگ مارچ پر تیار تھی اور اس نے تیار ی بھی شروع کر رکھی تھی۔

پی پی اور اے این پی کے چھوڑ جانے کے بعد پی ڈی ایم میں قومی سطح کی صرف دو بڑی پارٹیاں مسلم لیگ(ن) اور جے یو آئی باقی رہ گئی تھیں۔ باقی چھ پارٹیوں میں کوئی قومی پارٹی شامل نہیں بلکہ صوبوں تک محدود پارٹیاں اور سیاسی گروپ شامل ہیں اور بعض کے پاس اسمبلیوں میں کوئی ایک نشست بھی نہیں ہے بعض کے پاس ایک دو نشستیں ہیں اور وہ اپنے علاقوں تک محدود ہیں۔

پی ڈی ایم کا مقصد حکومت کا خاتمہ تھا مگر چھ ماہ بھی یہ اتحاد نہ چل سکا اور تیسری بڑی پارٹی کے الگ ہو جانے سے پی ڈی ایم غیر موثر ہوگئی ہے اور حکومت کے خلاف کوئی موثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔اس کا خیال ہے کہ اگر پیپلز پارٹی استعفوں سے انکار نہ کرتی تو پی ڈی ایم کی تحریک سے حکومت دوبارہ انتخابات پر مجبور ہوجاتی جب کہ حکومت مسلسل دعوے کر رہی تھی کہ پی ڈی ایم استعفے دے تو حکومت خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن کرا دے گی۔

اپوزیشن کی طرف سے استعفیٰ دینے کی نوبت ہی نہیں آئی اگر بڑی تعداد میں استعفے دیے جاتے تو حکومت جانے پر مجبور ہوسکتی تھی کیونکہ تقریباً نصف استعفوں کے بعد بڑے پیمانے پر ضمنی انتخاب ممکن نہ تھا۔

ماضی میں بھی ایسا نہیں ہوا جس سے حکومت بھی امتحان سے بچ گئی۔جس طرح حکومتی اتحاد مفاد پرست پارٹیوں پر مشتمل ہے اسی طرح پی ڈی ایم بھی سیاسی مفاد اور حکومتی عتاب سے محفوظ رہنے اور نئے انتخابات کے لیے بنی تھی جس کے باہمی اختلافات اور غیر اصولی سے حکومت کو تو کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ حکومت نے اپنی انتقامی کارروائیاں بھی جاری رکھیں اور دوبارہ متحد ہونے کے بجائے پی ڈی ایم اپنی ضد سے باہمی اختلافات بڑھاتی گئی کیونکہ ان کا اتحاد اصولی نہیں مفاد پرستی پر قائم تھا اور پیپلزپارٹی اپنی سندھ حکومت کیوں چھوڑتی۔

18 ویں ترمیم کے بعد صوبے بااختیار اور ماضی کی طرح وفاق کے محتاج ہیں نہ وفاق کے لیے کسی صوبائی حکومت کو ہٹانا ممکن ہے۔ 2014 میں جب پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی سے محدود استعفے دیے تھے، اس وقت اس نے اپنی کے پی حکومت چھوڑی تھی نہ صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ سے استعفے دیے تھے اور وفاقی حکومت کو ہٹانے میں بری طرح ناکام ہوئی تھی حالانکہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنوں کو بالاتروں کی حمایت بھی حاصل تھی۔

پی ڈی ایم کا مقصد پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کو ہٹانا تھا تو اسے صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں پر اصرار نہیں کرنا چاہیے تھا اور یہی پی ڈی ایم کی بنیادی غلطی تھی جس کے نتیجے میں وہ اختلافات کا شکار ہوئی۔ پی پی پی کی سندھ حکومت پی ڈی ایم کی طاقت تھی جسے ضایع کیا گیا۔

پی ڈی ایم میں ہوتے ہوئے (ن) لیگ، پی پی اور جے یو آئی من مانے فیصلے کرتی رہیں ان میں باہمی اعتماد نہیں تھا۔ (ن) لیگ اور پی پی اتحاد میں ہوتے ہوئے ایک دوسرے سے مخلص نہیں رہیں۔ پی ڈی ایم نے پی پی سے وضاحت مانگ کر پی ڈی ایم کو نقصان پہنچایا جس سے پی پی اور اے این پی باہر آ کر ایک ہوگئے اور پی ڈی ایم میں مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی ایک ہوگئے اور باقی چھوٹی پارٹیاں بھی مل کر پی ڈی ایم کے اتحاد میں پی پی کو واپس نہ لاسکیں کیونکہ وہ موثر اور اس پوزیشن میں نہیں تھیں جس کے بعد سے اپوزیشن تقسیم اور سیاسی مفادات کے لیے باہمی اختلافات کا شکار ہے جس سے حکومت مکمل فائدہ اٹھا رہی ہے اور قوم اور بالاتر تماشا دیکھ رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں