130

دولت توسایہ کی طرح ہے!

22 فروری 1937 کوبین الاقوامی جریدے، ٹائمزکے سرورق پردنیاکے امیرترین انسان کی تصویر چھپی۔اس کے پاس دوارب ڈالرکے اثاثے تھے۔ جو امریکا کی اس وقت کی جی ڈی پی کے دوفیصدکے برابر تھے۔ہندوستان کی پوری پیداواراس زمانے میں محض ایک ارب ڈالرتک محدودتھی۔یہ شخص عثمان علی خان حیدر آباددکن کانظام تھا،بلکہ آخری نظام تھا۔ہندوستان کی کُل پیداوارسے بھی زیادہ امیرتھا۔حیدرآبادحکمرانی کے لحاظ سے ایک مسلمان ریاست تھی۔

بے انتہادولت کی وجہ،گولکنڈہ کے مقام پرہیروں کی کانوں کا موجود ہونا تھا۔ پوری دنیامیں یہ ہیروں کی کان کنی کی سب سے لاجواب جگہ تھی۔وہاں کی تمام پیداوارکامالک میرعثمان تھا۔کانوں میں ایک لاکھ مزدورکام کرتے تھے۔ حیدر آبادکی ریاست برصغیرکی تمام ریاستوں میں سب سے امیرسلطنت تھی۔رقبہ کے لحاظ سے214,190مربع کلومیٹرکی یہ ریاست یوکے کے برابرتھی۔ دولت، اقتدار اورحکمرانی کاملاپ افسانوی حدتک درست تھا۔نظام کو ہیروں کااَزحدشوق تھا۔اس کے والدکوبھی زندگی میں قیمتی پتھروں سے محبت تھی۔

جیکب نام کاایک ہیراجو 184 کیرٹ کاتھا،میرعثمان اسے کاغذات پرپیپرویٹ کے طورپراستعمال کرتاتھا۔شائدآپکویقین نہ آئے،کہ دنیا کاپانچواں بیش قیمت ہیرا،میرعثمان کاوالداپنے جوتے پراستعمال کرتاتھا۔نظام کے پاس سات محیر العقول سطح کے خوبصورت تعمیرشدہ محل تھے۔جن میں پانچ ہزار خادم کام کرتے تھے۔جواہرات سے لداایک ٹرک ، میرعثمان کی خوابگاہ کی کھڑکی کے نزدیک کھڑارہتا تھا ۔ نظام اس کواپنے سامنے دیکھ کردلی مسرت حاصل کرتا تھا۔ نظام 1911سے لے کر1948تک اس خوبصورت ریاست کامکمل والی رہا۔اسے برطانوی حکومت کی طرف سے اکیس توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔یہ اعزازپورے برصغیرمیں گنتی کے حکمرانوں کوحاصل تھا۔

اپنے دورِاقتدارمیں نظام نے ریاست کی حددرجہ بہترین اورجدیداندازسے تعمیرِنوکی۔ اسپتال، آبی ذخائر، یونیورسٹیاں،ریل،بجلی کانظام،بینک اورہر طرح کی فلاحی تعمیرات میں مصروف کاررہا۔1947میں ملکہ الزبتھ دوم کی شادی پرنظام نے ہیروں کاایک ہارتحفہ میں دیا۔ اسے نظام نیکلس کانام دیاگیا تھا ۔ پوری دنیاسے ملکہ کو دیے جانے والے تحفوں میں یہ سب سے بیش قیمت تھا۔ملکہ آج بھی اسے خصوصی تقاریب میں زیب تن کرتی ہے۔اگرموجودہ حساب سے نظام کی دولت کاتخمینہ لگایا جائے تووہ237ارب ڈالرکے لگ بھگ بنتی ہے۔ انسان اتنی کثیردولت کاقیافہ لگاتے لگاتے گھبراجاتا ہے۔

1948میں میرعثمان کی حکومت کاخاتمہ کر دیا گیا۔اس کے بعد وہی ہوا،جوتاریخ میں ہربادشاہ اوراس کی اولادکے ساتھ مسلسل ہوتا آیا ہے ۔ بھرپورمنفی تبدیلی اورزمانے کے ہاتھوں ناقدری۔ ہندوستانی حکومت نے ریاست کوختم کرکے رکھ دیا۔اس سے آج کے تین صوبے برآمد ہوئے۔اندھرا،بمبئی اورمیسورکے اندرضم ہوئی ریاست، ہوامیں تحلیل ہوکررہ گئی۔آج یہ صرف اورصرف لوگوں کے ذہنوں تک محدودہے۔یہاں سے یہ المناک نتیجہ بھی برآمدہوتا ہے۔نظام کی جائیدادکے سیکڑوں وارث تھے۔جو اب ہزاروں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔یہ عدالتوں، تھانوں ، حکومتی دفتروں میں ایک دوسرے سے گالم گلوچ کرتے ہیں۔

قیمتی اشیاء کی چوری پرایک دوسرے کے خلاف پرچے کرواتے ہیں۔عدالتوں میں جائیداد میں حصہ حاصل کرنے کے لیے مقدمہ دائرکرتے ہیں۔ ہر وقت کی کشمکش اورمارپیٹ نے اس عظیم بادشاہ کی اولاد کو زمانے میں صرف مذاق بناکررکھ دیاہے۔خوفناک اور خون کے آنسورُلانے والامذاق۔وہ دولت جسکے بَلبوتے پرایک خاندانی جاہ وجلال قائم تھا،آج وہ بھی ختم ہوچکی ہے۔ہندوستان کی مرکزی حکومت نے اس دولت پر سب سے بڑی ڈاکہ زنی کی۔حالیہ دورمیں نظام کی اولاد صرف اورصرف دھول چاٹ رہی ہے۔

اگرنظام کی خیرہ کن دولت کے انبارختم ہوگئے،تو پھرموجودہ صورتحال میں امیرلوگوں کی کیااوقات ہے۔  اپنے آپکوصرف پاکستان تک محدودکرتاہوں۔آپ ایک کاغذپنسل لیجیے۔اس پر دس سال کی ترتیب سے ایک خانہ بنائیے۔یعنی1957,1947اوراس طرح آگے چلیے۔1947میں پاکستان کے امیرترین دس خاندان کون سے تھے۔آپ حیران رہ جائینگے کہ آج یعنی 2021میں ان میں سے اکثریت گمنامی کے اندھیرے میں غائب ہوچکی ہے۔انھیں کوئی بھی نہیں جانتا۔ دولت محدودسے عرصے کے بعدٹھکانہ بدل لیتی ہے۔

یہ کسی کے پاس بھی مستقل نہیں رہتی۔کل کے سرمایہ دار لوگ،آج کے متوسط بلکہ عام طبقے میں شامل ہیں۔ ہر انسان یہ سمجھتاہے کہ دولت ہمیشہ اس کی تجوری میں محفوظ رہیگی۔مگربہت قلیل عرصے میں وہ تجوری اورٹھکانہ بدل لیتی ہے۔ملک امیرمحمدخان جوآج کے مکمل پاکستان کے دبدبہ والے مثالی گورنرتھے۔ان کی کالاباغ اسٹیٹ تقریباًایک سوسترمیل تک پھیلی ہوئی تھی۔اس میں کالا باغ کاذاتی گیسٹ ہاؤس،میلوں پرمحیط شکارگاہیں اور قیمتی رقبے شامل تھے۔نواب صاحب کے گیسٹ ہاؤس میں امریکی صدرآئزن ہاور1952میں قیام کرچکا ہے۔

ایوب خان،اسکندرمرزا،ذوالفقارعلی بھٹوتمام وہاں رہناپسندکرتے تھے۔ملک صاحب کی شکارگاہوں میں پاکستانی صدور،وزراء اعظم اورغیرملکی کثرت سے آتے تھے۔ان کاشایانِ شان استقبال کیاجاتاتھا۔انھیں شاہانہ مہمان نوازی سے برتاجاتاتھا۔ماضیِ قدیم کی بات نہیں کررہا۔1958سے لے کر1966تک ہرطاقتور اوررئیس آدمی،نواب آف کالاباغ کامہمان رہاہے۔یہ باعث توقیرسمجھاجاتاتھا۔ مگر 2021 میں کھڑے ہوکر کالاباغ اسٹیٹ کی طرف گردن موڑکر دیکھیے۔ ہر چیز موجودہے مگرحقیقت میں سب کچھ معدوم ہوچکا ہے۔

آج اس جاگیرکے والی وارث موجودہیں، مگران میں سے ایک بھی نواب آف کالاباغ،ملک امیرمحمدخان کی سطح کاقدآورانسان نہیں ہے۔خاندانی اورمالی عظمت کافی حدتک حالات کی دھول میں اَٹ چکی ہے۔ نواب صاحب کے ایک قریبی عزیزسے چندبرس پہلے ملنے کااتفاق ہوا۔خوشگوارملاقات کے بعدصرف ایک جملہ ذہن میں آیاکہ وقت کتنی ظالم چیزہے۔سونے کو مٹی بنا دیتا ہے اورخاک میں لتھڑے ہوئے کو ہیرابناکردوام دے دیتاہے۔

اب ملک کے حکمرانوں کی طرف آتا ہوں۔ ہمارے ملک کے سیاسی خاندانوں کی علمی سطح حددرجہ پست ہے۔اس لیے شائدانھیں ادراک نہ ہوپائے کہ جس دولت کے بَل بوتے پرآج وہ اپنے جھوٹ کوسچ بناکرپیش کررہے ہیں وہ توصرف اورصرف ایک سایہ ہے۔یہ توکسی کے پاس نہ رہی ہے اورنہ رہے گی۔ ہر سیاسی قائدکے اَن گنت مرید،چاہنے والے اوردرباری ہیں۔ویسے عجیب بات ہے کہ یہ درباری بھرپورطریقے سے ہرسیاسی قائدکووفاداری کے نام پرلوٹتے ہیں۔ ہمارے موثرترین سیاسی خاندان نودولتیے ہیں۔ان میں نئی نئی دولت کاتکبربھرپورطریقے سے شامل ہے۔

یہ ہرمقام پراپنے قیمتی کپڑے،گھڑیاں، جوتے، بیگزاور گاڑیوں کی نمائش ضرورکرتے نظرآتے ہیں۔ان سیاسی خاندانوں کے فرزنداوردختران میں سے اکثرجب بھی لندن یاامریکا جاتے ہیںاوراقتدارکے مالک ہوں، تو یہ حکومتی خرچے پرکرایے کے کشادہ جیٹس پر سفر کرنااپناحق سمجھتے ہیں۔وہاں جاکرحکومتی خرچے پرقیمتی ترین گاڑیوں میںسفرکرتے ہیں۔ یہ ہمارے وسائل پر بیرونی ممالک کے ان ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں،جہاں عام گورے جانے کاسوچ بھی نہیں سکتے۔حکومتی وسائل پرعیش کرنے والے یہ امیرترین سیاسی خاندان، ویٹر کو ٹپ تک دل کھول کرسرکاری پیسوں سے دیتے ہیں۔یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دولت ہمیشہ ان کاساتھ دیگی۔

ہمارے ہرسیاسی خاندان کوآخری نظام کی سچی کہانی کواکیلے بیٹھ کرپڑھناچاہیے۔ ہمارے سیاسی خاندانوں کومعلوم ہوناچاہیے کہ سرکاری خزانہ کولوٹ کرامیربننے سے شائدوہ وقتی طورپرعظمت کی مسند پر براجمان نظرآتے ہیں۔مگربہت قلیل مدت میں یہ دولت،اپناگھربدل لیگی اورپھروہی ہوگاجونظام کی اولادکے ساتھ زمانہ آج کررہاہے۔تاریخ کاسب سے بڑاسچ یہ ہے کہ اصل میں دولت صرف اورصرف سایہ کی طرح ہے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں