148

سَنَد نہیں چاہیے، یہ عُشاق کاپاکستان ہے!

آپ نے فہم و فراست سے کام لیا نہ ہی اُس کا مظاہرہ کیا، بس مظاہرے میں لگے رہے! راستے رک گئے، لوگ پریشان ہوگئے،کورونا کے مریض جوکہ آکسیجن کے لیے محتاج تھے اور جن کی سانس لینے کی قوت گھٹتی جا رہی تھی ہاں وہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانے بستر پر سسک رہے تھے ، اُن لوگوں پر حملے ہوئے جو لاالہ الا اللہ محمدُالرسول اللہ اور فداک ابی و امی یا رسول اللہ اپنے لبوں پر سجا کر الفاظ کی اس دل نشیں تسبیح کاروزانہ ورد اپنا ایمان سمجھتے تھے…

ہم میں سے کوئی ایسا نہیں کہ جس کے دل میں حدیث پاک کی یہ پاکیزہ سند دل کے نہاں خانے میں براجمان نہ ہوچکی ہو کہ ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والدین، اولاد اور تمام انسانوں سے بڑھ کر عزیز نہ ہوجاؤں‘‘…ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو یہ نہ سوچتا ہوکہ حرف آئے آپ کی ناموس پر سرکار اور دفاع کے لیے امتی کی زبان سے لبیک کا نعرہ تک نہ نکلے؟

ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جواس نظریے پر یقین نہ رکھتا ہو ختم نبوت و ناموس رسالت کی حفاظت ہر مسلمان کی ذمے داری ہے، اِس کا عَلَم تھام لینا ہر عاشق رسول کے اولین فرض کا بنیادی تقاضا ہے، ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو یہ نہ کہتا ہو کہ ناموس رسالت پر ہماری جان قربان…

آپ کی عزت ، حرمت ،مقام ، کلام اور احترام اتنا اولی، بالا، اعلیٰ اور ارفع ہے کہ جس کے آگے بحکم الہی جھکنا گو کہ مقصود ہے تاہم اس کے باوجود ہم جوکہ نعلین پاک کی گرد تک پہنچنے سے قاصر ہیں مقام کو کیونکرسمجھیں کیونکہ مصطفی کیا ہیں یہ مصطفی کا خدا جانے! جب سب ایسا ہی تو پھر ایسوں نے ایسوں کے ساتھ ایسا طریقہ کیوں اختیار کیا ؟ کیوں راستے روک دیے؟ کیونکہ جگہ جگہ مجمع لگا ڈالا!

ارے کاش تم ہجوم بن جاتے تو کم از کم ازکم کسی کے پیچھے پیچھے تو چلتے جیسے بکریاں اپنے گدڑیے کے پیچھے چلتی ہیں ، جیسے اونٹ اپنے مالک کے نقش پا کو منزل کا نشان سمجھتا ہے اور اپنے سموں سے اس پر مہر ثبت کرتا ہے، ہجوم عشاق کے ہوتے ہیں تا کہ درود پڑھ سکیں… دکھ ہے تو یہ کہ اس ماہِ مبارک میں سڑکیں بلاک نہیں ہونی چاہیے تھیں، اس ماہِ اقدس میں معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہیے تھے، اس ماہِ مبارک میں ایسی دل خراش صورتحال پیدا نہیں ہونا چاہیے تھی کہ جس کی وجہ سے آج ہم دل گرفتہ ، پژمردہ ، ویران اور اپنے درد کا اظہار کر بھی نہیں پاتے…

تکلیف اس بات کی بھی ہے کہ اگر یہ تمام باتیں طے کر لی جاتیں بات چیت کے ذریعے…گفتگو کی بنا سے…گفتگو کسے کہتے ہیں؟ مذاکرات و مکالمات کیا ہوتے ہیں؟ قریش مکہ سے زیادہ ظالم تو کوئی بھی نہیں تھا ؟ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ابوجندل کے والد سہیل بن عمرو، جوکہ قریش مکہ کی جانب سے صلح حدیبیہ کی شرائط تحریر کرنے آئے تھے اور زنجیروں میں جکڑا ان کا موحد بیٹا قدمین سرکار سے لپٹ گئے، سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محمد مصطفی ؐ سے عرض کرنے لگے، مجھے مدینہ لے چلیے، مجھے بت پرست باپ سے نجات دلا دیجیے گوکہ ابھی تک شرائط نہیں لکھی گئی تھیں، ابھی قلم نے سیاہی کو چوما بھی نہ تھا اور بے شک سہیل سے بڑھ کرکوئی ظالم بھی نہ تھا…

سیدنا فاروق اعظم تڑپ اٹھے اور بارگاہ ختمی مرتبت میں عرض گذار ہوئے کہ’’ آقا ابو جندل کو ساتھ لے چلیے‘‘ نگاہ ختم نبوت سیدنا عمر پر پڑی اور آپ نے فرمایا ’’اے عمر! میں شرائط کے لیے تیار ہوچکا ہوں اور ابو جندل تم واپس جاؤ ہم تمہیں لینے ضرور آئیں گے، معاہدہ ابھی ہوا نہیں لیکن معاہدہ ہونا ہے اور پھر تاریخ کہتی ہے کہ صحابہ نے تاریخ کا انتظار کیا… مجھے یہ بھی یاد پڑتا ہے کہ ابوسفیان جب تک اسلام نہیں لائے تھے ان سے بڑا اسلام کا مخالف تو کوئی اور نہیں تھا…

مجھے یہ بھی یاد پڑتا ہے کہ عُتبہ ، شیبہ، ولید کے سامنے بات کرنا کہ جن کی اوقات نہیں تھی کہ ان سے بات کی جائے مگر سرکار نے بے اوقات لوگوں سے بھی بات کی! کیا آپ کے آقا ، مولا ، نبی ،آخری نبی ، سچے ، پیارے اورمیٹھے نبی، سوہنے نبی کیا انھوں نے ان سے بات نہیں کی؟… بات کی… صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بات کی،بات سے بات نکلتی ہے لیکن آپ نے تو راستے روک کر راستے ہی بند کردیے۔

اب بھی وقت ہے آج مساجد سے جمعے کے خطبوں میں امن و آشتی اور دھرنوں کے اختتام کا اعلان کیجیے تاکہ مکالمے کا آغاز ہو، آپ بھی عاشق ہم بھی عاشق ، عاشقوں میں کیا پردہ داری؟ نفاق ، افتراق اور سبوتاژ کے پردے پھاڑ دیجیے اور نیا آغازکیجیے، میں آپ کے پاس آنے کے لیے تیار ہوں، میں بھی لبیک یا رسول اللہ ہوں، آپ بھی لبیک یا رسول اللہ ہیں… آج خطبا تاریخ بدل دیں اور رمضان المبارک کے تقدس کو بالائے امم رکھتے ہوئے بسم اللہ کیجیے! مفادات و فسادات کو رد کیجیے، عبادات اور مساوات کا اعلان۔ کیجیے کہ رسول تمہارے بھی ہیں رسول ہمارے بھی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں