128

سیاست نہیں معیشت؟

اوڈلف ہٹلرتاریخ کاایک محیرالعقول کردار ہے۔ وقت کاسب سے زیادہ نفرت زدہ انسان۔دوسری جنگِ عظیم نے پوری دنیاکی سرحدوں کوتبدیل کرڈالا۔ ہمارے جیسے نئے ممالک وجودمیں آنے کاجوازبھی جنگ کے نتائج کی بناپرہوا۔ہٹلرنے پورے یورپ کوروندکررکھ ڈالا۔جرمنی نے صرف یورپ میں پولینڈ، ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ، گریس،یوگوسلاویہ اورفرانس پرقبضہ کر لیا۔

یہ بات بھی درست ہے کہ یورپ،دوسری جنگِ عظیم سے پہلے بھی حددرجہ اندرونی خلفشار کا شکار تھا۔ریاستوں کی باہمی جنگیں،رقابتیں اوربدامنی عروج پرتھی۔ہٹلرنے تمام یورپین ریاستوں کوایساسبق سکھایا جو شائدپہلے ممکن نہ تھا۔فرانس کے دو صوبے LorvaineاورAlsace 1870,سے جرمنی کے قبضہ میں تھے۔ 1940 میں جرمن افواج کاطاقت کے بَل بوتے پرفرانس پر قبضہ اسی تاریخی کج روی کاایک عملی مظاہرہ تھا۔ہٹلر دوسری جنگِ عظیم میں بری طرح ہارگیا۔مگردنیاکوتبدیل کرگیا۔

یہ سب کچھ سکہ کاصرف ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ ایسا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔جرمنی،فرانس اوردیگر یورپین ممالک نے تاریخی بربادی کے بعدایک ایسا نایاب فیصلہ کیاجس سے ترقی کے دروازے ان پر کھل گئے۔مسلسل مارکٹائی اورجنگ وجدل کے بعد ان ممالک نے آپس میں تجارت شروع کردی۔یورپین یونین بننے کے بعدتوخیراب یہ دنیاکاسب سے بڑااور منظم اقتصادی بلاک بن چکاہے۔ صرف جرمنی اورفرانس کی باہمی تجارت سیکڑوں بلین ڈالرکے لگ بھگ ہے۔جہازوں سے لے کردوائیاں اور گاڑیوں سے لے کربڑی مشینوں تک، ہر چیزمیں ایک دوسرے پرتجارتی انحصارہے۔

دونوں اقوام کے درمیان تاریخی رقابت آج بھی پسِ منظرمیں موجود ہے۔ دونوں ممالک کے شہری ایک دوسرے سے تجارت ضرور کر رہے ہیں مگراپنے قومی مفادات پر بھرپور پہرا بھی دے رہے ہیں۔ فرانس اورجرمنی باہمی امن کی اہمیت کو جان چکے ہیں۔

پاکستان اورہندوستان ایک ہی طرح کے سیاسی حالات میں معرضِ وجودمیں آئے۔ پہلے دن سے ہندوستان نے ہمارے ملک کے وجودکودل سے تسلیم نہیں کیا۔کانگریس کے صفِ اول کے سیاستدان ہر وقت کہتے رہتے تھے کہ بٹوارہ حددرجہ غیرفطری ہے اور قلیل مدت میں پاکستان ختم ہوکردوبارہ ہندوستان سے مل جائے گا۔یہی کیفیت مقامی لوگوں کی بھی تھی۔ایک دوسرے کے علاقوں میں ہجرت کرنے والے لوگ مقامی لوگوں کوکہاکرتے تھے کہ بس تھوڑے عرصے کی بات ہے واپس آکراپنی جائیدادکوسنبھال لیں گے۔ بھارت کی حکومتی سطح پرپاکستان کے لیے ہرطرح کی مشکلات کھڑی کی گئیں۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

دونوں ممالک کی اعلیٰ ترین سیاسی قیادت،شروع ہی سے ایک دوسرے سے رابطے میں رہتی رہی ہے۔ 1953 میں ہندوستانی وزیراعظم،جواہرلال نہروسرکاری دورے پر پاکستان آئے تھے۔بالکل اسی طرح 1955 میں، انڈین ریپبلک ڈے پریڈ پرمہمانِ خصوصی پاکستان کے گورنرجنرل غلام محمد تھے۔

1960میں جواہرلال نہرو، انڈس بیسن معائدے پردستخط کرنے کے لیے خود آئے تھے۔کراچی کے علاوہ،لاہور،نتھیاگلی اورمری میں بھی قیام پذیر رہے۔راجیوگاندھی،اَٹل بہاری واجپائی اور نریندرمودی،یہ تمام وزراء اعظم سرکاری سطح پرپاکستان آتے رہے ہیں۔جنرل پرویزمشرف بطور صدر پاکستان 2001میں آگرہ گئے تھے اوردوبارہ 2005 میں دہلی کا دورہ کیا تھا۔جنرل پرویزمشرف نے 16 اپریل 2005  میں وزیراعظم منموہن سنگھ کی جانب سے دیے گئے عشائیہ میں کہاتھاکہ ’’عام لوگوں کی خواہشات نے دونوں حکومتوں پرحددرجہ اثرکیاہے۔اب پائیدار امن کے عمل کوکوئی طاقت بھی ختم نہیں کرسکتی‘‘۔یوسف رضاگیلانی، صدر زرداری اورنوازشریف بھی اپنے اپنے ادوارمیں ہندوستان گئے تھے۔

حالیہ دنوں میں جنرل قمرباجوہ نے تقریباًوہی الفاظ دہرائے ہیں جوپاکستان کے مختلف وزراء اعظم اورصدورماضی میںکہتے رہے ہیں۔یہ حددرجہ مدبرانہ اورحقیقت پسندرویہ ہے۔اسلام آبادمیں حالیہ منعقد نیشنل سیکیورٹی کی ایک مجلس میں موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف کی جانب سے امن اور باہمی چپقلش کے المناک ماضی کودفن کرکے آگے بڑھنے کی بات ہوئی ہے۔اس اہم تقریرسے دونوں ملکوں میں امن پسندلوگوں کوایک اُمیدضروربندھ گئی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ملکرچلنے کی کوشش ضرور کرینگے۔یہ خواہش ہرگز ہرگز غیرمعمولی نہیں ہے۔بلکہ ہمارے ہرسیاستدان نے اعلیٰ ترین سطح پرامن کی بات ضرورکی ہے اورتقریباًیہی معاملہ انڈیاکی طرف سے دیکھنے میں آیاہے۔

مگرصرف خواہشات سے امن قائم نہیں ہوسکتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ دونوں ممالک نے گزشتہ چنددہائیوں میں کئی تنازعات پراتنی جذباتیت پیداکردی ہے کہ اس منجمدنکتے سے واپسی دونوں ممالک کی قیادت کے لیے حددرجہ مشکل ہے۔سرِفہرست کشمیرکامسئلہ دونوں ملکوں کے امن کے لیے حددرجہ مشکل نکتہ ہے۔

پاکستان، کشمیرکے مقامی لوگوں کی واحداورآخری اُمید ہے۔ اس حساس موقع پرہمیں کشمیری عوام کے ساتھ ضرور کھڑے رہناچاہیے۔مگرمعروضی حالات میںاپنے قومی مفادات کی روشنی میں نظرڈالیں تومعاملہ ایک مختلف سمت سے بھی دیکھاجاسکتاہے۔وہ یہ کہ ہم بھارت کے ساتھ تجارتی،اقتصادی،سماجی تعلقات کوبھرپور طریقے سے بڑھاوادیں اورسفارتی سطح پرکشمیرکامقدمہ پیش کرتے رہیں۔

یہ کہنا،کہ پہلے اس مسئلہ یعنی کشمیرکوحل کیا جائے، اسے نریندرمودی کی چیرہ دستیوں سے آزاد کروایاجائے اور پھرباہمی کاروبارکی طرف جائیں گے۔  اس پرہمارے ملک میں دوآراء موجودہیں۔کیاتجارت کو اس وقت تک روکے رکھناچاہیے جب تک آئیڈیل حالات نہ ہوجائیں۔ ایسا ممکن نہیں ہے۔آئیڈیل حالات کم ازکم اس عملی دنیامیں برپاہوناتقریباًناممکن ہیں۔ کوشش ضرورکرنی چاہیے۔

اس میں کوئی حرج نہیں کہ پاکستان ایک تجارتی طویل المدت منصوبہ بنائے۔ اسے پارلیمنٹ میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ کھلے دل سے زیرِبحث لایاجائے۔یہ منصوبہ صرف ہندوستان تک محدودنہ ہو۔بلکہ اس میں وسطی ایشیاء،یورپ،افریقہ اور دیگر مارکیٹیں شامل ہونی چاہئیں۔ہندوستان کے ساتھ باہمی تجارت اس میں بہرطور شامل ہونی چاہیے۔اس منصوبہ کوعوامی تائیدکے ساتھ نافذالعمل کرنا چاہیے۔

دوچارسال میں اس کے ثمرات یانقصانات پرکھ کرہم اسے دوبارہ معروضی حالات کے مطابق تبدیل کرسکتے ہیں۔ یہ آسان کام نہیں ہے۔اس میں کئی ایسے عناصرہیں جو امن کوآگے بڑھنے میں دونوں اطراف سے رکاوٹ پیدا کرینگے۔ بصیرت یہی ہے کہ اقتصادی صورتحال کو اچھا بنایا جائے۔

اس اَمرکوبھی مدِنظررکھناچاہیے کہ سیاستدان باہمی چپقلش کی وجہ سے،بھرپورقومی مفادات پرضرب نہ لگاسکیں۔ بھارت میں کانگریس ہویابی جے پی۔ ہمارے ملک کوعدم استحکام اورنقصان پہنچانے کے عمل کو ختم ہونا چاہیے۔اس لیے بھی کہ محدود وسائل کے باوجود ہمارے ملک کادفاع ناقابل تسخیربن چکا ہے۔ ہندوستان کے ایک دانشور ن سی استھانہ نے 2020 میں ایک کتاب لکھی ہے۔

اسکاعنوانNational Security and Conventionel Arms Raceہے۔اس نے برملا اعتراف کیاہے کہ ’’ہندوستان کی عسکری مشین پاکستان کوبالکل نقصان نہیں پہنچاسکتی‘‘۔استھانہ نے تویہ بھی لکھاہے کہ ہندوستان کے سیاستدانوں نے پاکستان دشمنی کواس لیے بڑھاوا دیا ہے کہ دونوں کی ضرورت رہتی ہے۔ یہ حساس فیصلہ کہ ہندوستان سے تجارت کوفروغ دیا جائے، ہرگز ہرگز معمولی نہیں ہے۔مگرسوال یہ بھی ہے کہ کیایہ ہماری معیشت کے لیے بہترثابت نہیں ہوگا۔

اسی نکتہ پرسیاسی جماعتوں اوراداروں کے درمیان منظم اورفیصلہ کن مکالمہ ضرورہوناچاہیے۔اگرجرمنی اورفرانس تمام تلخیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے باہمی تجارت کرسکتے ہیںتوہم کیوں نہیں کرسکتے؟دونوں ممالک ہرمسئلہ پرسیاست کر رہے ہیں۔ضرورت تواس بات کی ہے کہ سیاست نہیں،بلکہ معیشت کی بہتری کے لیے فیصلے کیے جائیں۔سیاست نہیں بلکہ معیشت کی مضبوطی ہمارانیامقدربن سکتا ہے؟ پرشائداتنی دشمنی میں کون اتنابڑاقدم اُٹھانے کی ہمت کریگا؟شائدکوئی بھی نہیں!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں