98

عدم برداشت

جیسے جیسے کرہ ارض پر موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں موسم گرم سے گرم تر ہوتا جا رہا ہے۔اگر نظر عمیق سے دیکھا جائے تویہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ اس تبدیلی کے اثرات سے انسان بھی متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا ،اس کے رویے میں بھی گرمی بڑھتی جارہی ہے عدم برداشت والا مہلک مرض رویوں میں بہت سرعت کے ساتھ سرائیت کرتا جارہا ہے جس کی وجہ سے انسان ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔ پہلے دور میں جو ایثارو رواداری کے جذبات پائیجاتے تھے وہ ناپید ہوتیجارہے ہیں لوگوں کیایک دوسرے کے ساتھ پیارومحبت کے جو رشتے ہوتے تھے وہ آٹے میں نمک کے برابر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ایک وہ بھی زمانہ تھاجب گلی محلے میں کوئی نا کوئی سمجھدار بزرگ ہوا کرتا تھا جب بھی کسی پر مشکل وقت آتا تو وہ اپنے تجربات اور مفید مشورں سے مشکلات کا حل تلاش کرنے میں مدد کرتے مل بیٹھ کر معاملات کو سلجھانے کے لیے مشاورت کی جاتی بڑوں کی رائے پر بلا چون وچراں عمل کیا جاتا ۔ان کا تجویز کردہ مشورہ سود مند ثابت ہوتاتھا ۔یہ بزرگ حضرات گلی محلے کے بچوں کو ان کے کسی غلط کا م پر ڈانٹ بھی دیا کرتے اور ان بچوں کے والدین بڑوں کی بات کا برا نہیں مانتے تھے بلکہ خوش ہوتے کہ ان کے بچوں کو کسی بڑے نے سمجھا یا ہے۔آج کل اگر کسی کو سمجھا نے کی کوشش کی جائے لوگ اس بات کو بہت برا محسوس کرتے ہیں کہ ان کے بچے کو کسی دوسرے فرد نے کیوں سمجھا یایہ تو ان کا ذاتی معاملہ تھا ۔ اب رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی ہر بندہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کے بیٹھا ہے فروعی مسائل میں لمبی لمبی بحثیں ہوتِیں ہیں یہ اتنی طوالت اختیار کر جاتی ہیں نوبت انفرادی جھگڑوں تک پہنچ جاتی ہے زمانہ جہالیت کی طرح یہ لڑائیاں خوفناک نتائج کا سبب بنتی ہیں ۔اسی طرح بچوں کی آپس کی لڑائیاں بھی اکثراوقات خون ریزی پر جاکر تھمتی ہیں اگران معاملات میں غور فکرکیا جائیتو ہم اس نتجہ ہر پہنچے گے کہ یہ سب واقعات دین سے دوری کا نتیجہ ہیں۔عدمِ برداشت کی سب سے بڑی وجہ دین سے دوری ہے۔ معاشرہ کی اکثریت خصوصا نوجوان نسل دینی تعلیمات سیبے بہرہ ہے، اس لیے ان میں خود پسندی ، حسد، جلد بازی،اسراف اوردوسروں کی تحقیر سمیت لاتعداد روحانی امراض پیدا ہو رہے ہیں، جو عدمِ برداشت کی جڑ ہیں۔جبکہ دوسری طرف برداشت اوراحترام باہمی کو فروغ دینے والی اخلاق فاضلہ مثلا صبرو شکر،حلم وبردباری، قناعت سے محروم رہتے ہیں۔ اس کی دوری کی وجہ سے ایسے عجیب وغریب واقعات رونما ہورہے پیں جنہیں دیکھ اور سن کر بہت افسوس ہوتاہے کہ یہ ہم کس ڈگر پر چل نکلے اخلاقی پستیوں کیگھٹا ٹوپ اندھیروں میں گم ہوتے جارہے ہیں جہاں سوائے
پستی کے اور کچھ نہیں اس وقت اخلاقی پستیوں کا عروج ہے۔ایک وقت تھا کہ مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کے درمیان مناظرے اور مباحثے ہوتے تھے ۔فریقین ایک دوسرے کی بات سنتیاور حسن ادب سے اختلاف رائے بھی ہوجاتا لیکن ایک دوسرے کا احترام برقرار رہتا۔ باہمی احترام کی یہ روایت ہی معاشرتی حسن کی دلیل تھی۔ اب صورتحال اسکے بالکل بر عکس ہے ۔آج کل لوگ اختلاف رائے کا سلیقہ بھول گئے ہیں ۔ جدید دور کے مباحثوں میں شدت پسندی، جارحانہ پن، غصہ ، عدم برداشت اور گالی گلوچ کا کلچر نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ اب لوگ نظریے پر تنقید کا جواب ذاتیات پر تنقید سے دیتے ہیں ۔شام ڈھلتے ہی تمام ٹیلی ویژن چینلزپر سجے پنڈالوں میں عدم برداشت کے مضحکہ خیز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ڈاکٹرہوں یا وکیل ، صحافی ہوں یا سیاستدان، معاشرے کاپسا ہوا طبقہ ہویاصاحب ثروت لوگوں کا گروہ کوئی بھی طبقہ اس سے مستثنی نہیں ۔ اور اسی طرح اگر ہم ماضی کے دینی طبقہ ہائے فکر رکھنیوالے اپنے اکابر کے سہانے دور پر نظر دوڑایں تو ہمارے اکابرکا رویہ جو باوجود اختلاف رائے کے احترام کی حدود کو پار نہیں کرتا تھااور ان کے یہ اختلافات نعمت تھے انہیں کی بدولت ہمیں فقہ میں سہولت ہوگئی ہے الگ الگ مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مسائل کا حل تلاش کرنے میں دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کتابوں میں تمام مسائل کا حل موجود ہیانہوں نے برداشت کی ایسے مثالیں قائم کی ہیں جو رہتی دنیا تک لوگوں کے لیے مشعل راہ ہیں ۔ یہ بات بہت مشہور ہے کہ ایک مرتبہ امام شافعی حضرت امام ابو حنیفہ کے مزار پر حاضر ہوئے تو وہاں اپنے مسلک کے خلاف نماز فجر میں قنوت نہیں پڑھا کیونکہ امام ابو حنیفہ اس کے قائل نہیں تھے۔اسی طرح رسول پاک صل اللہ علیہِ وسلم کی زند گی ہمارے لیے برداشت کی اعلی مثا ل ہے ۔8ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو فتح کیا جہاں تک کسی ملک یا علاقہ کو فتح کرنے کا سوال ہے، تاریخ اس بات پر گواہ ہے کے جب کوئی بادشاہ یا ڈکٹیٹر یا کوئی جنرل کسی ملک یا علاقہ کو فتح کرتا ہے تو انسانی آبادی خاک و خون سے لت پت ہوجاتی ہے، ہنستے بستے شہر کھنڈر میں تبدیل ہوجاتے ہیں، بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوجاتی ہیں اور ظلم وبربریت کی وہ کہانی دہرائی جاتی ہے جسے دیکھ کر انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح میں
ہلاکت و بربادی نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں جب داخل ہوئے ہیں تو پیشانی مبارک عاجزی سے جھکی ہوئی تھی اور اعلان فرمایا :(1) جو شخص مقابلے سے ہاتھ روک لے اسے امان ہے۔(2) جو اپنے گھر کے دروازے بند کرلے اسے بھی امان ہے۔(3) جو اپنی تلوار میان میں رکھ لے اسے امان ہے۔(4) جو ابوسفیان یا حکیم ابن حزام کے گھر میں داخل ہوجائے اسے امان ہے۔(5) جو مسجد حرام میں پناہ لے اسے امان ہے۔(6) جو شخص بھاگے اس کا پیچھا نہ کیا جائے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ میں دنیا کے سامنے یہ تاریخ بھی رقم کردی کہ مذہبی رواداری کے بل بوتے پر بھی علاقوں کو فتح کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہی مکہ تھا جہاں آپ کے جانی دشمن رہاکرتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے اصحاب پر ان لوگوں نے ظلم کے پہاڑ توڑے ، جنہوں نے مسلمانوں کی خوں ریزی ، غارت گری اور آبروریزی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر چاہتے تو ایک ایک سے انتقام لے لیتے ،انہیں تہ تیغ کردیتے اور ان کے مال و متاع پر قبضہ کر لیتے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر تلوار نہ اٹھائی بلکہ سب کو معاف کردیا اور برداشت کی ایک ایسی بے مثال داستان رقم کی جو قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے روشنی کا مینارہ ثابت ہوگئی اور اس کے علاوہکیا مذہبی رواداری کی اس سے بہتر مثال کسی او رمذہب کی تاریخ میں مل سکتی ہے؟ کیا دنیا اس کے علاوہ کوئی اورنظیر پیش کرسکتی ہے کہ جس میں قتل و غارت گری سے پاک ہوکر کوئی علاقہ فتح کیا گیا ہو اور دشمنوں کو معاف کردیا گیا ہو؟ نہیں یہ صرف ہمارے آقاحضرت محمدصل اللہ علیہِ وسلم کی خصوصیت تھی آپ صل اللہ علیہِ وسلم نے کبھی بھی اپنی ذات کے لیے کسی سے بدلہ نہیں لیا آپ صل اللہ علیہِ وسلم صرف اور صرف اللہ پاک کی رضا کے لیے کرتے تھے۔عدم برداشت کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اس کا آغاز اپنی ذات سے کریں ۔ اگر ہم اپنے اندر مثبت تبدیلی لانے کیلیے کوشاں ہونگے تو ہمیں دیکھ کر دوسرے لوگ بھی کوشش کریں گے کیوں کہ ایک مثبت رویہ بہت سے مثبت رویوں کو جنم دیتا ہے ۔ اس طرح کی تمام بری خصلتوں کو چھوڑنا ہوگا جو معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن رہی ہیں جیسا کہ اپنی رائے کو حتمی سمجھنا ، بے جاتنقید، خوامخواہ کی بحث اور طعن و تشنیع کو ترک کرکے ہم اس وبا کو مزید پھیلنے سے روک سکتے ہیں ۔ اختلاف رائے ہمیشہ دلیل سے ہونا چاہیے اور دوسروں کی رائے کا بھی احترام ہونا چاہیے۔ سیاسی یا مذہبی مخالفین کی عزت نیلام کرنے کی بجائے ہم انکے ساتھ نہایت احترام کا رشتہ رکھیں ۔ صبروتحمل اور بردباری و برداشت کا مظاہرہ کریں۔ ہم اپنے رویے میں مناسب تبدیلی لاکر عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے میں معاون و مدگار ثابت ہوسکتے ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں