122

جمہوری نظام اور عوام کا کردار

جمہوری نظام میں عوام فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں، جن جمہوریتوں میں عوام کو محض سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے وہ ملک کچھ اور تو ہو سکتے ہیں جمہوری نہیں ہو سکتے۔ ہمارے ملک پر چونکہ اشرافیہ قابض ہے اس لیے ہمارا ملک حقیقی جمہوری ملک قرار نہیں دیا جاسکتا۔

نیب ایک تحقیقی ادارہ ہے اور اس نے عوامی دولت کی لوٹ مار کے کئی کیسوں میں تفتیش کے بعد اربوں روپے ریکورکیے ہیں۔ ظاہر ہے یہ بھاری رقوم اشرافیہ ہی سے ریکور ہوئی تھی۔ اپوزیشن نے اپنے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے ذریعے یہ حیرت انگیز بیان داغ دیا کہ 26مارچ کو محترمہ مریم نواز نیب آفس ضرور آئیں گی لیکن ساتھ میں سیاسی جماعتوں کے ہزاروں رضاکار ہوں گے۔ اس بیان سے سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی۔

ہزاروں عوام کے اس ہجوم میں کیا کچھ نہیں ہو سکتا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس خوف سے نیب نے بہت ساری احتیاطی تدابیرکا بندوبست کیا جو حالات حاضرہ میں ضروری تھا۔ عوام کو کئی مہینوں سے نیب کے خلاف مشتعل کیا جا رہا ہے اور یہ مشتعل عوام اگر نیب آفس پہنچتے توکیا کچھ نہیں ہو سکتا تھا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہ تھا۔ اگر اعلان کے مطابق لاکھوں عوام نیب کے آفس پہنچتے تو حالات میں خرابی کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ملک بھر کے عوام اس ممکنہ صورتحال سے سخت تشویش میں مبتلا تھے۔

26 مارچ کا احتجاج ملتوی ہو گیا اور عوام کے چہروں پر اطمینان آگیا۔ سیاستدانوں کا مختلف حوالوں سے تحقیقی اداروں حتیٰ کہ جیل آنا جانا لگا رہتا ہے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہان نے یہ کہہ کر سارے ملک میں تشویش کی ایک لہر دوڑا دی کہ مریم نواز اکیلی نہیں آئیں گی بلکہ لاکھوں کا مجمع ان کے ساتھ ہوگا۔ اس اعلان پر سنجیدہ لوگوں نے سخت تشویش کا اظہار کیا۔

حقیقی صورت حال یہ ہے کہ شریف خاندان کے بیشتر لوگ یا تو جیلوں میں ہیں یا ملک سے باہر ہیں جن پر کرپشن کے الزامات ہیں ان میں میاں نواز شریف بھی ہیں۔ حالات کے تناظر میں یہ سمجھا جانے لگا کہ یہ جو لڑائی ہو رہی ہے یہ کسی حوالے سے بھی جمہوریت کی لڑائی نہیں بلکہ الزامات سے بری کرانے کی لڑائی ہے جو آگے چل کر اقتدار کی لڑائی میں بدل سکتی تھی اور ہے۔

سیاستدانوں کے دلوں میں اقتدار کی خواہش ایک فطری خواہش ہوتی ہے جب یہ خواہش نارمل ہوتی ہے تو یہ کوئی تشویش کی بات نہیں ہوتی لیکن جب یہ لڑائی ابنارمل ہو جاتی ہے تو نہ صرف جمہوریت کا بیڑا غرق کر دیتی ہے بلکہ مارشل لاؤں کا پیغام بن جاتی ہے۔ مارشل لا ایک شخصی اور جبری حکومت کا نام ہے جس میں شہریوں کے جمہوری حقوق کا ناس ہو جاتا ہے۔

اسی لیے ایسے حالات پیدا کرنے سے گریز کیا جاتا ہے جو مارشل لا کا سبب بن سکتے ہیں۔ آج جو حالات پیدا کیے جا رہے ہیں ان کا رخ مارشل لا کی طرف ہے لیکن امید ہے کہ ہمارے سیاستدان اس حد تک آگے نہیں نکل جائیں گے کہ مارشل لا کا سامنا کرنا پڑے۔ 26 مارچ کی لاکھوں افراد کی ریلی کا منسوخ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ شاید فی الوقت حالات ایسے نہ ہوں گے کہ مارشل لا کی ضرورت پڑے لیکن اس تحریک کو لیڈ کرنے والے ایسے لوگ ہیں جو ہر حال میں پی ٹی آئی حکومت کو ہٹانا چاہتے ہیں۔

میاں نواز شریف کو دس سال کی سزا سنائی گئی ہے ، میاں شہباز شریف جیل میں ہیں ان کے صاحبزادے ابھی جیل سے باہر آئے ہیں ان حالات میں تقاضا یہ ہے کہ بات چیت سے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ موجودہ حالات کی سنگینی میں بات چیت ہی وہ واحد حل ہے جس سے ملک غیر یقینیت سے نکل سکتا ہے۔ پہلے حالات کو نارمل بنا کر پھر انتخابات کی طرف رخ کیا جائے تو حالات بھی نارمل ہوسکتے ہیں اور جمہوریت بھی بچ سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں