116

سفارتی معاملات حد درجہ نازک ہوتے ہیں!

رائو منظر حیات

کہاں سے لائیں وہ رہنما ‘ جو فیصلہ سازی کی اصل روح سے منور ہوں۔ مشکل ترین حالات میں بھی گرد کو چیر کر دیکھنے والی نگاہ۔ انا کو فنا کر کے صرف اور صرف ‘ اس بدقسمت قوم کے مفاد میں فیصلے کرنے والے قدآور لوگ۔ کہاں سے لائیں۔

ٹھیک پندرہ برس پہلے نیپا لاہور میں زیر تربیت تھا۔کورس کے آخر میںایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کا لیکچر تھا۔ قائداعظم کا پہلا اے ڈی سی‘ ضعیف اور پرانا افسر۔ آبدیدہ ہو کر کہنے لگا۔ میرا دفتر ‘ گورنر جنرل ہاؤس میں قائد کی خواب گاہ کے عین نیچے تھا۔ جس دن قائد کو کوئی مشکل فیصلہ کرنا ہوتا تھا۔ تو پوری رات ہاتھ میں سگریٹ لیے چلتے چلتے گزر جاتی تھی۔ نرم و نازک جوتوں کی ٹک ٹک کی آواز ‘ دفتر میں گونجتی رہتی تھی۔ اے ڈی سی کی سرکاری ڈیوٹی تو کب کی ختم ہو چکی ہوتی ۔ مگر بصد احترام‘ رات بھر اپنے دفتر میں بیٹھا رہتا تھا۔

پوری رات کی گہری سوچ کے بعد قائد جو فیصلہ فرماتے تھے‘ اس میں قوم کی تعمیر کا عنصر ہوتا تھا ۔ صرف اور صرف تعمیر ۔لیکچر کے دوران بریگیڈیئر صاحب بھی زارو قطار رو رہے تھے اور ہم سب کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔ قائد کے ساتھ کام کرناایک عظیم اعزاز سے کم نہیں۔ اور ہاں‘ کسی بھی جگہ قائد اپنا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتے تھے۔

بیرونی سفیر جب سفارتی اسناد پیش کرنے آتے ۔ تو اس کمزور سے گورنر جنرل کی شخصیت سے اتنے مرعوب ہو جاتے کہ کئی بار تو کاغذات تھماتے ہوئے آدھے جھک جاتے۔ پاکستان میں امریکا کے پہلے سفیر کی تصویر آج بھی سند ہے۔ ان لوگوں کو معلوم تھا کہ وہ ایک تاریخ ساز سیاست دان کے سامنے موجود ہیں۔ بیرونی معاملات پر قائد انتہائی نپی تلی رائے دیتے تھے۔ حد درجہ محتاط الفاظ ۔

قائداعظم کے بعد جس سیاست دان نے سب سے زیادہ ملکی مصائب دیکھے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ ان کی شخصیت سے اختلاف رکھنے والے بھی گردانتے تھے کہ یہ شخص سفارت کاری کا جادوگر تھا۔ خون میں ڈوبا ہوا ملک ‘ نوے ہزار پاکستانی‘ ہندوستان کی دسترس میں تھے۔ معیشت نہ ہونے کے برابر۔ بھٹو کے ہاتھ میں کیا تھا کچھ بھی نہیں۔ مغربی پاکستان کے وسیع علاقہ پر بھی ہندوستان قبضہ کر چکا تھا۔ اتنے مشکل ماحول میں بھٹو شملہ گئے تھے۔ مذاکرات تو ناکام ہو چکے تھے۔

واپسی کا زاد راہ بندھ چکا تھا۔ پھر ذہین وزیراعظم بھٹو کی اندرا گاندھی کے ساتھ یاد گار واک۔چند لمحوں میں سب کچھ بدل گیا۔ مذاکرات کامیاب ہوئے۔ہمارا وفد جو بالکل خالی ہاتھ گیا تھا‘ صرف اور صرف بھٹو کی طلسماتی سفارت کاری سے ہر سہولت لینے میں کامیاب ہو گیا۔سوچیے وجہ کیا تھی۔ صرف پاکستانی وزیراعظم بھٹو کی انتہا ئی ذہین کارکردگی۔ لاکھ اختلاف کریں ۔مگر بھٹو کے بعد اس سطح کا لیڈر ہمارے سیاسی مقدر میں نہیں آیا۔اب قافلے میں بے بصیرت لوگ ہی رہ گئے ہیں ۔

کیفیت ایسی ہے ناکامی کی اس تصویر میں

جو اتر سکتی نہیں آئینہ تحریر میں

(اقبال)

کارگل کی جنگ جاری تھی۔ وزیراعظم شاید چین کے دورے پر تھے ۔ سیکریٹری خارجہ جنگ کی ہولناکی کی پل پل کی خبر دے رہے تھے۔ نواز شریف کو مشورہ دیا کہ جناب‘ فوری طور پر دورہ ختم کر کے واپس چلیے۔ ملک میں جنگ کا الاؤ جل رہا ہے۔ جواب تھا۔ درست ۔ مگر راستے میں ہانگ کانگ یا سنگا پور ایک دو دن کے لیے رکنا ہے کیونکہ خواتین نے شاپنگ کرنی ہے۔

سیکریٹری خارجہ نے گزارش کی کہ سر حالات نازک ہیں۔ جلد پہنچنا چاہیے۔ بات آداب شاہی کے خلاف ٹھہری ۔ وزیراعظم اور ان کا وفد‘ شاپنگ کے لیے ڈیڑھ دن کے لیے رکا۔ جب موصوف واپس پہنچے تو فرما دیا کہ انھیں تو جنگ کے متعلق پوچھا تک نہیں گیا۔ آگ پر مزید تیل چھڑک ڈالا ۔ کیا یہ ایک وزیراعظم کے الفاظ اور پالیسی بیان یہی ہونا چاہیے ۔

سفارت کاری کے انتہائی پیچیدہ میدان میں پرویز مشرف بھی غلطی پر غلطی کرتے رہے۔ افغانستان کے متعلق اتنے غیر دانشمندانہ فیصلے کیے کہ جنگ ہمارے ملک میں آ گئی۔ اور آج تک جاری ہے۔ پرویز مشرف نے امریکا سے بات چیت کی ابتداء ہی میں مکمل ذہنی شکست قبول کر لی۔ تھوڑے عرصے میں طالبان نے ہمارے ملک کو بارود کا ڈھیر بنا دیا۔ ہمارے لیڈروں کی  اکثریت اپنی ناک کے آگے دیکھنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ کتاب اور علم سے ان کی ذاتی دشمنی ہے۔ ان حالات میں دنیا کے اہم ممالک سے تعلقات کے خدوخال کیسے واضح ہو نگے۔ ہماری کونسی پالیسی ہو گی کہ ہر طریقے سے سفارتی توازن قائم رہے۔ طالب علم کو دور دور تک اس طرح کا کوئی وصف نظر نہیں آتا۔

چند دن پہلے جناب محترم عمران خان نے ایک امریکی چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم امریکا کو کسی صورت میں فوجی اڈے نہیں دینگے۔ ہر طرف مبارک باد کے ڈونگرے بجنے لگے کہ دیکھو آج پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا۔ خارجہ پالیسی اب بھرپور طریقے سے آزاد ہے۔ مگر کسی نے یہ نہیں فرمایا کہ جناب امریکا آج بھی دنیا کی واحد سپرپاور ہے۔

وہ پہلے ہی ہم سے حد درجہ ناراض ہیں۔ ان کے صدر جوبائیڈن نے آج تک ہمارے وزیراعظم سے بات کرنی مناسب نہیں سمجھی۔ وزیراعظم نے اپنے قطعی بیان سے مکمل طور پر امریکا کو مزید دشمنی کی طرف دھکیل دیا۔ کیا یہ مناسب نہیں تھا کہ عمران خان فرماتے کہ ہم فوجی اڈے دینے یا نہ دینے کا فیصلہ اپنے قومی مفادات کو سامنے رکھ کر کریں گے۔ آپ لاکھ بار اڈے نہ دیں۔ مگر سفارت کاری کے نازک اصولوں کا خیال رکھیں۔

اور تواور شاہ کے مصاحب تو یہاں تک فرمانے لگے کہ اگر جوبائیڈن ‘ پاکستانی وزیراعظم کو فون نہیں کرتے تو کوئی بات نہیں ہمارے پاس بھی فون سننے کا وقت نہیں۔ یہ ہے غیر دانشمندانہ رویہ۔ اس سے عوام تو شائد خوش ہو جائیں مگر طاقتور حلقے جانتے ہیں کہ پاکستان ایک بڑے حادثے کے مزید قریب ہو چکا ہے؟ ریاستوں کے تعلقات میں سنجیدگی اور پردہ داری کے بغیر صرف جذبات رہ جائیں تو سمجھ جائیے کہ مشکلات کم نہیں بلکہ بڑھ رہی ہیں!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں