120

بابے

رائو منظر حیات

دوپہر کے وقت قادری صاحب کو ملنے چلا گیا۔ عموماً شام کو حاضر ہوتا تھا۔ لارنس روڈ لاہور پر دو تین ایکڑ کا خاندانی گھر۔ قادری صاحب گھر کے باہر والے کمرے میں رہتے تھے۔ گھر کی مسجد کے پیچھے خیمہ لگا ہوا تھا۔ اس کے تھوڑا سا پیچھے لنگر خانہ جہاں ہر وقت کھانا پکتا رہتا تھا۔ بہترین اور خوشبودار کھانا ‘سب کے لیے موجود رہتاتھا۔

ملازم سے پوچھا کہ قادری صاحب تشریف رکھتے ہیں۔ سلام کرنا چاہتا ہوں۔ وہ چند لمحوں میں واپس آیا، بلا رہے ہیں۔ میں خیمے کی طرف بڑھا  تو دیکھا ، قادری صاحب باہر درخت کے نیچے ‘ کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ اجازت لے کر دوسری کرسی پر بیٹھ گیا۔ کیسے آنا ہوا‘ دوپہر کو۔ بس صرف زیارت مقصود تھی۔ بھاری بھرکم عینک میں قادری صاحب پروفیسر لگ رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں اخبار دیکھ کر حیران ہو گیا۔ آپ اخبار بھی پڑھتے ہیں۔

ہاں! کیوں نہیں ۔ کہاں لکھا ہے کہ خدا کی راہ پرچلنے والے لوگ دنیاوی حالات سے لاتعلق رہیں گے۔ قادری صاحب مزیدکہنے لگے۔ ڈاکٹر! بتایا جاتا ہے کہ فلاں افسر خلق خدا کے ساتھ حد درجہ ناروا سلوک کرتا ہے۔ میں حیران ہو گیا۔ آپ کو کیسے معلوم ہو گیا۔ آپ تو اکیس برس سے گھر سے باہر نہیں نکلے۔قادری صاحب پرسکون انداز میں بولے، یہ افسر پتہ نہیں کیوں ‘ لوگوں کے ساتھ ظلم کرتا ہے۔ طاقت نے اسے دیوانہ کر دیا ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ تھوڑے ہی عرصے میں وہ افسر تبدیل ہو گیا۔ اسے صوبے سے نکال دیا گیا۔ یہ بات برسبیل تذکرہ تھی۔

ویسے وہ افسر پھر پوری زندگی دربدر رہا۔ حیرت تو یہ تھی کہ قادری صاحب کا اس طرح کے دنیاوی معالات سے کیا واسطہ! مگر صاحب یہ بات صرف اور صرف سمجھنے کی ہے۔ دنیا کے نظام میںمخلوق خدا کی دیکھ بھال کے لیے قیامت تک کوئی نہ کوئی درویش ہر زمانے میں متعین رہتا ہے۔ اسے قطب مدار کا نام دیا جاتا ہے۔

بات قادری صاحب سے ملاقات کی ہو رہی تھی۔ فرمانے لگے کہ مجھے ٹرین کے ڈبے میں بٹھا کر اب بتاتا ہی نہیں کہ یہ کب چلے گی ۔ چلے گی بھی یا نہیں، چلے گی تو کس اسٹیشن پر اترنا ہے۔ میرے پلے کچھ نہیں پڑا۔ ٹرین ‘ اسٹیشن ‘ ساکت یا حرکت کرتے ڈبے، اس کا کیا مطلب ہے؟ میرے ذہن میں یہ سوال بھی ابھر رہا تھا کہ قادری صاحب ! میرے جیسے کم علم سے ایسی وجدانی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟ پھر کہنے لگے، مجھے تو اکیس برس سے قید کر رکھا ہے، پتہ نہیں کب رہائی ہو گی؟ یہ بات درست یوں تھی کہ  قادری صاحب کے گھر میں ایک جانب ایک لکیر کھنیچی ہوئی ہے۔

وہ دھائیوں سے اس لکیر سے باہر نہیں آئے۔ یہ حد درجہ غیرمعمولی بات تھی۔ ہر ایک کے علم میں تھا کہ وہ ایک مخصوص مقام سے باہر قدم نہیں  رکھتے۔ ویسے ڈاکٹر! خدا کو سمجھنا نہیں بلکہ عشق کرنا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بات صرف اور صرف فہم اور ادراک کی ہے۔ میرے جیسا آدمی جو دین اور دنیا کے درمیان پنڈولم بن چکا ہے، بھلا اس کا ان روحانی  اسرار سے کیا کام۔ اتنی دیر میں ایک بوڑھی عورت آئی۔ اس کے ہاتھ میں اک تارہ کی طرح کاکوئی موسیقی کا آلہ تھا ۔

وہ اس لکیر سے پرے کھڑے ہو کر ساز بجانے لگی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس سرحد کو عبور نہیں کر رہی تھی‘ جس سے قادری صاحب باہر نہیں نکلتے تھے۔ مگر اس بڑھیا کو اس روحانی سرحد کا علم کیسے ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آیا۔ قادری صاحب نے شاید میرا چہرہ پڑھ لیا۔ فرمانے لگے،میں ایک عام آدمی ہوں۔ میرے پاس تمام مذاہب اور طبقات کے لوگ آتے ہیں ۔ کسی کے لیے کوئی ممانعت نہیں ہے۔

یہ عورت اک تارہ بجا کر روحانی سکون حاصل کر رہی ہے۔  میری ذہنی کیفیت تبدیل ہورہی تھی، مجھے میلے کچیلے لباس والی بوڑھیا کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، اک تارہ بج رہا ہے، سب کچھ غائب تھا۔ میں بھی‘قادری صاحب بھی‘ خیمہ بھی اور درخت بھی۔ قادری صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر‘ کدھر چلے گئے ہو۔ چند روز پہلے ملازم نے بتایا کہ کہ ملک کے ایک وزیراعظم تنہائی میں ملنے کے لیے درخواست کرتے رہے تھے، مدعا دعا کرانا تھا۔ مگر قادری صاحب نے  انکار کر دیا۔ کچھ عرصے کے بعد وہ وزیراعظم ہی نہ رہے۔

تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد رخصتی کی اجازت لی۔ گھر واپس آیا تو قلبی کیفیت عجیب سی تھی۔ ساری رات سوچتا رہا کہ یہ قادری صاحب کون ہیں ؟ ان کی باتیں جادو اثر کیوں ہیں؟دراصل یہ بابے بہت پراسرار ہوتے ہیں۔ یہ وہ ’’قزاق‘‘ ہیں جو بھیس بدل کر آپ کو لوٹ لیتے ہیں لیکن جب آپ کو ضرورت  پڑتی ہے تو دگنا یا تگنا کر کے واپس کر دیتے ہیں۔ہم انھیں اﷲ والے کہتے ہیں۔ یہ سلوک کی منزلیں ہیں۔ کون کس شاہراہ پر گامزن ہے۔ ہمیں اس کا علم نہیں۔ خلق خدا کی خدمت اور خدا کی وحدانیت میں جذب ہونا۔خیر یہ تمام باتیں نہ لکھی جا سکتی ہیں نہ کہی جا سکتی ہیں۔ یہ راز تو نہیں ہیں مگر عام بھی نہیں ہیں۔ہاں‘ گزشتہ دو برسوں میں ایک اور صوفی سے واسطہ پڑ گیا ہے۔ امریکا میں ڈاکٹر ہے۔ اپنی تنخواہ کا کثیر حصہ مستحق مریضوں پر خرچ کر دیتا ہے۔ بتاتا ہے کہ امریکا میں بھی بہت غربت ہے۔ یہ ڈاکٹر انشورنس کے بغیر لوگوں کا مفت علاج کرتا ہے۔ جیب سے دوائیاں خرید کر دیتا ہے۔ داڑھی رکھی ہوئی ہے۔ دسمبر میں کرسمس کے نزدیک لال ٹوپی پہن کر سانتا کلاز‘ بن جاتا ہے۔ بچوں میں تحفے تقسیم کرتا ہے۔میرا بچپن کا کلاس فیلو ہے۔ مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک بچہ تھا‘ اور پھر یک دم بوڑھا ہو گیا۔ سات آٹھ سو برس کا بزرگ۔ جوانی اس کو چھو کر نہیں گزری۔ مجھے ویسے اس کی اکثر باتیں اب سمجھ نہیں آتیں ۔

ویسے اب تو میں کچھ بھی سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔ ڈاکٹر پاکستان آ کر ہمارے ایک مشترکہ دوست ‘ چوہدری ارشد کے ساتھ بابا فرید ؒ کے مزار پر فاتحہ کے لیے گیا۔ ارشد نے بتایا کہ حاضری کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ پھر صاحب مزار کی اجازت سے ایک فراش ‘ڈاکٹر اور ارشد کو اندر لے گیا۔ نصف صدی کی دوستی کے باوجود وہ میرے لیے ایک اجنبی  ہے۔ مانوس سا اجنبی۔ ویسے اس طرح کے لوگ بہت جادوگر ہوتے ہیں۔میں ان لوگوں سے دور بھاگتا ہوں۔ مگر یہ کسی نہ کسی طریقے سے اپنے نزدیک کر لیتے ہیں۔ یہ روحانی بابے حد درجہ ’’خطرناک‘‘ ہوتے ہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں