156

کرپٹ کی خواہش پر انسانیت کی تذلیل

ملک کے ایک معروف ایڈورٹائزر انعام اکبر کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر نظر سے گزری جسے دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ وہ ادارے جو کرپشن کے خلاف کارروائی کا اختیار رکھتے ہیں ان کے اہلکار اس قدر بے مہارہیں کہ کسی کرپٹ کی خواہش پر انسانیت کی تذلیل کرنے کا بیڑا اُٹھا لیتے ہیں اس کے پیچھے ایک اخباری گروپ کے مالک کی سوچ اور عمل کار فرما تھی۔ یہ وہی اخباری اور کاروباری گروپ ہے جس کے خلاف نیب نے 10 ارب روپے کی کرپشن پر کارروائی کا فیصلہ کیا۔ بارگنگ پر 10 کروڑ روپے جمع کروا کر اُن جعل سازوںکو رہا کردیا گیا۔ باقی ماندہ رقم 9 ارب 90 کروڑ روپے تھی جوکہ اس اخباری گروپ کے ذمہ واجب الادا ہے۔ جوکہ ادا نہیں کی جارہی۔ کیا نیب اس کیس پر کوئی کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے یانہیں؟۔کیا نیب اس اخباری گروپ سے خوف ذدہ ہے؟۔ ضرورت اس بات کی ہے اور انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے کے اس کرپٹ ٹولے کے خلاف بھی کارروائی کا آغاز کیا جائے۔ رہاانعام اکبر کا معاملہ تووہ تو مرکزی ملزم ہی نہیںہے سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن اس کہانی کا مرکزی کردار ہے اس فراڈ میں انعام اکبر سمیت دیگر ایڈورٹائزر کو ملوث کرنا زیادتی اور ظلم ہے ۔اس پر اے پی این ایس اور دیگر اخباری تنظیموں کو فوراً نوٹس لینا چاہیے۔ بات ہورہی تھی نیب حوالات کے اندر انعام اکبر کی ویڈیو کی تو چیئرمین نیب کو اس پر بھی فوراً نوٹس لینا ہوگا۔یہ بھی پتہ چلا ہے کہ چیئرمین نیب نے اس ویڈیو کی تیاری اور اسے سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کا سخت نوٹس لے لیا ہے۔اور ایک بااختیار کمیٹی بنا دی گئی ہے۔جو اس امر کی تحقیقات کرے گی کہ اس ڈرامہ کا مرکزی کردار کون ہے اور کس کے اشارے پر یہ گھٹیا عمل کیا گیاہے۔ میں توقع رکھتا ہوں کے چیئرمین نیب اس سلسلہ میں سخت ترین کارروائی کریں گے۔ انعام اکبر ایڈورٹائزنگ کمپنی کی دنیا کا ایک بڑا نام ہے جس نے اس ملک کے اخباری اداروں کو سپورٹ کیا۔ جن کے ذمہ اپنے ملازمین کی چھ چھ ماہ کی تنخواہیں واجب الادا تھیںوہ اخباری مالکان آج ا نعام اکبر کی مہربانی سے ارب پتی بن چکے ہیں۔اخباری انڈسٹری کو اس زیادتی پر اٹھ کھڑے ہونا چاہیے ۔بالخصوص اے پی این ایس اور سی پی این ای کو اس زیادتی پر آواز بلند کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہم چیئرمین نیب سے پھر مطالبہ کرنے کے حق میں ہیں کہ اُن اخباری مالکان کے خلاف فوراً کیس کھولیں جو اربوں روپے کے نادہندہ ہیںاگر ایسا نہ ہوا تو انصاف مشکوک ہو جائے گا ۔اعلیٰ عدلیہ کو بھی اس طرف توجہ دینا ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں