157

شفیق کھوکھر

نا مور فلاسفر،استاد،صحافی،شاعراورادیب ڈاکٹر وحید عشرت جن کے افکار ملک کو موجودہ بحران سے نکال سکتے ہیں کی ۷۴ ویں سالگرہ ۱۱ فروری ۲۰۱۸ء کو منائی جائے گی۔ ڈاکٹر وحید عشرت اور خواجہ صادق مرحوم کے افکار کی روشنی میں ترتیب دیئے گئے نظام تعلیم میں ہی ملک و قوم کی فلاح ہے۔ تحریر :پروفیسرحکیم شفیق کھوکھر اس وقت ہمارا ملک جس سیاسی ،سماجی اور بین الاقوامی بحران کا شکار ہے اسکا آسان حل یہی ہے کہ ہم سب مل کر اپنے ملک کے داخلی اور خارجی مسائل کو قرآن مجید ،فرمان مصطفیٰﷺاور مفکر پاکستان پروفیسر خواجہ غلام صادق مرحوم اور ڈاکٹر وحید عشرت مرحوم و مغفور کے افکار کی روشنی میں حل کرنے کی صورت پیدا کریں۔ ان دنوں یہ صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ ہمارے حکمرانوں پر بد دیانتی او ر چوری کے الزامات عائد ہو رہے ہیں ۔انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرنے والے ملکی خدمت کرنے کی بجائے اپنی پوزیشن واضح کرنے پر مجبور ہیں ۔عدلیہ کا احترام کرنے کی بجائے اس پر الزامات عائد کئے اور دھمکیوں سے کام چلایا جا رہا ہے۔ اپوزیشن رہنماء بھی وعدہ خلافی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ سب کو اپنی اپنی فکر ہے ملک کی فکر کسی کو نہیں ۔ملک کا نظام تعلیم ہمارے قومی مقاصد کی بجائے غیر ملکی اقوام کے افکار کے فروغ کا باعث بن رہا ہے۔حالانکہ ڈاکٹر وحید عشرت اور ان کے فکری استاد خواجہ غلام صادق نے اس سلسلے میں اپنے مضامین میں بڑے واضح اصول متعین کئے ہیں۔ ڈاکٹر وحید عشرت مرحوم نے علامہ اقبال ؒ کے کلام کا گہری نظر سے مطالعہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس ملک کی ترقی اور بقا ء صرف اور صرف اس ملک میں قرآن مجید،فرمان مصطفیٰﷺ کے فرمان اور علامہ اقبال ؒ کے پیغام پر عمل کرنے میں ہے ۔انہوں نے اپنی زندگی اسی مقصد کی تکمیل میں گزار دی۔وہ مصلحت کوشی کی بجائے حق گوئی کے قائل تھے ملک میں جمہوریت کی بحالی اور بقاء کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے۔ جب اصغر خان مرحوم نے بھٹو دور میں جمہوریت کے حق میں لاہور میں مال روڈ پر جلوس نکالا تو ڈاکٹروحید عشرت بھی خواجہ رفیق شہید کے ساتھ جلوس کے قائدین میں شامل تھے۔ ڈاکٹر وحید عشرت ۱۱ فروری ۱۹۴۴ء کو نارووال ( اس وقت ضلع سیالکوٹ) میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی ۔ ۱۹۵۶ء میں اپنے والدین کے ساتھ لاہور آگئے اور این ڈی اسلامیہ ہائی سکول اچھرہ میں داخل ہو کر تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔وہاں سے مڈل کرنے کے بعد اسلامیہ ہائی سکول ملتان روڈ لاہور سے میٹرک کا امتحان پاس کرکے پنجابی فاضل کیاپھر ملازمت کا سلسلہ شروع کیا ۔ کچھ عرصہ پاکستان ریلوے میں ،اور کچھ عرصہ ترجمان القرآن لاہور میں کام کیا ۔اس دوران ان کا تعلق مولانا امین احسن اصلاحی سے بھی قائم ہوا اور وہ ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے۔ بعد میں پھرپاکستان ریلوے میں ٹکٹ کلکٹر ہو کر لاہور۔ نارووال قصور،سانگلہ ہل، اور شیخو پورہ میں خدمات انجام دیں ۔ اسی دوران انھیں سلسلہ تعلیم دوبارہ شروع کرنے کا خیال آیا ۔ اس پر انھوں نے قصور سے شیخوپورہ تبادلہ ہونے پر وہاں گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے کر تعلیم کا آغاز کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ۱۹۶۵ء میں جب ان کا تبادلہ قصور سے شیخوپورہ ہوا تو اس کے چند دن بعد پاک بھارت جنگ لگ گئی اور ان کی جگہ قصور آنے والا جوان ڈیوٹی دیتے ہوئے شہید ہوگیا۔ شیخوپورہ میں اپنے قیام کے دوران انھوں نے اپنی سرکاری ڈیوٹی جو رات کی تھی ،کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ شہر کی علمی و ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ شیخوپورہ سے شائع ہونے والے ہفتہ وار ’’انتخاب‘‘ جو صالع ظافر صاحب کے والد محترم امین گیلانی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا ۔ میں کالم نویسی شروع کی۔بعد میں یہ سلسلہ دوسرے اخبارات تک پھیل گیا۔شیخوپورہ کے نامور طالب علم راہنماء ان کے شاگرد تھے۔خود میں نے بھی ان کی راہنمائی میں انٹر کالجئیٹ تقریری مقابلوں میں حصہ لے کر انعامات حاصل کئے اور اپنے کالج کے بہترین مقرر کا اعزاز حاصل کیا ۔اسی دوران ان کی دوستی علم دوست سکالر سید معراج نئیر سے ہوئی جو آخر تک قائم رہی۔ گورنمنٹ کالج شیخوپورہ میں انہوں نے کالج میگزین’’ افق نو ‘‘کی ادارت بھی کی اور کالج کی دوسری ہم نصابی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیا۔ کالج کے دواساتذہ پروفیسر شاہد حسین زیدی اور پروفیسر مرزا ریاض نے ان کی فلسفہ اور عمرانیات میں دلچسپی لینے پر ان کی بھر پور راہنمائی کی اور انھوں نے فلسفہ میں بی۔اے کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایم ۔اے فلسفہ میں داخلہ لے لیا ۔اس دوران ان کا پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے سرکردہ راہنماؤں سے بھی رابطہ ہوا اور ان کے مشوروں نے انھیں کافی مقبول بنا دیا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سرکاری ملازمت کی وجہ سے خود ان سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتے تھے،اور نائب صدر کے امیدوار ان کے خاص دوست سید تنویر عباس تابش تھے۔ ایم ۔ اے فلسفہ کرنے کے دوران انہوں نے ’’ابن سیناء کا تصور ہستی‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھا جسے ان کے استاد اور شعبہ فلسفہ کے چئیر مین پروفیسیر خواجہ غلام صادق نے بہت پسند کیا اور انہیں پی ۔ ایچ۔ڈی کرنے کا مشورہ دیا،اور یونیورسٹی کے شعبہ ریسرچ میں بطور ریسرچ سکالر ملازمت بھی دلوادی۔اور انہوں نے خلیفہ عبدالحکیم کے عمرانی فلسفہ ‘‘ کے موضوع پر پی۔ایچ ۔ڈی کے لئے تحقیقی کام کا آغاز کر دیا۔ اسی دوران انہوں نے لاہور کی علمی ،ادبی، سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔پاکستان نیشنل سینٹر میں مختلف موضوعات پر خطاب بھی کیا اور اخبارات میں مضامین بھی لکھے۔علامہ اقبال ٹاؤن لاہور کے دائرہ مصنفین میں ان کے مضامین پسند کئے جانے لگے ۔ ۱۹۷۵ء اور ۱۹۷۶ء اور اسکے بعد پاکستان فلاسیفکل کانگریس کے مذاکروں میں بھی شرکت کرتے رہے۔ اور ’’ اسلام میں اصول حرکت فکر اقبال کی روشنی میں کے موضوع پر مقالہ بھی پیش کیا۔ اگر اس مقالے کو رہنماء بنا کر کام کیا جائے تو ہم موجودہ مسائل سے نکل سکتے ہیں۔ پی۔ایچ۔ ڈی کے مقالے کی تکمیل کے بعد انھیں عطائے ڈگری میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا جس پر انھوں نے بد دل ہونے کی بجائے صحافت کو بطور پیشہ اختیار کر لیا اور روزنامہ صداقت۔اس کے بعد روزنامہ نوائے وقت لاہور میں کام شروع کردیا جہاں انہوں نے عطاء الحق قاسمی اور ضیاء شاہد کے ساتھ ادبی ایڈیشن اور میگزین میں کام کیا ۔اس دوران ان کے مضامین بہت پسند کئے گئے ۔علامہ اقبال ؒ پر ان کے مضامین کی اشاعت کے بعد انہیں اقبال اکیڈمی میں ملازمت مل گئی جہاں سے وہ ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوکر اورئینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں اقبالیت کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دینے لگے ۔ اپنی وفات کے روز بھی وہ اپنی تدریسی خدمات انجام دے کر گھر جا رہے تھے کہ گھر کے قریب بس سٹاپ پر انھیں دل کا دورہ پڑا انہوں نے اپنے بیٹے یوسف وحید کو بلایا مگر اس کے آنے سے قبل ہی ان کی طبعیت بگڑ گئی اور انھیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ ڈاکٹر وحید عشرت کی وفات سے جہاں ان کے خاندان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے وہاں ملک وملت بھی ایک عظیم مفکر،مدبر، عالم، شاعر اور ادیب سے محروم ہو گئی ہے۔ان کی ذات کا شمار ایسے مدبروں میں ہوتا ہے جو مشکل حالات میں قوموں کی راہنمائی کرتے ہیں۔ وہ قوموں کو مشکلات سے نکال کر ترقی و کامرانی کی شاہراہ پر ڈال دیتے ہیں ۔ وہ ایک سچے پاکستانی ،قائد اعظمؒ کے سچے سپاہی اور علامہ اقبالؒ کے مداح تھے۔وہ نبی کریمﷺ، پاکستان، قائد اعظم اور علامہ اقبال کی شان میں کسی قسم کی گستاخی برداشت نہیں کرتے تھے خواہ کوئی بھی کرے۔ بچپن میں انہوں نے قائد اعظم کی شان میں گستاخی کرنے والی ہندو عورت پر برچھی تان لی تھی۔ جس سے نارووال کی ہندو برادری میں مسلمانوں کا خوف پھیل گیا تھا اور وہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز باتیں کرنے سے گریز کرنے لگے تھے۔انہوں نے فکر اقبالؒ کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔اس کے علاوہ مولانا مودودیؒ اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی سرپرستی میں اسلامی شعائر کا گہرا مطالعہ کیا تھا،اس سے ان کو اسلامی شعائر اور بزرگان دین سے گہری وابستگی پیدا ہوئی تھی۔وہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے سچے عاشق اور مداح تھے۔وہ اس ملک میں اسلامی فلاہی اور جمہوری حکومت کا قیام چاہتے تھے ۔سیاسی جدوجہد میں وہ خواجہ رفیق،شہید، ائر مارشل اصٖغر خان مرحوم اور نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کے مداح تھے ۔جب خواجہ رفیق کو شہید کیا گیا اس جلوس میں وہ ان کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے قیام کے سلسلے میں بھی کافی مفید مشورے دئے تھے۔ ڈاکٹر وحید عشرت مصلحت کوشی کے قائل نہ تھے۔جب بھی ملک و قوم کی سلامتی ، اسلام کی حقانیاور ملت اسلامیہ کی عزت وتوقیر کا معاملہ ہوتا تو وہ بڑی جراء ت سے اظہار خیال کرتے تھے۔ آج ملک جس فکر زبوں حالی کا شکار ہے،حکومت اور اپوزیشن جس طرح دست و گریباں ہیں اور عوام جس طرح بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں ان کی فکری راہنمائی کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈاکٹر وحید عشرت اور ان کے استاد محترم پروفیسر خواجہ غلام صادق کے افکار کی روشنی میں ملک کا سیاسی اور تعلیمی ڈھانچہ از سر نو مرتب کیا جائے اور پاکستان کو ایک اسلامی ،فلاہی اور جمہوری ریاست بنایا جائے جہاں حکمران دولت کمانے کی بجائے خدمت خلق کے رسیا ء نظر آئیں ۔اور عوام مہنگائی اور قرضوں کے بوجھ تلے پسنے کی بجائے سکھ کا سانس لیتے نظر آئیں اور ہم کہ سکیں کہ ہم دنیا کے غلام نہیں بلکہ نبی کریم ﷺ کے پیرو کار کی حیثیت سے دنیا کے قائد ہیں ۔ہمارے سیاست دان انتخابی نتائج کو مسترد کرکے ہنگامہ آرائی کرنے کی بجائے اپنی اصلاح اور اگلے انتخابات میں زیادہ بہتر انداز میں شامل ہونے کا طریقہ اپنائیں جیسا کہ ماضی میں نوابزادہ غنضنفر علی گل اختیار کر کے کامیابی حاصل کرچکے ہیں ۔ ڈاکٹر وحید عشرت شاعر بھی تھے ۔ ان کے والد ٹھیکیدار بشیر احمدبھی شاعر تھے۔ ان کے بڑے بھائی سعید ساحلی شاعر بھی تھے اور ادیب بھی وہ اردو اور پنجابی کی کامیاب فلموں کے مصنف تھے ۔ان کے چھوٹے بھائی محمد طارق ساحلی بھی ادیب اور ڈراموں اور فلموں کے مصنف کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ۔ آخر میں میں ڈاکٹر وحید عشرت کے چند اشعار نزر قارئین کرتا ہوں ۔ ؂ یہ رات بھیانک رات سہی یہ رات تاریک رات سہی اس رات کے سینے سے پیدا ک صبح درخشاں کرنا ہے ؂ ایے دوست زمانے روتے ہیں تب کہیں ہم ہوتے ہیں جب ہم کہیں نہیں ہوتے ہیں تو صدیوں زمانے روتے ہیں اور میں ان کے بارے میں اتنی گزارش کروں گا۔ ؂ دنیا ہزاروں سال تک کرتی رہے گی یاد ہوتے ہیں ایسے لوگ بڑی آرزو کے بعد پروفیسر حکیم شفیق کھوکھر ۱۶۶ ستلج بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں