124

مبارک علی: سچی تاریخ کا مورخ

زاہدہ حنا

ڈاکٹر مبارک علی ہمارے ایک نامور دانشور اور مورخ ہیں۔ ان کی کتاب ’’ تاریخ نویسی‘‘ نئے شعورکی بازگشت۔ ان مضامین کا مجموعہ ہے جو کراچی میں ان کی کتابوں اور شخصیت کے بارے میں پڑھے گئے۔ ان کی تحریروں کے بارے میں ہمارے معروف ترقی پسند دانشور مسلم شمیم نے لکھا ہے کہ:

اردو صحافت (اور پاکستان کی انگریزی صحافت) کے تناظر میں تاریخ کے موضوع پر لکھنے والوں میں اگر کوئی ایک نام پچھلے بیس پچیس سال سے تواترکے ساتھ نظر آرہا ہے تو وہ بلامبالغہ ڈاکٹر مبارک علی کا نام ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی کے لیے اخبارات کے صفحوں تک پہنچنا دو لحاظ سے تقریباً ناگزیر بن چکا تھا۔

اولاً یہ کہ وہ جن لوگوں کے لیے لکھ رہے تھے ان تک پہنچنے کا سب سے بہترین وسیلہ اخبار ہی تھے۔ ہر چند کہ ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھا کہ ان کی کتابیں کم سے کم قیمت پر فروخت ہوں لیکن کتابیں کم قیمت ہونے کے باوجود اتنے بڑے حلقے تک نہیں پہنچ سکتی تھیں۔جتنے بڑے حلقے میں اخبارات پہنچتے ہیں۔

چنانچہ اخبارات میں لکھنا ڈاکٹر صاحب کی تاریخ نویسی کے مقصد اور ایک عام آدمی تک اپنی بات پہنچانے کی ان کی خواہش کے عین مطابق تھا۔ اس ضمن میں دوسرا جواز اس حقیقت نے فراہم کیا کہ سندھ یونیورسٹی سے علیحدگی کے بعد ڈاکٹر صاحب کے پاس کوئی مستقلاً ذریعہ روزگار نہیں تھا۔

بعض اداروں نے ان کو قبول بھی کیا لیکن وہ ان کی حریت فکرکی رفتارکا ساتھ نہیں دے سکے اور انھوں نے ڈاکٹر صاحب سے اپنی رفاقت ختم کرنے کو ہی مناسب سمجھا۔ چنانچہ اخبارات میں لکھنا ڈاکٹر صاحب کی مالی ضرورت بھی بن گئی۔ انھوں نے اس تعلق کو بھی بڑے اصولی اور نظریاتی ثابت قدمی کے ساتھ برقرار رکھا ہے۔

یہ خوش آیند بات ہے کہ ان کی تحریروں کو توجہ اور دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے۔ ان کے تراجم دوسری زبانوں کے اخبارات میں  شایع ہوتے ہیں اور اب بیرون ملک بھی اردو اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی ترسیل بڑھتی جارہی ہے۔

اسی مجموعے میں ایک مضمون میرا بھی ’’ عوام کا مورخ ‘‘ کے نام سے شامل ہے۔ میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر مبارک نے ابتدا سے تاریخ کے اس بیانیے کو چیلنج کیا جسے ہماری مقتدر اشرافیہ کی تائید حاصل تھی۔ فرنگی کے دور میں عوام کے دلوں کو گرمانے والے بیانیے پر جس طرح ایک رومانوی سنہرے غبار کا چھڑکاؤ ہوا ، اس نے بونوں کا قد آسمان کی بلندیوں سے ملا دیا اور ہوشو شیدی، دلا بھٹی، تیتو میر اور ہمارے وہ لڑاکے جنھوں نے فرنگی یا مغل استعمار کے خلاف جنگ لڑی ، وہ تاریخ کے حاشیوں سے باہر دھکیل دیے گئے۔

نصاب کی کتابوں میں چند نام بڑے اور قابل تعظیم ٹھہرے۔ انھیں نصابی کتابوں کے ساتھ ساتھ اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے ’’عظیم‘‘ کے طور پر پیش کیاجاتا رہا۔ ڈاکٹر مبارک نے اس سرکاری اور نیم سرکاری بیانیے کے خلاف جرأت اور پامردی سے عوام کی تاریخ اور اس تاریخ کے سورماؤں کی زندگیاں، ان پر گزرنے والے شداید اور سرکار کے ہاتھوں ان کی بے توقیری اور تذلیل کی تفصیل اپنی کتابوں میں پیش کی۔ لوگوں پر اس بات کو آشکار کیا کہ ان کے حقیقی ہیروکون تھے اورکون ہیں۔

اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کے لیے وہ راتوں کو اپنی آنکھوں کا تیل جلاتے رہے اور دن میں کسب معاش کی کوشش کرتے رہے۔ یہ مشکل دن ان سے زیادہ ان کی شریک حیات ذکیہ کے لیے صبر آزما اورکٹھن تھے۔ ان کی بیٹیوں نے کسی بھی مرحلے پر باپ سے کوئی شکایت نہیں کی۔ ذکیہ نے معاشی پریشان حالی کو کم کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈالا۔

ڈاکٹر صاحب کی بینائی رفتہ رفتہ زائل ہوئی تو ان کی چھوٹی بیٹی نین تارا ، ان کی آنکھیں بن گئی۔ وہ ان کے ساتھ شہر شہر سفرکرتی ہے، محفلوں میں انھیں لاتی اور لے جاتی ہے، اس کے علاوہ ذکیہ اور نین تارا ان کے تحریری کام میں ان کا ساتھ دیتی ہیں۔ ان کے چند  دوست اور ڈاکٹر جعفر جیسے مداح نہ ہوتے تو ڈاکٹر مبارک اپنی زندگی کے آخری حصے میں شاید سماج کے لیے وہ کچھ نہ کر پاتے جو انھوں نے کیا۔

ان کا ایک بڑا کارنامہ ’’ تاریخ ‘‘ ایسا وقیع مجلہ پابندی سے نکالنا بھی ہے۔ اس کی اشاعت میں ڈاکٹر جعفر، ڈاکٹر روبینہ سہگل، جناب اشفاق سلیم مرزا کے علاوہ پروفیسر ساجدہ وندل، پروفیسر پرویز وندل، ڈاکٹر کامران اژدر علی اور ڈاکٹر طاہرہ خان کی مسلسل شراکت رہی ہے۔

ڈاکٹر مبارک کو کبھی مورخ عوام کہا گیا اورکسی نے انھیں عوامی مورخ کے نام سے یاد کیا۔ اس بات کو ہم اگر ڈاکٹر مبارک کی نظر سے دیکھیں تو وہ اسے ’’ متبادل تاریخ نویسی‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ’’تاریخ‘‘ کے42 ویں شمارے میں انھوںنے بادشاہوں،فاتحوں، صوفیا، علماء کے زیر اثر تاریخ نویسی کے مرحلوں کا ذکر کیا ہے۔

انگریزوں نے اپنے مفادات کے حوالے سے تاریخ لکھوائی، پھر وہ غلاموں، چرواہوں ، کسانوں، ہنرمند دست کاروں اور مزدروں کی تاریخ کا ذکر کرتے ہیں۔  وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’جہاں تک عوامی تاریخ کو لکھنے کا سوال ہے اس پر پاکستان میں توجہ نہیں دی گئی ہے، اس لیے متبادل تاریخ لکھنے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں ہمیں یورپ کی تاریخ نویسی سے سیکھنا چاہیے کہ جہاں مورخوں نے عوامی تاریخ لکھنے کے لیے عدالتی اور ریونیو کی دستاویزات کو استعمال کیا۔ اگر ہمارے مورخ بھی ان کی مدد سے نچلی سطح کی تاریخ کی تشکیل کریں تو اس سے تاریخ میں نہ صرف وسعت آئے گی بلکہ نئے پہلوؤں کا اضافہ ہوگا۔اس کی مدد سے ہم جاگیرداروں کے نظام کوکچھ سمجھ سکیں گے اور کسانوں کے ساتھ ساتھ چرواہوں اور گاؤں کے دست کاروں کے کردار اور تاریخ میں ان کے حصہ پر روشنی ڈال سکیں گے۔

ایک اور اہم دستاویزی خزانہ خفیہ ایجنٹس کی رپورٹیں ہیں۔ عہد برطانیہ میں وہ تحریکوں اور اشخاص کا ریکارڈ رکھتے تھے کہ جو ان کے لیے خطرناک تھے۔ ان دستاویزات سے نہ صرف ان کی خفیہ سرگرمیوں کے بارے میں معلومات ملیں گی، بلکہ ان اشخاص کے بارے میں بھی پتہ چلے گا کہ جو ان ایجنسیوں کے لیے کام کرتے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے بہت سے محترم رہنما ان کے خفیہ ایجنٹس کے طور پر سامنے آجائیں۔‘‘

ڈاکٹر مبارک نے اپنے طور پر متبادل تاریخ لکھی، انھوں نے تاریخ نویسی کی سیکڑوں، ہزاروں برس پرانی روایات پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے سچی تاریخ رقم کرنے کی ابتدا کی اور ان کی یہی وہ خدمات ہیں جن پر انھیں خراج تحسین ادا کرنے کے لیے آئی ایچ ایس آر کی طرف سے دو روزہ جشن منایاگیا۔

غالب کہہ گئے ہیںکہ

’وفاداری بہ شرطِ استواری، اصل ایمان ہے‘‘

ڈاکٹر مبارک علی نے اردو شاعری کے صاحب عالم کے اس مصرعے کو اپنا ایمان بنایا، لگ بھگ 100 کے قریب کتابیں لکھیں اور پڑھنے والوں کے ذہنوں کو منور کیا۔ ان کی کتابوں میں سے چند ’’ مغل دربار‘ المیہ تاریخ، عورت اور تاریخ‘‘ بہت مقبول ہوئیں اور ان کے کئی ایڈیشن شایع ہوئے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر مبارک علی ایسے تاریخ داں نہ ہوتے تو کیا ہم ایوب گردی اور ضیاء شاہی کے مظالم سے آگاہ ہوسکتے تھے اور کیا مشرقی پاکستان اور محترمہ فاطمہ جناح کی جمہوریت کے لیے جدوجہد ہمارے لیے اہم اور محترم ہوسکتی تھی اور کیا اپنے عوام کی سچی تاریخ ہم تک پہنچ سکتی تھی؟ اس کارنامے کے لیے ڈاکٹر مبارک علی کو جتنی بھی مبارکباد دی جائے وہ کم ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں