166

ترقیاتی بجٹ اور اس کا استعمال

محمد ابراہیم خلیل

نماز مغرب کی ادائیگی کے فوری بعد دسترخوان چن دیا جاتا تھا۔ اساتذہ کرام برآمدے میں بیٹھ کر جلدی کھانا تناول کرنے کی کوشش کرتے کیونکہ آہستہ آہستہ اندھیرا پھیلتا چلا جا رہا تھا، اگرچہ روشنی کرنے کا انتظام سامنے ہی موجود تھا، اس وقت اس علاقے میں بجلی نہیں آئی تھی۔ سامنے ہی لالٹین موجود تھی بلکہ مٹی کے تیل کا کنستر بھی رکھا ہوا تھا۔

اتنے میں اسٹوڈنٹس کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا ، ادھر ٹیچرز نے کھانا ختم کر ہی لیا تھا کہ ایک طالب علم لالٹین روشن کردیتا ، اس کے ساتھ ہی پڑھائی کا آغاز ہو جاتا کیونکہ بورڈ کے امتحان کی تیاری کرنی تھی۔ میں نے راوی ماسٹر حافظ غلام محمد آف تھوہا محرم خان سے پوچھا کہ اساتذہ کرام لالٹین جلا کر کھانا کیوں نہیں کھاتے تھے؟ ماسٹر صاحب جوکہ پاکستان کے ہی ہم عمر ہیں ، ان کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ چہرے پر خوشگوار تاثرات نمایاں تھے۔

آواز میں ایسا جوش و جذبہ تھا جیسے اپنے اساتذہ کرام کو سلام پیش کر رہے ہوں۔ گویا ہوئے کہ لالٹین اور مٹی کا تیل طالب علم اپنے پیسے ملا کر خریدتے تھے۔ اس جمع شدہ رقم جسے ہم طالب علموں کا ماہانہ بجٹ بھی کہہ سکتے ہیں اس کے بارے میں اساتذہ کرام کا کہنا تھا کہ یہ صرف اور صرف طالب علموں کا ہی حق ہے۔ جسے ہم اپنے لیے کسی طور پر استعمال نہیں کرسکتے۔

چند برس قبل جب سرگودھا شہر کے معاشی حالات کا جائزہ لے رہا تھا ماسٹر صاحب سے اس سرسری ملاقات نے میری توجہ حالیہ پیش کردہ بجٹ میں سے ترقیاتی بجٹ کی جانب مبذول کردی کیونکہ ترقیاتی بجٹ مختص کرنے کے بعد عوام کا ہوجاتا ہے اب یہ اسے استعمال کرنے والے خرچ کرنے والے لوگوں پر منحصر ہوکر رہ جاتا ہے کہ وہ ساری رقم انتہائی سوچ سمجھ کر کفایت شعاری کے ساتھ ایمانداری کے ساتھ خرچ کریں۔

یہاں اکثر ہر وابستہ شخص یا ان میں سے کئی افراد اپنا اپنا حصہ وصول بھی کرلیتے ہیں کہ پراجیکٹ ہی نامکمل رہ جاتا ہے یا پھر تکمیلی مدت گزرنے کے بعد مطالبہ کیا جاتا ہے کہ مزید رقوم فراہم کی جائیں تاکہ منصوبہ مکمل ہو یا پھر کئی منصوبوں میں مل ملا کر ایسا ناقص اور سستا میٹریل استعمال کرتے ہیں یا پھر اعلیٰ میٹریل کا بل بنا کر اپنا اپنا حصہ وصول کرلیتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہیں نوتعمیر پُل ہی ٹوٹ گئے۔ کہیں سڑکیں بنائے ہوئے 6ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر نوحہ کناں ہوتی ہیں کہ ہماری تعمیر کرتے وقت انتہائی سستا اور گھٹیا میٹریل استعمال کیا گیا ہے۔

بہرحال آیندہ مالی سال کے بجٹ میں ترقیاتی بجٹ کے نام پر وفاق کی جانب سے 900 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جسے رواں مالی سال کے ترقیاتی فنڈ کا 38 فیصد زیادہ بتایا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت 2018-19 کے بجٹ سے لے کر 2021-22 کے ترقیاتی یا ڈیولپمنٹ بجٹ کا استعمال کر رہی ہے۔ 2018-19 کے بجٹ میں ترقیاتی پروگرامز کے لیے 1030 ارب روپے رکھے گئے تھے۔

11 جون 2019 میں وفاقی وزیر خزانہ نے بجٹ پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ قومی ترقیاتی فنڈز کے لیے 1800 ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں سے 950 ارب روپے وفاقی ترقیاتی پروگرامز کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ 2020-21 کے بجٹ میں ترقیاتی بجٹ کی مد میں کافی کمی لائی گئی۔کیونکہ ملک کورونا وبا کے باعث سخت ترین مالی بحران کا شکار تھا۔ پھر بھی اس مد میں غالباً 630 ارب روپے رکھے گئے تھے۔ 2019-20 کے بجٹ میں حکومت نے فلاحی منصوبوں اور عام آدمی کے فائدے کے لیے کئی شعبوں میں کافی رقوم مختص کردی تھیں جس میں صحت، پینے کا صاف پانی اور غذائیت کے لیے 93 ارب روپے رکھے گئے تھے۔

بلکہ انسانی ترقی کے لیے 50 ارب روپے اور تعلیم کے لیے 45 ارب روپے، وفاق کی جانب سے مختص کیا گیا تھا۔ اسی طرح ہر صوبائی حکومتوں نے بھی ترقیاتی بجٹ کے نام سے کافی رقوم مختص توکردی تھی لیکن تعلیم کے شعبے کی زبوں حالی، اسپتالوں میں بیمار اور تیمارداروں کی ماراماری معلوم نہیں کیسی سڑکیں بناتے ہیں کہ ان میں گڑھے پڑ جاتے ہیں جن کو عارضی طور پر پُر کر لیتے ہیں لیکن جیسے ہی بارش ہوتی ہے سڑک بھی بہہ کر اپنی جگہ سے ادھر ادھر بکھر جاتی ہے۔

اب ایک بار پھر 2021-22 کے بجٹ میں وفاق کی جانب سے 900 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ صوبے بھی اس مد میں رقوم ظاہر کردیں گے تو بتایا جاتا ہے کہ پورے پاکستان میں ہزاروں طرح کے ترقیاتی کاموں، پروجیکٹس اور عوامی فلاح و بہبود کے مختلف شعبوں کے لیے مختص کردہ رقوم کا حجم 21 سو ارب روپے سے زائد کا ہوگا۔

اوپر کا بیان کردہ واقعہ کوئی اٹھارہویں صدی کی بات نہیں ہے۔ 1970کے اوائل کی بات ہے انھی اساتذہ کرام کی طرح ترقیاتی بجٹ جو دراصل ملکی عوام کی فلاح و بہبود، انسانی ترقی، صحت، سڑکیں، پل، تعلیم اور مختلف شعبوں میں پھیلی ہوئی ہزاروں اسکیمز کے لیے ہوتی ہیں۔

اگر اس کو استعمال کرنے والے خرچ کرنے والے، حکومتی ارکان ہوں، وزرا ہوں، مشیر ہوں، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی ہوں، پھر اس سے آگے چل کر ذمے دار محکمے، مختلف کمپنیاں جن کے ٹینڈرز صاف شفاف ہوں پھر ٹھیکہ ملنے کے بعد پروجیکٹ کا میٹریل، اس کی مدت تکمیل، پھر وہاں کام کرنے والے بہت سے بااختیار افراد، اس طرح ان 21 سو ارب روپے کے استعمال کرنے میں ہزاروں نہیں لاکھوں افراد وابستہ ہوجاتے ہیں۔

اگر منصوبہ شروع سے آخر تک صاف و شفاف، رشوت، بدعنوانی، گھپلوں اور دیگر خرابیوں سے پاک کرکے منصوبے مکمل کرلیے جائیں تو وہ دن دور نہیں جب ترقیاتی  کاموں کے لیے زیادہ رقوم مختص کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ جیساکہ ترقیاتی بجٹ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ہر سال اس مد میں اضافہ کیا جاتا ہے۔

اگر رقوم صحیح اور مناسب طریقے سے خرچ کی جائیں تو کوئی منصوبہ نامکمل نہ رہ جائے یا اس کو مکمل کرنے کے لیے مزید رقوم طلب کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے۔ موجودہ حکومت کا قلع قمع کرنے کا ارادہ رکھتے ہوئے ہر دم تبدیلی، تبدیلی کا نعرہ لگاتی ہے۔ اب آیندہ بجٹ میں ترقیاتی بجٹ کے نام پر جو کثیر رقوم رکھی گئی ہیں ان کی نگرانی کے لیے شروع سے لے کر آخر تک کے لیے سخت ترین قوانین بنائے اور جو قوانین نافذ ہیں ان کی سخت ترین جانچ و پڑتال، نگرانی و کنٹرول کرے۔

جیسا بتایا گیا کہ 2018-19 سے لے کر رواں مالی سال تک کتنے ہی کھربوں روپے رکھے گئے تھے لیکن نتیجہ تو یہی سامنے آ رہا ہے کہ ترقیاتی فنڈز کے اہم مقاصد ابھی تک حاصل نہ ہوئے۔ تعلیم کی تباہی، اسپتالوں کی بدانتظامی اور دیگر مسئلے مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں