179

بھگت سنگھ شہید کی امر زندگی (1)

میں نے 2007 میں بھگت سنگھ کو یاد کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ ایک اتفاق ہے کہ پلاسی کے میدان میں لڑی جانے والی 1757ء کی پہلی جنگ آزادی کی ڈھائی صد سالہ، شمالی ہندوستان کے طول وعرض میں لڑی جانے والی جنگ آزادی کی ڈیڑھ صد سالہ اور امر شہید بھگت سنگھ کی صد سالہ سالگرہ ایک ہی برس میں آئی ہیں۔

بھگت سنگھ، اس کے دوسرے ساتھی اور غلامی سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرنے والے تمام نام دار اور گمنام لوگ، سترہ سو ستاون اور اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کا تسلسل تھے،وہ غدر پارٹی کے وارث تھے۔ یہ لوگ جو ایک نو آبادیاتی تسلط کے خلاف لڑ رہے تھے ان کے بارے میں ہمارے یہاں لوگ بہت کم جانتے ہیں۔ 2007 میںپاکستان جس طرح امریکی سامراج کے چنگل میں پھڑپھڑاتا ہے۔ ایسے میں ہمیں اپنے ان تمام لوگوں کی یاد تازہ کرنے کی ضرورت تھی، جنھوں نے آزادی کے لیے سفاکانہ تشدد سہا اور جان جیسی انمول چیز نذر کردی۔

میں نے اس وقت لکھا تھا کہ ہمیں بھگت سنگھ کی یاد اس لیے بھی منانی چاہیے کہ پاکستان کی سرزمین نے اس سے بڑا حریت پسند پیدا نہیں کیا۔ وہ 28 ستمبر 1907 کو ضلع لائل پور میں بانگا کے قریب ایک گاؤں کھٹکر کلاںمیں پیدا ہوا اور23 مارچ 1931 کو لاہور میں سولی چڑھا ،اس کی اور اس کے ساتھی سکھ دیو او راج گرو کی لاشوں کے ٹکڑے کرکے فیروز پور لے جایا گیا اور وہاں خفیہ طور پر انھیں ستلج کے کنارے آگ دی گئی۔ اس وقت تک لوگوںکو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی شہید ہوچکے اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی ہے۔

غیظ وغضب سے چنگھاڑتے ہوئے اور آنسو بہاتے ہوئے لوگوں کا ایک ہجوم شہیدوں کی تلاش میں نکلا اور ستلج کے کنارے سے ان کے بدن کے ادھ جلے ٹکڑوں اور ہڈیوں کو سمیٹ کر لاہور لایا جہاں محبت ، عقیدت اور احترام کے ساتھ دریائے راوی کے کنارے ان کی آخری رسوم ادا کی گئیں۔ آپ ہی بتائیے کہ بھگت سنگھ ایسا پاکستانی شہید ہم کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں گے۔ ایک حسن ناصر ہے تو وہ بھی لاہور میں اپنے انجام کو پہنچایا گیا اور اس کی ہڈیاں کسی گمنام قبر میں اپنے ڈھونڈنے والوں کاانتظار کرتی ہیں۔

میں 2007 میں لاہور گئی تھی اور وہاں چند دوستوں کے ساتھ شہر کی جگمگاتی، جاگتی سڑکوں سے گزرتے ہوئے مجھے بھگت سنگھ اور حسن ناصر یاد آئے۔ میں نے اس دور کے ایک دوسرے شہید رام پرساد بسمل کو یاد کیا۔ جو تختۂ دار پر پہنچا تو اپنے یہ اشعار گنگنا رہا تھا کہ

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

اے شہیدِ ملک وملت تیرے جذبوں کے نثار

تیری قربانی کا چرچا غیر کی محفل میں ہے

بھگت سنگھ نے جس شان ،جس آن سے جان دی اس کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے وہ برطانوی سامراج جس نے بھگت سنگھ سے زندگی چھینی تھی وہ اس سے ایک امر زندگی نہ چھین سکا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس کے جنم دن کی صد سالہ سالگرہ انگلستان میں بھی منائی گئی۔

لندن میں 30 ستمبر کو اس کی یاد میں ایک شایان شان جلسہ ہوا جس میں یوری پرشاد اور دوسروں نے بھگت سنگھ کی زندگی، اس کے فلسفے اور اس کی تحریروں کے بارے میں اپنے مقالات پیش کیے۔اس جلسے میں ہفت روزہ’’ سوشلسٹ ورکر‘‘ میں کام کرنے والوں نے بھی شرکت کی جس میں سے بیشتر سفید فام تھے۔ ہندوستان میں اس کی یاد میں بڑے بڑے جلسے ہوئے ۔

انقلابی نقطہ نظر سے اس کی زندگی اور افکار کا جائزہ لیا گیا۔ اس پر اب تک کئی فلمیں بن چکی ہیں۔ جن میں سے پہلی 1965 میں ’’شہید‘‘ کے نام سے راج کمار سنتوشی نے بنائی۔7 جون 2002 کو ایک اور فلم ریلیز ہوئی جس میں بھگت سنگھ کا کردار اجے دیوگن نے اور سکھ دیوکا کردار سو شانت سنگھ نے ادا کیا، راج ببر کشن سنگھ بنے۔ اس کے علاوہ فریدہ جلال اور امرتا راؤ بھی اس میں نظر آتی ہیں۔ یہ فلم ارد و، انگریزی، بنگالی،پنجابی میں بنی ہے۔ 2006 کی ایک بہت مشہور فلم ’’رنگ دے بسنتی‘‘میں بھی ہندوستان کی نئی نسل کے انقلابی نوجوانوں پر بھگت سنگھ کے فلسفۂ انقلاب کے اثرات کو اجاگر کیا گیا ہے۔

1919 میں بیسویں صدی کے ہندوستان کو جلیانوالہ باغ کے قتل عام نے جس طرح اپنی بنیادوں سے ہلادیا اس کی مثال نہیں ملتی۔10 اپریل 1919کو امرتسر کے اس باغ میں مردو ں ،عورتوں اور بچوں کے جلسے پر بریگیڈئیر رینالڈ ڈائر کے حکم سے اندھا دھند گولیاں چلیں۔

فوجی جوانوں نے 1650 راؤنڈ چلائے۔ جس کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد لوگ مارے گئے اور 1800 زخمی ہوئے۔ مارے جانے والوں میں مرد‘ عورتیں اور بچے سب ہی شامل تھے۔ جلیانوالہ باغ کی مٹی پر گرنے والا خون ا ن زائرین کو اپنی طرف بلاتا تھا جن کے سینے میں آزادی کی خواہش آگ کی طرح روشن تھی۔ 12 برس کی عمر میں بھگت سنگھ نے بھی اس مقام کی زیارت کی، کہنے والے کہتے ہیں کہ اس نے وہاں سے مٹھی بھر مٹی بھی اٹھائی تھی،وہ مٹی جس میں شہیدوں کے خون کی خوشبو تھی۔

بارہ برس کے ایک بچے کا رویہ اس وقت سمجھ میں آجاتا ہے جب ہم یہ جان لیتے ہیں کہ بھگت سنگھ کا تعلق ایک انقلابی خاندان سے تھا۔ اس کے باپ‘ چچا‘ ماموں اور بعض دوسرے رشتہ دار ’’غدر پارٹی‘‘ کے سرگرم کارکن رہے تھے۔ اس کے ایک چچا سورن سنگھ کوپھانسی ہوئی تھی اور دوسرے چچا اجیت سنگھ کو جان بچانے کے لیے ایران میں جلاوطنی کے دن کاٹنے پڑے تھے۔

یہی وہ خاندانی پس منظر ہے جس کی وجہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تیرہ برس کی عمر میں وہ مہاتما گاندھی سے اتنا متاثر ہواکہ نان کوآپریشن موومنٹ کا رکن بن گیا لیکن جب چورا چوری کے مقام پر پولیس کی فائرنگ سے دو ہندو اور ایک مسلمان مارا گیا تو مہا تما نے یہ تحریک ختم کردی۔ ان کے حکم پر وہ اپنے انگلینڈ کے بنے ہوئے کپڑے اور اپنے نصاب کی برطانوی کتابیں جلا چکا تھا، اس کے لیے مہاتما گاندھی کی یہ پسپائی ناقابل یقین تھی۔ اس دھچکے نے اسے کانگریس کی سیاست سے دور کردیا۔

1922میں جب بھگت سنگھ نے لاہور کے ایک کالج میں قدم رکھا تویہ وہ وقت تھا جب لاہور سیاسی سرگرمیوں کا ایک بڑا مرکز تھا۔ یہاں اگر ٹوڈیوں کی حکومت قائم تھی تو انقلابیوں کے میلے بھی یہیں لگتے تھے۔ کالج میں داخلے کے ساتھ ہی بھگت سنگھ نے Hindustan Rupubilcan Association میں شرکت اختیار کی۔ رام پرشاد بسمل اور اشفاق اللہ خان کی سربراہی میں کام کرنے والی ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن کا رکن بننے کے ساتھ ہی وہ ادب کا بھی رسیا تھا۔

پنجابی اور اردو کی انقلابی شاعری اسے حفظ تھی اور وہ امرتسر سے اردو اور پنجابی کے رسالوں کی ادارت کرتا تھا۔ 1923ء میںجب وہ سولہ برس کا تھا۔ اس نے پنجاب ہندی ساہتیہ سمیلن کے ایک تحریری مقابلے میں پہلا انعام حاصل کیا اور راتوں رات پورے پنجاب کے ادبی اور انقلابی حلقوں میں مشہور ہوگیا۔ کتابیںپڑھنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اور وہ دیوانوں کی طرح کتابیں پڑھتا تھا۔ اس کی عمر میںلڑکے لڑکیوں کا تعاقب کرتے ہیں لیکن سیاہ گھنی کمان ایسی بھنوؤں کے نیچے جادو جگاتی ہوئی بڑی بڑی روشن آنکھوں والا بھگت سنگھ لاہور کے گلی کوچوںمیں کتابیں ڈھونڈتا پھرتا تھا۔ روس میں 1917ء کا انقلاب اس وقت برپا ہوا تھا جب بھگت سنگھ بچہ تھا لیکن جب اس نے جوانی کے جہانِ شورِ انگیز میں قدم رکھا تو برطانوی راج کی کڑی پابندیوں کے باوجود مارکسی سیاست اور روسی ادب اس کا اوڑھنا بچھونا بن گئے۔

ان ہی دنوں سائمن کمیشن کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے 30 اکتوبر 1928کو لاہور میں ایک بڑے قومی سیاستدان اور ٹریڈ یونین رہنما لالہ لاجپت رائے نے جو عدم تشدد کے حامی تھے ایک خاموش جلوس نکالا ۔ اس جلوس پر مسلح پولیس بھوکے کتوں کی طرح جھپٹی اور لالہ لاجپت رائے پر اتنا بھیانک تشدد کیا کہ وہ چند ہی دنوں میں ا س دار فانی سے کوچ کر گئے۔ بھگت سنگھ نے یہ ریاستی تشدد اپنی آنکھوں سے دیکھاتھا اور خود بھی لاٹھیاں کھائی تھیں۔ اس نے اپنے ساتھیوں سمیت یہ عہد کیا کہ وہ عدم تشدد کے حامی اس قومی رہنما کو خون میں نہلا دینے والے پولیس کے افسر اعلیٰ اسکاٹ کو قتل کرکے رہیں گے۔

بھگت سنگھ نے اپنے ساتھیوں شیورام، جے گوپال اور سکھ دیو کے ساتھ گھات لگاکر پولیس چیف پر حملہ کیا لیکن نشان دہی کرنے والے کی غلطی سے اسکاٹ کی بجائے ڈی ایس پی سانڈرس بھگت سنگھ کی گولی کا نشانہ بن گیا اور بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی جائے واردات سے فرارہوگئے۔

انقلابیوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کو سختی سے کچلنے کے لیے برطانوی حکومت نے پولیس کو زیادہ اختیارات دینے کی خاطر ڈیفنس آف انڈیا کا مسودہ قانون اسمبلی سے منظور کراناچاہا لیکن ایک ووٹ کے فرق سے یہ ایکٹ منطور نہ ہوسکا، تب حکومت کی جانب سے یہ ایکٹ اس آرڈیننس کے تحت منظور کیا گیا جسے ’’عوام کے بہترین مفاد میں‘‘ کا نام دیا گیا۔           (جاری ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں