126

’’دو اہم کتابیں‘‘

زوالفقار احمد چیمہ

اگرچہ اب آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور انھیں چراغِ رخِ زیبا لے کر ڈھونڈنا پڑ تا ہے مگر کوشش کرنے سے سول سروسز میں اِکاّ دکاّ اعلیٰ کردار افراد مل ہی جاتے ہیں۔ حبیب اللہ خٹک صاحب کا شمار ایسے ہی ہیروں میں ہوتا تھا، روپ انسانی مگر سیرت فرشتوں جیسی۔ بنیادی طور پر انجینئر مگر سی ایس ایس کے ذریعے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ میں شامل ہوگئے۔

اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے اور بالآخر فیڈرل سیکریٹری ریٹائر ہوئے۔ میں جب صوبہ خیبر پختونخوا میں تعینات تھا تو وہ وہاں قبائلی علاقوں کے سربراہ یعنی سیکریٹری فاٹا تھے۔ کچھ عرصہ پہلے ان کی کتاب ’آشفتہ بیانی‘ موصول ہوئی تو  اسے دو نشستوں میں ہی ختم کرڈالا۔ یہ کتاب ان کی  ساڑھے تین دہائیوں کی سروس کے تجربات اور مشاہدات کا عکس ہے۔ تحریر کو انتہائی دلچسپ واقعات، متعلقہ قرآنی آیات، احادیث اور اردو اور پشتو کے خوبصورت اشعار سے مزّین کیا گیا ہے۔

ایک جگہ لکھتے ہیں ’’ 1977 میں انقلابِ ثور کے بعد افغانستان سے مہاجرین کی آمد شروع ہوئی اور ساتھ ہی بین الاقوامی اداروں کے نمایندے آنا شروع ہوگئے۔ بنوں کے سرکٹ ہاؤس میںUNICEF, WHO, UNHCR  اور UNDF کے نمایندوں کے ساتھ پاکستان کے متعلقہ افسران کی میٹنگ شروع ہوگئی۔‘‘ بیرونی وفد کے قائد نے پوچھا ،’’آپ کیا سمجھتے ہیںکہ یہ مہاجر کب تک یہاں قیام کریں گے کیونکہ اس کے مطابق ان کی ضروریات کا تعین ہوگا‘‘ مقامی افسروں نے کہا،’’ہم ان کو اخروٹی کہتے ہیں ۔ یہ سردیوں کے موسم میں ہمارے ہاں آتے رہتے ہیں، موسم تبدیل ہوگا تو واپس چلے جائیں گے‘‘ پولیٹیکل ایجنٹ اور سپرنٹنڈنٹ پولیس نے بھی تائید کی۔

سب کے نزدیک تیس ہزار افغانیوں کی بنوں آمد کسی پریشانی کا باعث نہیں تھی۔ امدادی اداروں کے اراکین ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ UNHCRکے نوجوان افسر نے ڈپٹی کمشنر کو مخاطب کیا،’’مسٹر ڈپٹی کمشنر، میں اپنے ادارے کے چند تجربات آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ فلسطینی کیمپ  1948 میں بنے اور اب تک قائم ہیں۔

سینٹرل ایشیا کے ہمسایہ ممالک میں مہاجر آئے مگرکوئی واپس نہیں گیا۔ سترہ سال گزر گئے کانگو خانہ جنگی کے متاثرین ابھی تک کیمپو ں میں ہیں۔ اس بار افغانیوں کی آمد موسمی ہجرت نہیں۔ یہ لوگ آیندہ دس سال میں بھی واپس چلے جائیں تو آپ خوشی کے شادیانے بجائیں، آپ لوگ اگلے دس برس کی ضروریات کا تخمینہ لگائیں‘‘ اور مسٹر سپرنٹنڈنٹ پولیس “Keep a watch on crime”(جرائم پر نظر رکھیں) اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنے والے مقامی افسران اپنے موقف پر قائم رہے اور نشست لاحاصل رہی۔ ڈپٹی کمشنر نے سب کو دعوت دی کہ باہرلگے شامیانے کی طرف چلیں، جہاں ’’ورکنگ برنچ‘‘ کا اہتمام کیا گیا ہے۔

ورکنگ برنچ کے لوازمات ولیمے کی کسی دعوت سے کم نہ تھے۔مصنف کے بقول ’’یہی ایک رودار ہماری پوری افغان پالیسی کی کہانی ہے۔ پستہ قد قیادت کی کوتاہ نظری نے پورے ملک کو بارود کا ڈھیر بنادیا اور شہروں کے شہر مقتل بن گئے‘‘۔

’خواب‘ کے عنوان سے ایک باب میں لکھتے ہیں،’’روایت ہے بنی اسرائیل میں ایک وقت ایسا بھی گزرا کہ جس نے رات کو جو گناہ کیا وہ صبح اس کے ماتھے پر لکھ دیا جاتا تھا۔ خواب دیکھتا ہوں، حکمِ الٰہی ہوتا ہے پاکستان کے سیاستدانوں کی پیشانیوں پر لکھ دیا جائے، کتنی پارٹیوں میں شمولیت کی سعادت حاصل کی۔

اس پر مضطرب ہوجاتا ہوں کہ اس چھوٹی سی پیشانی پر یونینسٹ پارٹی سے لے کر پی ٹی آئی تک تفصیلات کیسے درج ہوںگی؟‘‘ ایک اور جگہ لکھتے ہیں ’’قارون نے حضرت موسی ؑ پر جھوٹا الزام لگایا۔ خدا نے زمین کا اختیار اپنے جلیل القدر نبی کو دے دیا۔ موسیٰ نے حکم دیااور زمین نے قارون کو جکڑ لیا۔ خواب دیکھتا ہوں کہ اس مملکت خداداد میں جو جھوٹا الزام لگائے زمین اس کو وہیں اپنی گرفت میں لے لے۔ پریشان ہوجاتا ہوں کیا ہمارے ٹی وی چینلز، جلسہ گاہیں، اقتدار کے ایوان اور بڑی بڑی عدالتیں زندہ مجسمّوں کے عجائب خانوں میں تبدیل ہوجائیں گی؟‘‘

اپنے ملک کی چند خامیوں پر فلم بنانے اور وطنِ عزیز کے چند Grey areas کو بڑھا چڑھا کر اس کی تشہیر کرنے پر ایک خاتون کو آسکر ایوارڈ دیا گیا، اسی عنوان سے مصنف نے لکھا ہے”  اکتوبر 2005 میں آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا میں قیامت خیز زلزلہ آیا، گاؤں کے گاؤں زمین بوس ہوگئے مگر پورا ملک ان کی مدد کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔Human Trafickingاور Child abuseکی کوئی شکایت نہ آئی۔ لوگوں نے اپنے قیمتی اثاثے متاثرین کی نذر کردیے۔ انھی دنوںامریکا میں Katrinaکا طوفان آیا۔ سالہا سال تک متاثرین دربدر پھرتے رہے۔

اسی طرح روسی مداخلت کے بعد تیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان آئے۔UNHCR تو بعد میں آیا، خیبرپختونخوا کے لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے ان کے لیے پہلے کھول دیے۔ مگر غیر ملکی ٹکڑوں پر پلنے والے دانشوروں کو یہ توفیق نہ ہوسکی کہ اپنے معاشرے کی ان خوبیوں کو اجاگر کرنے کے لیے کوئی فلم بناتے‘‘۔ میں نے اپنی کتاب ’دوٹوک‘ میں ’’پاکستان پر فلمیں بنانے والو!۔۔ موضوعات حاضر ہیں‘‘ کے عنوان سے تفصیلی آٹیکل لکھا ہے اوراس سلسلے میں کئی موضوع بھی تجویز کیے ہیں۔مگر وطنِ عزیز کا خوشنما چہرہ دنیا کو دکھانے سے نہ ڈالر ملتے ہیںاور نہ آسکر ایوارڈ۔

حبیب اللہ خٹک چونکہ خود اﷲ والے ہیں اس لیے دوسروں کی برائیاں چھپاتے اور اچھائیاں اجاگر کرتے ہیںاور وہ بھی ایسے دلپذیر انداز میں کہ تحریر بوجھل نہیں بنتی بلکہ دلچسپی بھی برقرار رہتی ہے اور قاری اس سے سبق بھی حاصل کرتا ہے۔

ماضی میں ایسے بھی پولیٹیکل ایجنٹ رہے ہیں جو پشاور سے جہاز چارٹر کرکے جایا کرتے تھے مگر ایسے بھی افسر رہے ہیں کہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں،ایسے ہی ایک باکردار PAکا انھوں نے کتاب میں بھی ذکر کیا ہے۔ کردار کے غازی کے تحت لکھتے ہیں کہ 1971 میں بھٹوصاحب کی زرعی اصلاحات کے تحت چارسدہ اور مردان کے بڑے بڑے خوانین کی زمینیں کاشتکاروں کے حصے میں آگئیں اور ان کے نام لگ گئیں۔ عبدالعزیز بھی ایک مزارع تھا جو مہمند ایجنسی سے آکر چارسدہ کی تحصیل تنگی میں کاشتکاری کرتا تھا۔

اصلاحات پر عمل ہوا تو پٹواری نے آکر عبدالعزیز کو مبارک دی کہ ’’اب تم خان ہوگئے ہو۔ اب زمین کے مالک تم ہو‘‘۔ چند روز بعد عبدالعزیز اصل مالک کے پاس پہنچ گیا۔ خان نے کہا ’’بہت اچھا ہوا کاکا جی۔ زمین تو حکومت نے لینی ہی تھی، آپ کو مل گئی ہے تو ہمیں خوشی ہے‘‘۔ عبدالعزیز بولا ’’بھٹو کون ہوتا ہے پرائی زمین مجھے دینے والا، اگر اس نے دینی ہے تو لاڑکانہ سے اپنی زمین دے‘‘۔

دونوں میں بحث ہوتی رہی اور دونوں اپنی بات پر قائم رہے۔ عبدالعزیز اس پر زور دیتا رہا کہ زمین آپ کی ہے، میں آپ کے نام کرانے آیا ہوں۔ خان نہ ماناتو عبدالعزیز اپنے کنبے سمیت ’اپنی زمین‘ چھوڑ کر تنگی سے چلا گیا اور اصل خان کو پیغام بھیجا کہ ’’ آپ پر میرا بس نہیں چلتا، اپنے اوپر تو چلتا ہے۔ میں آپ کے پاس خالی ہاتھ آیا تھا، اپنی زمین لے کر نہیں آیا تھا۔ کوئی صدر یا وزیرِاعظم پرائی جائیداد نہیں بخش سکتا۔ آپ کی زمین آپکو مبارک ہو۔‘‘

خٹک صاحب کوسوو میں بھی تعینات رہے ہیں، انھوں نے وہاں کے کئی دلچسپ واقعات بڑے خوبصورت انداز میں تحریر کیے ہیں۔ جو سول سرونٹس اپنی اصلاح چاہتے ہیں اور سینئرز کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں انھیں یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ عام قارئین کے لیے بھی اس میں دلچسپی کا بہت سا مواد موجودہے۔

دوسری زیرِ نظر کتاب ڈاکٹر تراب الحسن سرگانہ کی ’ ُPunjab and war of independence 1857-8‘ ہے جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے چھاپی ہے ۔ ایک دو بار آکسفورڈ والوں نے اس کی رونمائی کا پروگرام بنایا اور مجھے بھی اظہارِ خیال کے لیے کہا گیا مگرکورونا کی وجہ سے وہ تقریبات منعقد نہ ہوسکیں۔ سرگانہ صاحب آجکل بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں پروفیسر ہیں اور یہ کتاب ان کی عرق ریزی اور کئی سالوں کی تحقیق کا ثمر ہے۔ اس میں صوبہ پنجاب کی تاریخ ، اس کے معروف خاندانوں، انگریز حاکموں کے بارے میں ان کے غلامانہ طرزِ عمل اور1857 کی جنگ آزادی میں پنجاب کے جاگیردار خاندانوں کی انگریز افواج کو پہنچائی گئی مدد اور تعاون کا تفصیلی ذکر ہے۔ اسی کتاب کے حوالے سے ملتان، ڈی جی خان، وزیرآباد اور ٹیکسلا کے کچھ معروف خاندانوں کا سوشل میڈیا پر چرچا ہورہا ہے۔

اس لحاظ سے یہ ایک ریفرینس بک کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان خاندانوں کے سپوت اگر آج اپنے بڑوں کی تاریخ پڑھیں تو شرم کے مارے ان کے سر جھک جائیں۔ مگر شاید ایسا نہ ہوکہ وہ اپنے بڑوں کی خدمات کے صلے میں ملنے والی جاگیروں کے باعث ہی سیاست کررہے ہیں اور ہر حکمران کے آگے جھکنے کے لیے تیار رہتے ہیں،ایسی ہی جائیداد کے بل بوتے پر انگریز کے وفادار فوجی حوالدار حیات محمد کا بیٹا سکندر حیات پنجاب کا وزیرِاعلیٰ بن گیا۔ مصنف کے بقول پنجاب کے جاگیردار خاندان تو انگریزوں کے حواری اور امدادی تھے مگر عوام کی ہمدردیاں حر یّت پسندوں کے ساتھ تھیں۔

1857 کی جنگِ آزادی کے دوران پنجاب کے عوام اور جاگیرداروں کے طرزِ عمل کے بارے میں یہ ایک تاریخی دستاویز ہے، جو تاریخ کے طالب ِعلم اور اساتذہ یقینناً بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں