139

تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں

شکیل فاروقی

ممتاز انگریزی شاعر پی۔بی شیلے کی مندرجہ بالا مختصر خوبصورت نظم موسیقی کی سحر انگیزی کی عکاسی کرتی ہے۔ اس تناظر میں ایس۔بی جون کی جادو بھری آواز ہمارے کانوں میں گونج رہی ہے۔ ایس۔بی جون ابھی چند روز قبل اس جہان فانی سے کوچ کرکے ملک عدم روانہ ہوگئے۔ ان کی رحلت سے جو خلا پیدا ہو گیا ہے وہ کبھی پُر نہ ہو سکے گا۔ ان کی وفات سے دنیائے موسیقی سنسان اور ویران ہوگئی ہے اور سُر اداس ہوگئے ہیں۔

ایسے گلوکار روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خوبصورت سریلی آواز اللہ کی عطا کی گئی بہت بڑی نعمت ہے جو ہر ایک کو میسر نہیں ہوتی۔

ایں سادات بزورِ بازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

گانے کا شوق ایس۔بی جون کو بچپن ہی سے تھا۔ موسیقی ان کے خون میں رچی بسی ہوئی تھی جس کا مخزن ان کے دادا جان تھے جو گائیکی کے رسیا تھے۔

ایس بی جون کا پورا نام سنی بنجامن جون (Sunny Benjamin John) تھا لیکن ان کی شہرت ایس۔بی جون کے نام سے ہوئی۔ وہ اکتوبر 1930 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ گانے کا شوق انھیں ریڈیو پاکستان لے گیا جو موسیقی کا گہوارا اور مرکز تھا۔

یہ 1950کا زمانہ تھا جب الیکٹرانک میڈیا کے طور پر ریڈیو کی اجارہ داری اور حکمرانی کا دور تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ریڈیو پاکستان میں کوئی مقام حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ اچھے اچھوں کے پَر جلتے تھے۔ نہ کسی کی سفارش چلتی تھی اور نہ ہی کسی کا زور۔ یہ خالصتاً میرٹ کا دور تھا۔ بقول شاعر:

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ

جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا

چنانچہ ریڈیو پاکستان میں گلوکاری کا آغاز کرنے سے قبل ایس۔بی جون کو آڈیشن یعنی آواز کے کڑے امتحان سے گزرنا پڑا۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ مشہور و معروف گلوکار عالمگیر ریڈیو پاکستان میں آڈیشن کا مرحلہ طے کرنے میں نہیں ہو سکے تھے جس کا اعتراف انھوں نے ایک انٹرویو کے دوران ہنستے مسکراتے ہوئے کیا تھا۔

ریڈیو آرٹس بننا ان دنوں ایک نہایت مشکل کام تھا۔ آپ ذرا غور فرمائیے تو آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ ٹی وی پر چھائے ہوئے بڑے بڑے فنکار ریڈیو پاکستان کے ادارے سے سند یافتہ نظر آئیں گے۔ انتہا تو یہ ہے کہ پی ٹی وی کے سربراہ اور روح رواں اسلم اظہر (مرحوم) خود ریڈیو پاکستان کے سند یافتہ تھے۔ اس کے علاوہ پی ٹی وی کے بیشتر بڑے بڑے فنکار ریڈیو پاکستان کے ہی تربیت یافتہ تھے۔ صحت تلفظ اور لب و لہجے کے اعتبار سے پختہ کار یہ فنکار آپ کو ٹی وی پر بھی نمایاں نظر آئیں گے۔

گلوکار ایس۔بی جون برصغیر کے منفرد گلوکار طلعت محمود سے بہت متاثر تھے۔ انھی کی طرح اگرچہ ایس۔بی جون نے بہت زیادہ نہ گانے کے باوجود اپنی آواز کا جادو جگایا اور خوب نام کمایا۔ فلم ’’سویرا‘‘ کے لیے گائے ہوئے ان کے لافانی نغمے ’’تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں‘‘ نے مقبولیت کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایس۔بی جون شہرت کے بام عروج تک پہنچ گئے۔ ابن انشا کی خوبصورت نظم کل چودھویں کی رات تھی‘ شب بھر رہا چرچا تیرا‘ کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ تیرا کو اپنی آواز سے سجا کر ایس۔بی جون نے چار چاند لگا دیے۔

عظیم گلوکار مہدی حسن نہ صرف ایس۔بی جون کے ہم عصر تھے بلکہ بہترین دوست بھی تھے اور دونوں کی گاڑھی چھنتی تھی۔ دونوں ہی فنکاروں نے دنیا بھر میں وطن عزیز پاکستان کا نام خوب روشن کیا۔ ایس۔بی جون نے کراچی کے مشہور علاقے برنس روڈ پر قائم کلیان سنگیت ودیالے میں موسیقی اور گلوکاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کی جہاں پنڈت رام چندر تری ویدی نے انھیں گلوکاری کے رموز سے آگاہ کیا۔ انھوں نے کراچی کے مشہور سینٹ پالز ہائی اسکول سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔

باپ پر پُوت پِتا پر گھوڑا‘ بہت نہیں پر تھوڑا تھوڑا کی کہاوت کے مصداق ایس۔بی جون کے لائق و فائق بیٹے نہ صرف اپنے والد کے نقش قدم پر چل رہے ہیں بلکہ ان کے نام کو مزید روشن کر رہے ہیں۔ خوش گفتاری اور ملنساری ایس۔بی جون پر ختم تھی۔ ہماری ان کی خاصی دعا سلام تھی۔ وہ جب بھی ریڈیو پاکستان کراچی آتے تھے تو ہم سے ملے بغیر کبھی نہ جاتے تھے۔ ان کے سانحہ ارتحال سے فضا انتہائی سوگوار ہے اور دل پکار پکار کے یہی کہہ رہا ہے کہ:

تُو جو  نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے

یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں