151

ایمنسٹی انٹرنیشنل : امید کا جگنو

غالب نے کہا تھا ’’ آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں‘‘ لیکن ایک برطانوی قانون دان پیٹر بینی سن تھا جسے زمین کی گہرائیوں میں ایک خیال آیا اور وہ دنیا کے لاکھوں انسانوں کے لیے امید کا جگنو بن گیا۔

پیٹر اپنے معمول کے مطابق انڈرگراؤنڈ میں سفر کر رہا تھا۔ لاکھوں لوگ روزانہ ٹیوب میں سفرکرتے ہیں اور اپنی اپنی پسند کے اخبار بھی پڑھتے ہیں لیکن اس روز زمین کی گہرائیوں میں سفرکرتے ہوئے پیٹر بینی سن کی نگاہوں سے ان 3 نوجوانوں کی خبر گزری جنھوں نے پرتگال کے کسی بار میں آزادی کا جامِ صحت پیا تھا۔

نوجوان اسی نوعیت کے بہت سے کام کرتے ہیں لیکن سالا زار کی مطلق العنان حکومت اس نوعیت کے کسی انحراف کو  برداشت نہیں کرسکتی تھی، وہ تینوں گرفتار کیے گئے اور انھیں 7 برس کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا۔

یہ خبر پڑھتے ہی بینی سن کے رونگٹے کھڑے ہوئے۔ وہ روزانہ ہی ایسی خبریں پڑھتا تھا لیکن نومبر1960 میں پرتگال سے آنے والی اس خبرکو پڑھ کر اس کا دم گھٹنے لگا۔ ان نوجوانوں کی زندگی کے سات برس صرف اس لیے کال کوٹھری میں گزریں گے کہ انھوں نے آزادی کا جام صحت پیا تھا۔ وہ چند گھونٹ جو ان کے حلق سے اترے ، وہ ان کے  لیے سزا کا پروانہ بن گئے تھے۔

اس نے انگلستان کے ایک موقر اخبار ’’دی آبزرور‘‘ میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ’’ قیدی جو بھلا دیے گئے‘‘ اس مضمون نے دانشوروں، صحافیوں اور ادیبوں کے ایک بڑے حلقے کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہیں سے قیدیوں ، ان کو دی جانیو الی اذیتوں اور ان کی گمشدگیوں کے بارے میں وہ تحریک شروع ہوئی جو چند مہینوں کے اندر ’’ ایمنسٹی انٹرنیشنل‘‘ کا نام اختیارکرگئی اور آج دنیا میں اس کے ستر لاکھ سے زیادہ اراکین ہیں۔ سیاسی ، مذہبی یا کسی بھی بنیاد پر حکومت وقت سے اختلاف کرنے کی جرات کرنے والوں کا  مقدمہ ایمنسٹی نے ہر ہر قدم پر لڑا۔ اس میں مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔

اپنے قیام کی ابتدا سے ایمنسٹی بعض معاملات کے بارے میں متنازعہ رہی ہے، اس کے باوجود اس نے اپنے اغراض و مقاصد سے انحراف نہ کیا اور وہ اپنا دائرہ کار پھیلاتی چلی گئی۔ اس نے ’’ ضمیر کے قیدی ‘‘ کی اصطلاح وضع کی اور ان کی رہائی کے لیے مہم چلائی۔ پاکستان سے جام ساقی ، کمال وارثی اور کئی دوسرے اس فہرست میں شامل تھے۔ علاقائی جنگوں نے افغانستان، شام ، عراق ، میانمار اور بعض دوسرے جنگ زدہ علاقوں سے جائے پناہ ڈھونڈنے والوں کے لیے ایمنسٹی نے اپنی بساط بھرکام کیا۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں عورتوں پر دائرہ حیات تنگ ہوا تو ایمنسٹی نے اس حوالے سے بھی کام کیا۔

بہت پرانی بات ہے جب ایمنسٹی انٹرنیشنل کے صدر شاں مک برائیڈ کو نوبیل امن انعام دیا گیا تھا۔ یہ انسانی حقوق کی سربلندی کے لیے ان کے ہمہ جہت کام کے اعتراف میں دیا گیا تھا۔ انھوںنے اوسلو میں جو خطبہ دیا تھا ، وہ بہت طویل تھا ، اس میں انہو ں نے امن  اور انسانوں کے لیے تخفیف اسلحہ سے لے کر تمام ان معاملات پر گفتگو کی تھی جو دنیا میں رہنے والوں کے لیے زندگی کو سہل بنا سکیں۔ اپنے اس خطبے میں انھوں نے بہ طور خاص عورتوں کے حوالے سے کہا تھا ۔

جس طرح ترکِ اسلحہ جات سے متعلق سوالات عسکری ماہرین کے لیے اور ان کے لیے چھوڑ دیے جاتے ہیں جن کے اسلحہ بندی سے وابستہ مفادات ہوتے ہیں۔ عام طور پر اس موضوع کے سوالات کے جوابات کو بھی عورتوں ہی کا استحقاق گردان کر ان کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے سوائے ’الوامرڈال‘ (Alva Myrdal) کے باعزت استثنیٰ کے، عورتوں کو اسی طرح ترکِ اسلحہ جات سے مستثنیٰ رکھا جاتا ہے جیسے دوسرے اہم سرکاری عہدوں سے۔ اس کے باوجود کہ وہ ان کے بچے ہی ہوں گے، جنگ جن کے گھروں کو تاراج کرے گی۔

میں نے اپنی زندگی  میں دیکھا کہ عورتوں میں امن کے امورکی زیادہ اچھی سمجھ ہوتی ہے اور وہ آسانی سے ماہرین اور سفارتکاروں کے نمائشی دلائل سے ’’ مرعوب ‘‘ نہیں ہوتیں۔ ان کو ترکِ اسلحہ جات کے تمام مذاکرات اور کانفرنسوں میں حقیقی طور پر فیصلہ کن کردار دیا جانا چاہیے۔ یقیناً امن اور جنگ دونوں، اتنے ہی عورتوں کے مسائل بھی ہیں جتنے کہ مردوں کے، بلکہ شاید کچھ زیادہ ہی۔

امن اور انسانی حقوق کے درمیان بنیادی رشتوں کی صحیح معنوں میں اب شناخت ہوئی ہے۔ان ڈھانچوںکی،جو لوگوں کو انسانی حقوق، احترام اور انصاف سے محروم رکھتے ہیں، اب شناخت ہورہی ہے اور وہ نظام جو لوگوں کو فاقہ کشی یا غیر انسانی حالات کے غاروں میں دھکیل دیتے ہیں، انسانی حقوق اور انسانی وقار دونوں سے انکارکے مترادف ہے۔ یہی وہ حالات ہیں جو لوگوں کو زبردستی کرنے پر مجبورکردیتے ہیں۔ اسی لیے عالمی اعلان برائے انسانی حقوق میں مشتہر کیا گیا ہے کہ ’’ضروری ہے کہ اگر ، آخری حربے کے طور پر ، انسان کے لیے اگرکوئی اور راستہ نہیں، سوائے ظلم اور جبر کے خلاف بغاوت کے ، تو انسانی حقوق کا قانون کے ذریعے بچاؤ کیا جانا چاہیے۔‘‘

اس اعتراف نے کہ انسانی حقوق کی پامالی بھی جنگ کے وجوہ میں سے ہے ، 10 دسمبر 1948کو قوموں نے عالمی اعلان برائے انسانی حقوق کو جاری کرنا منظور کیا۔ یہ وہ تاریخی دستاویز تھی بھی اور اب بھی ہے، جس کوتاریخ میں پہلی بار بنی نوع انسان نے اختیار کیا تھا۔ اس کو تمام اسکولوں میں نصاب کے طور پر پڑھایا جاناچاہیے، تمام پارلیمانوںمیں اس کی نمائش ہونی چاہیے۔

ایمنسٹی نے 60 برس سے اپنا کردار ادا کیا ہے اور ان لوگوں کے لیے بڑا سہارا بنی ہے جو اپنے ملکوں میں آزادی اظہار اور آزادی افکارکی لڑائی لڑرہے ہیں اور اس کی شدید سزائیں بھگت رہے ہیں۔ ان میں سے بہتوں کو ایمنسٹی ’’ضمیر کا قیدی‘‘ قرار دے چکی ہے، لیکن حکومتوں کو اختلاف رائے کچلنے میں لطف آتا ہے۔

ایمنسٹی کی طرف سے ہر سال حقوقِ انسانی کی عالمی رپورٹ شایع کی جاتی ہے۔ اس مرتبہ جو رپورٹ سامنے آئی ہے اس میں یہ بات واضح طور پر کہی گئی ہے کہ کئی ملکوں کی حکومتوں نے کورونا 19 کے نام پر متعدد انسانی حقوق غصب کیے ہیں۔

407صفحوں کی اس رپورٹ میں امریکا اور ہندوستان کو بہ طور خاص تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار میں ایک ہزار شہریوں کو پولیس نے ہلاک کیا۔ جن میں افریقن، امریکن لوگوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اسی طرح ہندوستان میں مودی حکومت پر بھی تنقید کی گئی جس نے اقلیتوں بہ طور خاص مسلمانوں کو اپنے غضب کا نشانہ بنایا۔  ہندوستان میں الہ آباد ہائی کورٹ کے 16ججوں نے مسلمانوں کے خلاف مقدمات میں سے بیشتر کو رہا کردیا اور یہ کہا کہ ان کے خلاف ایف آئی آر کاٹتے ہوئے دماغ استعمال نہیں کیا گیا اور ان میں سے بیشتر ایک دوسرے کا چربہ تھیں۔

ایمنسٹی کی تازہ ترین رپورٹ دنیا کے مختلف ملکوں میں حقوق انسانی کی صورتحال کے بارے میں ایک مایوس کن تصویر پیش کرتی ہے ایک طرف ایمنسٹی ہے جو اپنے 6 بنیادی اصولوں پر اٹل ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ :

٭ عورتوں،بچوں، اقلیتوں اور بچھڑے ہوئے لوگوں کے حقوق کی حفاظت اس کی ذمے داری ہے۔

٭ گرفتار کیے جانے والوں کو اذیت دینے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔

٭سزائے موت کے بارے میں اس کے تحفظات ہیں۔

٭ پناہ گزینوں کے حقوق کا تحفظ۔

٭ ضمیر کے قیدیوں کے حقوق کا تحفظ۔

٭  انسانی عزت اور وقار کا تحفظ۔

یہ وہ بنیادی نکات ہیں جن پر ایمنسٹی کام کررہی ہے۔ اس کے بعض اقدامات سے کچھ لوگوں کو اختلاف ہوسکتا ہے ، اس کے باوجود اس کا کام مظلوموں اور قیدو بند کی سزا بھگتنے والوں اور ان کے رشتہ داروں کے لیے واقعی امید کا جگنو ہے جس سے انھیں کچھ آسرا ملتا ہے۔

ہم امید کرسکتے ہیں کہ ایمنسٹی کی اگلے برس کی رپورٹ اتنی پریشان کن نہیں ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں