165

مدثر اقبال بٹ

نئے پنجاب کا طلوع لاہور پنجاب کا دل ہے۔ اس کی دھڑکن سے ہی پنجاب کا جسم متحرک اور فعال ہوتا ہے۔ ماضی میں بھی ہم نے یہی کچھ دیکھا کہ اس شہر سے اٹھنے والی تبدیلی کی آوازوں سے پاکستان کی فضائیں گونجیں اور تبدیلی نا گزیر ہوئی یہ ذولفقار علی بھٹو کی ایوب خان کے خلاف سیاسی تحریک تھی یا ذولفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک اسی شہر نے سیاسی تبدیلی میں بنیادی اور اہم کردار ادا کیا۔ حلقہ این اے 120 میں نواز شریف کی پانامہ کیس میں عدالت کے فیصلے پر نا اہلی کے باعث ضمنی انتخابات ہوئے نون لیگ کی طرف سے بیگم کلثوم نواز امیدوار بنیں جو خود تو بیماری کے باعث علاج کیلئے بیرون ملک چلی گئیں۔ انتخابی مہم مریم نواز نے چلائی جن کا ہدف عدالت کا فیصلہ تھا۔ اخباری مصدقہ اور غیر مصدقہ خبروں کے مطابق انہیں صوبائی حکومت اور انتظامیہ، نون لیگ کی سیاسی قیادت اور اداروں کی مکمل تائید اور حمایت حاصل رہی۔ مزید یہ کہ نواز شریف کی نا اہلی کے با وجود وفاقی حکومت بھی نون لیگ کی ہی تھی جس کا غیر اعلانیہ تعاون بھی مریم نواز کو حاصل رہا۔ چنانچہ بیگم کلثوم نواز اس حلقہ سے تقریباً پندرہ ہزار ووٹوں سے کامیاب ہو گئیں۔ حلقہ این اے 120 نواز شریف کا موروثی اور آبائی حلقہ قراردیا جاتا ہے وہ اس حلقہ سے کئی مرتبہ کامیاب ہو چکے ہیں۔ 2013 کے انتخابات میں بھی وہ اسی حلقہ سے کامیاب ہوئے تھے جبکہ اُن کے بالمقابل بھی تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد ہی امیدوار تھیں۔ اس دفعہ ضمنی الیکشن میں بھی وہ47 ہزار سے زائد ووٹ لینے میں کامیاب ہوئیں جو بہت بڑی کامیابی ہے۔ کیونکہ ایک تاثر یہ تھا کہ نواز شریف کے اس حلقے میں جسے نواز شریف کا سیاسی قلعہ بھی کہا جاتا تھا اس قلعہ میں نقب لگانا یا پھر اس کی فصیل پر کمند ڈالنا کچھ آسان کام نہیں تھا۔ یہ اُن کی محنت اور سیاسی انتخابی مہم کا ہی نتیجہ ہے کہ کہ وہ جو خود کو ناقابل شکست اور محفوظ سمجھتے تھے اس مہم سے پڑنے والی دراڑوں نے متنبہ کر دیا ہے کہ وہ حلقہ محفوظ ترین سمجھا جاتا تھا وہ ایسے محفوظ نہیں ہے۔ اگلے مرحلے میں یا پھر ایک منظم حملے سے اس قلعے کو فتح کیا جا سکتا ہے۔ بس ذرا منصوبہ بندی اور حکمت سے حملہ آور ہونے کی ضرورت ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ۔۔۔ تبدیلی کی جو فضا قائم ہوئی ہے اُس کے اثرات صرف لاہور میں ہی نہیں پورے پنجاب میں بھی محسوس کئے جا ئیں گے اور اُس کے اثرات 2018 ء کے انتخابات میں واضح نظر آئیں گے۔ وہ پنجاب جو پیپلز پارٹی کی غلط پالیسیوں اور موقع پرستی اور مفاد پرستی پر مبنی سیای حکمت عملیوں کے باعث نواز شریف کی جھولی میں جا گرا تھا یا پھر مارشل لائی سرپرستیوں میں اسے مخصوص مقاصد کے تحت نون لیگ کے حوالے کیا گیا تھا۔ اب وہ نون لیگ اور نواز شریف کی سیاسی حمایت سے دُور ہوگیا ہے۔ اب وہی سیاسی میدان میں ہوگا جس کے پاس عوام کی بہتری اور فلاح کے لئے محض دعوے اور نعرے نہیں باقاعدہ پروگرام اور منشور ہوگا۔ اب پنجاب کے عوام کسی بہکاوے اور فریب میں نہیں آئیں گے۔ حلقہ این اے120 کے ضمنی الیکشن نے عوامی رجحان کی یہ سمت مرتب کر دی ہے۔ اب وہی سیاسی جماعت پنجاب کے عوام کو متحرک کر سکے گی جو عوام کی آواز ہو گی۔ چنانچہ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ لاہور کے اس ضمنی انتخاب نے تمام سیاسی جماعتوں کو گریبان میں جھانکنے،اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر نظر ثانی کا موقع فراہم کیا ہے۔ اگر انہیں سیاسی میدان میں رہنا ہے بلکہ انتخابی عمل میں بھی شریک ہونا ہے تو وہ نئی سیاسی حکمت عملی، پروگرام اور منشور کو ترتیب دیں اور اُسے اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں ورنہ پنجاب کے با شعور عوام بھی انہیں مکھن سے بال کی طرح باہر نکال پھینکیں گے۔ جیسے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کو پھینکا گیا ہے۔ یاد رہے کہ دونوں جماعتیں ایک سو پچیس ہزار کاسٹ ہونے والے ووٹوں میں سے صرف دو ہزار ووٹ حاصل کر سکی ہیں۔ یہ تازیانہ عبرت بھی ہے اور مکافات عمل بھی۔ کیونکہ سیاسی جماعتیں وہی موجود رہتی ہیں جو عوام کی خواہشوں اور تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔ بہر حال دوستو۔۔ اس ضمنی الیکشن میں ہمیں تو اس بات میں کوئی شبہ نظر نہیں آتا کہ ایک نیا پنجاب طلوع ہو چکا ہے۔ عوام کے شعور نے ثابت کر دیا ہے کہ اب نہ تو پرانی سیاست چلے گی اور نہ ہی گِھسے پٹے مُہرے انتخابی عمل میں اپنی اہمیت ثابت کر سکیں گے۔ نئے چراغ اور نئی کرنیں ہی اندھیروں میں الجھے ہوئے سیاسی عمل میں اپنا مقام اور اہمیت بنائیں گے۔ یہ نئی دنیا ہے اور اس میں نئی خیالات ہی عوام کو متاثر کریں گے۔ حج کی سعادت حاصل کرنے کہ بعد واپسی پر جو کچھ دیکھا ہے وہ تو یہی کچھ ہے جو پیش خدمت ہے آئیندہ جو کچھ ہو گا وہ پھر سہی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں