116

زرعی شعبہ آج بھی عدم توجہ کا شکارہے!

رائو منظر حیات

پرکاش سنگھ بادل کی عمرترانوے برس ہے۔ ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے چارمرتبہ وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔1927میں پیداہونے والے پرکاش سنگھ شایدبرصغیرکے سب سے عمررسیدہ سیاستدان ہونگے۔ ایف سی کالج لاہورکے فارغ التحصیل اس شخص نے مشرقی پنجاب کے کاشتکاروں کی قسمت بدل دی۔

سادہ سی زندگی گزارنے والے اس انسان نے کاشتکاروں کے لیے ایک ایسافیصلہ کیاجسکی تمام حکومتی اداروں نے سخت مخالفت کی۔بین الاقوامی ترقیاتی اداروں نے انھیں ایک غیرسنجیدہ حکمران قراردے ڈالا۔یہ فیصلہ کوئی عام سی استطاعت والاحکمران ہرگزنہیں کرسکتا تھا۔ پرکاش سنگھ نے صوبہ میں کسانوں کے زرعی ٹیوب ویلوں کی بجلی تقریباًمفت کردی۔

زرعی شعبوں میں ٹیوب ویل لگانے کے طریقہ کارکوبھی حددرجہ آسان کر ڈالا۔بجلی بنانے والے سرکاری ادارے پنجاب اسٹیٹ پاورکارپوریشن لمیٹڈکوحکم جاری کیاکہ کسانوں کوفصلوں کے لیے پانی دینے والے ٹیوب ویل کی بجلی کاکوئی بل نہیں ہوگا۔اس  محیرالعقول فیصلہ کی ستائش توخیرکافی ہوئی مگرانھیں کڑی تنقیدکانشانہ بھی بنایاگیا۔مرکزی حکومت نے دوتین سال کے بعداس کام پر تنقیدی رپورٹ شایع کی کہ چار پانچ فیصدلوگ اس رعایت کا غلط فائدہ اُٹھارہے ہیں۔ بادل سنگھ نے کہاکہ اگریہ سہولت پچانوے فیصد کسانوں کوفائدہ دے رہی ہے، تو اسے جاری رہنا چاہیے۔

چار پانچ فیصدغلط استعمال سے اکثریت کومفت بجلی کی سہولت سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔بادل سنگھ کے صرف ایک فیصلہ سے کسانوں کو اتناحوصلہ،ہمت اورقوت ملی کہ مشرقی پنجاب میں فصلوں کی پیداوارتین گنابڑھ گئی۔زمین کے کیمیکل تجزیہ کے لیے ہریونین کونسل میں سرکاری لیبارٹریاں کھول دی گئیں۔

کسان کوجوسہولت چاہیے تھی، سرکار نے اسے حقیقت میں ان کی دہلیزتک پہنچادیا۔زرعی انقلاب نے ایک ارب سے زیادہ آبادی والے اس ملک کوگندم اوردیگراجناس میں خودکفیل کر ڈالا۔ مشرقی پنجاب میں کسانوں کی دولت میں بھی بے حساب اضافہ ہوگیا۔ حکومتی اقدام کی کامیابی کے بعداس کی پوری دنیامیں تعریف شروع ہوگئی۔وہ تمام بین الاقوامی اور مقامی ادارے جواس کی بھرپورمخالفت کرتے تھے۔اب اس کے لیے رطب اللسان ہوگئے۔بادل سنگھ،اتناعرصہ وزیر اعلیٰ رہنے کے باوجود آج بھی پنجاب میں اپنے گاؤں بادل میں قیام پذیرہیں۔

پاکستان میں ایوب خان پہلے حکمران تھے جنھوں نے زراعت کے شعبہ کو’’سبزانقلاب‘‘سے روشناس کروایا۔ٹریکٹر،ٹیوب ویل،کیمیکل کھاداوردیگرکام اتنے بہترین تھے کہ پاکستان ایک زرعی سبز انقلاب سے آشنا ہوگیا۔صدرایوب نے جہاں دیگرفیصلے کیے۔وہاں کھاد اوراس سے منسلک اشیاء کی حکومتی کارخانوں میں پیداوار شروع کرواناایک زبردست کام تھا۔این ایف سی یعنی نیشنل فرٹیلائزرکارپوریشن کے زیرِ انتظام، یوریا کھاد بنانے کے متعددپلانٹ لگائے گئے۔ یوریا کھاد کی قیمت اتنی سستی رکھی گئی کہ کسان کوخریدنے میں قطعاً دقت محسوس نہیں ہوتی تھی۔

سوڈیڑھ سوروپے سے شروع ہونے والی یوریاکھادکی بوری ہرکسان کے لیے پورے ملک میں مہیا کی جاتی رہی۔یہ پاکستان کی زراعت کا سنہری دورتھا۔  ہمارے زرعی تحقیقاتی اداروں کی پوری دنیا میں دھوم مچ چکی تھی۔زرعی یونیورسٹی فیصل آباداپنے شعبہ میں دنیاکی بہترین درسگاہوں میں شمارکی جاتی تھی۔یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے غیرملکی طالبعلموں کی قطاریں لگی ہوتی تھیں۔

لالچ،سرکاری خوردبرداورہوس نے پورے ملک جس میں زرعی شعبہ بھی شامل تھا،کولپیٹ میں لے لیا۔ نجکاری کے نام پر ایسا کھیل کھیلاگیاجس سے زرعی شعبہ برباد ہوگیا۔ جہاں جمہوری حکومتیں،بجلی بنانے کے مہنگے ترین معاہدے کررہی تھیں۔وہیں انتہائی خاموشی سے کھاد بنانے والے سرکاری کارخانوں کی بندربانٹ شروع ہوچکی تھی۔ مہنگی ترین زمین پرقائم کارخانے، اپنے دوستوں، یاروں اورقرابت داروں کو اونے پونے بیچنے کی رسم شروع ہوئی۔

یہی معاملہ غیر سول حکومتوں میں بھی رہا۔ چندسرمایہ کارتواتنے کامیاب تھے کہ قیمتی زمین ہونے کی بدولت کھادبنانے کے کارخانے کو خریدا اورپھر اسے ہاؤسنگ کالونی میں تبدیل کردیا۔غیرسیاسی حکومتیں بھی اقرباپروری اوردوست نوازی میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔یوریاکھادکی وہ بوری جوتین سو روپے میں ملتی تھی۔ اب سترہ سوسے اکیس سومیں ملتی ہے۔ کھاد کو اتنا مہنگا کردیاگیاکہ اس شعبہ کی کمرہی ٹوٹ گئی۔زراعت کے شعبے میں کامیاب ترین حکومتی اداروں کومکمل طور پر برباد کرنے کے بعد جعلی مرثیہ گوئی شروع کی گئی جوآج تک جاری ہے۔

سرکاری اداروں کی نجکاری نے ہمارے ملک کے ہرسیکٹرکوبربادکرڈالاہے۔پورے ملک کودس بارہ سیٹھوں کے حوالے کردیاگیااوریہ چلن آج بھی جاری ہے۔ یہاں نہ کبھی احتساب ہواہے اورنہ کبھی ہوگا۔ لاہورسے ٹھیک تیس کلومیٹردورامرتسرمیں،یوریاکی پچاس کلو کی بوری تین سوپچھترروپے میں ہے۔

مگر لاہور، قصور اور دیگر علاقوں میں یہی بوری تقریباًدوہزارکے لگ بھگ ہے۔ اصل معاملہ تمام لوگ جانتے ہیں۔لوگ سارادن بجلی اور چینی بنانے والے سیاستدانوں کے لَتے لیتے ہیں۔ مگر کھادبنانے والے نجی کارخانوں کے مالکان کامنافع دیکھ کرانسان حیران ہوجاتاہے۔ یہ سیٹھ سابقہ حکومتوں کی طرح آج کی حکومت کی مونچھ کے بال ہیں۔

سب سے پہلے کسان کوکیاچاہیے۔ اچھا اور  معیاری بیج۔پورے ملک میں ایک ادارہ نہیں ہے جسکے معیارپرآنکھیں بندکرکے یقین کرلیاجائے۔معیاری بیج کے نہ ہونے کی بدولت،زرعی شعبہ کی بنیادکوہی ٹیڑھا کردیاگیاہے۔پھر انتہائی مہنگی بجلی،مسلسل لوڈشیڈنگ اور قیامت خیزبل،اس شعبے کے لیے صرف اور صرف زہرِ قاتل ہیں۔

زرعی آلات کی قیمتوں میں بے جواز اضافہ اور ان پرکسی قسم کاکوئی سرکاری کنٹرول نہ ہونا، صرف یہ بتاتا ہے کہ حکومت کازرعی شعبہ کی کامیابی سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے ملک میں ٹریکٹراورزرعی آلات ٹھیک کرنے کی معیاری ورکشاپیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بے چارہ کسان،ادنیٰ درجہ کے مستریوں کے ہتھے چڑھا ہوا ہے۔ دیہاتی علاقوں میں جوپٹرول اورڈیزل ملتاہے،اس کے اندر ملاوٹ اتنی زیادہ ہے کہ خدا کی پناہ۔ زرعی مشینری بہت جلد ہی ختم ہونے لگتی ہے۔بیج سے لے کرکھادتک،ہرزرعی عنصر میں ملاوٹ ہے۔کھادکی ملاوٹ کی توخیرجعلی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں۔

سب کومعلوم ہے۔مگرتھوڑے سے پیسے لے کر ہماراسرکاری افسر آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ آڑھتی کے مسائل اوربھی پیچیدہ ہیں۔یہ ایک مکمل نجی بینکنگ نظام ہے۔جسکی مالی حیثیت،سرکاری اورنجی بینکوں سے کہیں زیادہ ہے۔ آڑھتی دراصل زرعی شعبہ کا ’’گاڈفادر‘‘ ہے۔کسان ہر سطح پر اس سے بلیک میل ہوتاہے۔مگرکچھ کر نہیں سکتا۔ اس لیے کہ وقت بے وقت اس کی ہر ضرورت صرف آڑھتی پوری کرتا ہے۔جہاں تک زرعی شعبے کوقرض دینے کا معاملہ ہے۔وہ بھی ایک بھیانک جنگل ہے۔

ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے بادشاہ یعنی پٹواری سے،ایک زمانے میں اپنی ہی ملکیتی زمین کی فرداورپاس بُک بنواناکافی کٹھن کام تھا۔بہت سی مٹھیاں گرم کرنے کے لیے کسان کئی دفتروں میں ایڑیاں رگڑتاتھااورپھرشرح سود۔ صاحب دس سے بارہ فیصد، یا شایداس سے تھوڑی سی زیادہ یامعمولی سی کم۔پھراس قرض کی واپسی میں اگر تاخیر ہوجائے۔ یاقدرتی آفات سے فصل خراب ہوجائے توپھرکسان کے لیے قیامت ہی قیامت ہے۔ سرکاری عمال کاایک لشکرموجودہے،جوگرفتاری سے لے کر ہر طریقہ سے ذلیل کرنے کاقانونی اختیار رکھتا ہے۔ اربوں روپے قرضہ حاصل کرنے والے کاروباری لوگ توخیرواپس کرنے کا تصورکم ہی رکھتے ہیں۔ اگرنہ بھی کریں توانکے تمام قرضے موخرہوجاتے ہیں۔ مگرکسان کے لیے قرضہ، مصیبتوں کاوہ پھنداہے،جس میں سے باعزت نکلنا تقریباً ناممکن ہے۔

اس باربھی بجٹ میں فرمایاگیاہے کہ کسان کی ہر ضرورت پوری کرینگے۔شایدیہ معجزہ برپاہوہی جائے۔ مگرقرائن موجودہ صورتحال میں اَزحدبوجھل ہیں۔ پھر بلاسودقرضوں کاحجم اتناکم ہے کہ وہ چھوٹے سے چھوٹے کسان کی معمولی سی ضرورت بھی پوری نہیں کرتا۔ ہمارے ملک میں کسی پرکاش سنگھ بادل کی سطح کے سیاستدان کاوجودہی نہیں ہے۔جوخودکسان ہو اور مضبوط قوت فیصلہ رکھتاہو۔ہمارے ہاں،کسان اور زرعی شعبہ کے ساتھ یہ مذاق گزشتہ برسوں کی طرح جاری رہیگا۔ شایدبڑھ جائے۔کم ہونے کاتوکوئی سوال ہی نہیں ہے۔ اورہاں،ہمارے ملک میں خانہ جنگی نہ ہونے کی صرف ایک وجہ ہے۔کہ ہمارازرعی شعبہ،تمام ترمشکلات کے باوجود،بائیس کروڑلوگوں کوروٹی مہیا کر رہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں