124

شعبہ میڈیکل اور حکومتی پالیسیاں !

علی احمد ڈھلوں

جب ہم ایک طرف دنیا کا مقابلہ کرنے کی باتیں کریں اور دوسری طرف شعبہ تعلیم کے لیے محدود و سائل، سفارشی کلچر، کرپشن اور بے ضابطگیاں منہ چڑھا رہی ہوں تو دنیا کا مقابلہ کرنا تو دور ہم بنگلہ دیش یا سری لنکا کے ساتھ بھی کھڑے نہیں ہوسکتے۔ہم تعلیم کے میدان میں دنیا کے 137 ممالک میں100ویں نمبر پر آتے ہیں جب کہ بھارت جیسا پسماندہ ملک 34ویں نمبر پر آتا ہے۔

دونوں ملکوں میں فرق صرف یہ ہے کہ وہاں تعلیم و صحت کی پالیسیوں میں تسلسل ہے، جب کہ یہاں ہر آنے والی حکومت تعلیم جیسے حساس شعبہ سے چھیڑ چھاڑ کرتی، ذاتی مفادات تلاش کرتی اور ایسے  ذرایع تلاش کرتی ہے تاکہ جس سے ’’دیہاڑیاں‘‘ لگنا یقینی ہو جائے۔

اب جب کہ نیا مالیاتی بجٹ 2021-22پاس ہوا ہے، اس میں تعلیم جیسے شعبے میں محض 2.1فیصد بجٹ رکھا گیا ہے جب کہ اس کے برعکس ترقی یافتہ یا پاکستان جیسے ممالک میں یہ تناسب 5فیصد سے اوپر ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب ہم پاکستان کے نظام میں بہتری کی بات کرتے ہیں، یا لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے، یا معیشت میں بہتری، یا اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی بات کرتے ہیں تویہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ سب تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

مطلب! یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف معاشرہ پسماندگی کی طرف جا رہا ہو اور دوسری طرف آپ ترقی کے بلند و بانگ دعوے کریں اور کہیں کہ وطن عزیز میں ’’انقلابی تبدیلی‘‘ آنے والی ہے تو یہ دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حالانکہ تعلیم، صحت جیسی سہولیات حکومت وقت کی بنیادی ذمے داریاں ہوتی ہیں لیکن افسوس حکومت ان ذمے داریوں کا 35فیصد بھی نہیں نبھا رہی۔

یہ تو بھلا ہو پرائیویٹ سیکٹر کا کہ اُس نے باقی کا 65فیصد حصہ سنبھالا ہوا ہے۔ جی ہاں! 65فیصد! خیر پرائیویٹ سیکٹر سے آپ کو لاکھ شکایات سہی مگر آج بھی آپ اپنے بچے کو گورنمنٹ کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر میں داخل کرانے کو ترجیح دیں گے اور اگر آپ کا کوئی پیارا بیمار ہو جائے تو آپ کی آخری حد تک کوشش ہوتی ہے کہ اگر اُس کی جان بچانی ہے تو اُسے گورنمنٹ کے بجائے پرائیویٹ اسپتال میں داخل کرایا جائے۔

اس میں قصور پرائیویٹ سیکٹر کا نہیں بلکہ حکومت کا ہے کہ اگر وہ مکمل 100فیصد سہولیات فراہم کرے تو یقینا پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ شکنی ہوگی اور وہ اس میدان میں نہیں آئے گا جس میں حکومت اچھا کام کر رہی ہو۔ لیکن اگر حکومت خود بھی اپنی ذمے داریاں بہتر طریقے سے انجام نہ دے رہی ہو اور ایسے اقدام کرے کہ کوئی دوسرا بھی اچھا کام نہ کرے تو میرے خیال میں یہ عوام کے ساتھ زیادتی ہوگی۔

ایک مثال آپ نجی شعبہ میڈیکل کی لے لیں۔گزشتہ دنوں ٹی وی پر پرائیویٹ میڈیکل شعبہ کی نمایندہ تنظیم ’’پامی‘‘ کے عہدیداران پریس کانفرنس کر رہے تھے، میں نے سوچا کہ دیکھو ’’پرائیویٹ مافیا‘‘ حکومت سے مطالبات کرنے آگیا۔ لیکن جب اُن کے مطالبات پر غور کیا تو سوچ میں پڑ گیا۔ اگر مذکورہ پریس کانفرنس کی تفصیل میں گیا تو پتہ چلا کہ ملک میں 114سے زائد میڈیکل اور ڈینٹل کالجز نجی شعبہ میں ہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ پاکستان کے کل میڈیکل کالجز کی کھپت 65فیصد نجی میڈیکل کالجز پورے کر رہے ہیںاور ہر سال فارغ التحصیل ڈاکٹرز کا 60 سے 70فیصد بھی نجی میڈیکل کالجز ہی پوراکر رہے ہیں۔

ویسے بھی پاکستان کی رینکنگ، صحت کی بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی اور ڈاکٹرز کی کمی کے حوالے سے، دنیا کے 192ممالک میں 165ویں نمبرپرہے۔حال ہی میں انٹرنیشنل اداروں جیسے انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف میڈیکل ریگیولیٹری اتھارٹییز(آئی اے ایم آر اے) اور ورلڈ فیڈریشن آف میڈیکل ایجوکیشن (ڈبلیو ایف ایم ای)سمیت متعدد بین الاقوامی اداروں نے  خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان نے تجربہ کار افراد پر مشتمل ’’الیکٹڈ کونسل‘‘ کے قیام میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا اور شعبہ طب کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے تو اسے بین الاقوامی فورمز سے آؤٹ کر دیا جائے گا۔

اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو یہ بھی پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن ہوگا۔کیوں کہ دنیا بھر میں ہمارے ڈاکٹرز کی ڈگری کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور پاکستانی ڈاکٹرز جنھیں امریکا، یورپ اور دیگر ممالک میں خاص اہمیت حاصل ہے، ہم اس ’’اعزاز‘‘ سے اربوں ڈالر کے فارن ریمنٹنس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔جب کہ بھارت، بنگلہ دیش جیسے ممالک اس کمی کو فوری پورا کرکے مالی فوائد حاصل کرلیں گے اور اس کا ذمے دار کوئی اور نہیں بلکہ حکومت ہوگی۔

لہٰذااس شعبے کی اہمیت کے حوالے سے اگر کسی کو کوئی شک رہ گیا ہے تو وہ پی ایم سی کی ویب سائٹ پر جا کر دیکھ لے کہ ملک میں  پرائیویٹ اور گورنمنٹ میڈیکل کے تعلیمی اداروں کی تعداد کتنی ہے؟ نجی شعبے کی ایک شکایت یہ ہے کہ ایڈمیشن ریگولیشن 2021-22 کے تحت کیے جانے والے تجربات کی وجہ سے میڈیکل اور ڈینٹل کا شعبہ زوال پذیری کا شکا ر ہے۔

خیر آخر میں عہدیداران سخت مایوس نظر آئے اور کہا کہ اگر حکومت نے اس شعبہ کی جانب ترجیحی بنیادوں پر توجہ نہ دی تو وہ دن دور نہیں جب پرائیویٹ میڈیکل کالجز جو اس وقت  سالانہ 60فیصد سے زائد ڈاکٹر پروڈیوس کر  رہے ہیں ، تالا بندی پر مجبور ہو جائیں گے۔ ایسا کرنے سے جہاں طلبہ کا تعلیمی نقصان ہوگا وہیں ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹرز، میڈیکل اسٹاف اور دیگر انتظامی عہدیداران بے روز گار ہو جائیںگے ،اور لاکھوں مریض پرائیویٹ ٹیچنگ ہسپتا لوں میں فری علاج کی سہولت سے محروم ہو جائیں گے!ساتھ ہی کالج مالکان جنھوں نے اس شعبہ میں خدمت انسانی کی غرض سے اربوں روپے جھونک دیے وہ بھی دیوالیہ ہو جائیںگے اور شعبہ ہیلتھ کیئر میں حکومت پاکستان کا ایک بازو ناکارہ رہ جائے گا۔

بہرکیف میں یہ نہیں کہتا کہ اس طرح کی پرائیویٹ تنظیمیں 100فیصد سچ بولتی ہوں گی، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اگر یہ لوگ اربوں روپے کما رہے ہیں تو یہ سڑکوں پر آنے کی دھمکی کیوں دے رہے ہیں؟ انھوں نے حکومت کے کہنے پر اربوں روپے لگائے اور اب ان کی بات سننے والا اگر کوئی نہیں ہے تو یہ یقینا زیادتی ہوگی۔ لہٰذااگر حکومت آج کل بجٹ میں مصروف ہے تو اُسے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ بجٹ پیدا کرنے والے اسٹیک ہولڈرز پرائیویٹ سیکٹر، تاجر اور دیگر شعبے اُن سے نالاں کیوں ہیں؟ حکومت کو چاہیے کہ تعلیم کے شعبہ کو گراس روٹ لیول سے شروع کرے اور شرح خواندگی میں اضافہ کرنے کی اسکیمیں شروع کرے۔ بھارت کی مختلف ریاستوں میں بچوں کو اسکول میں داخلہ کے لیے ان کے والدین کے لیے کشش پیدا کرنے کے لیے مختلف اسکیموں کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہوئے۔

ان اسکیموں میں بچوں کو ناشتہ اور دودھ، یونیفارم، کتابوں اور کاپیوں کی فراہمی کے ساتھ ان کو اتنا وظیفہ دینے کی اسکیمیں شامل تھیں ، جو ان کے والدین کی آمدنی میں اضافہ کرسکیں۔ بھارت میں ان پالیسیوں کی وجہ سے خواندگی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ بھارت نے پرائیویٹ سیکٹر کی بھی حوصلہ افزائی کی۔ لہٰذاہم بھی اسی طرح پرائیویٹ سیکٹر اور گورنمنٹ سیکٹر میں بہتری لا کر واقعی ملک کی خدمت کر سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں