177

زاہد حسین کے ناول ’’کہانی اِک ماں دی‘‘ کی تقریب رونمائی

ظ عباس

ظ عباس
زاہد حسن پنجاب زبان و ادب کا ایک معتبر حوالہ ہیں۔ عہدِ حاضر میں جب ہندوستان اور پاکستان کے ادیب انگریزی ادب تخلیق کر رہے ہیں، زاہد حسن کی طرح کے من چلے اب بھی اپنی ماں بولی پنجابی میں ادب تخلیق کر رہے ہیں اور ان کی تحریروں کو سراہا بھی جا رہا ہے۔ وہ اگرچہ اردو میں بھی ادب تخلیق کرتے رہے ہیں مگر مال بولی کی کشش کے باعث جلد ہی پنجابی میں لکھنے لگے اور ان کا شمار اب ملک کے نمایاں پنجابی ناول نگاروں کی فہرست میں کیا جاتا ہے۔زاہد حسن کہتے ہیں، جو بھی کچھ فکشن آپ لکھتے ہیں، اُس میں زیادہ تر تو حقیقت ہی ہوتی ہے لیکن ایک لکھنے والا اُسے فکشن کا رنگ دیتا ہے، کہانی کا روپ دیتا ہے۔
1969ءمیں فیصل آباد کےنواحی گاؤں جھوک پیرا میں پیدا ہونے والے زاہد حسن 1986ء میں لاہور پہنچے اور تب سے یہی شہر اُن کا مسکن ہے۔ لاہور میں وہ بہت سی ادبی تنظیموں سے بھی منسلک ہیں اور صرف ادب ہی تخلیق نہیں کر رہے بلکہ ایک ادیب کے طور پر اپنی ذمہ داریوں کا بہ خوبی ادراک بھی رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی ادیب کو لکھنے کے مقابلے میں زیادہ پڑھنا چاہئے۔ زاہد حسن نے خود جہاں برصغیر کی مقامی زبانوں کا ادب پڑھا اور خاص طور پر پنجابی زبان میں لکھنے والے نامور ادیبوں افضل حسن رندھاوا، امرتا پریتم، بلونت سنگھ اور منشا یاد کی تخلیقات سے متاثر ہوئے، وہیں اُنہوں نے لاطینی امریکی ادب کی نامور شخصیات مثلاً مارکیز، بورخیس اور پاؤلو کوہیلو کی تخلیقات سے بھی فیض حاصل کیا۔
یہ ان کے ادب کی کشش ہے کہ پنجابی یونین کے زیر اہتمام پنجاب ہاؤس میں پنجابی ادبی بورڈ نے زاہد حسن کے ناول’’ کہانی اک ماں دی‘‘ کی تقریب رونمائی کی پرقار تقریب کا انعقاد کیا۔ناول کی کہانی ان کی والدہ کی اس جہد مسلسل کے گرد گھومتی ہے جو انہوںنے بیوگی کے دوران اپنے خاندان اور معاشرے کے ظلم وستم سے نبردآزما ہوتے اور اپنےتین بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کے لئے کی۔ اس ناول کا خوبی ہی یہ ہے کہ پڑھنے والے کو کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ ناول ایک بیٹے نے اپنی ماں پر لکھا ہے بلکہ قاری اس ناول میں پنجاب دھرتی کی ماں سے اور ایک ایسی ماں سے متعارف ہوتا ہےجو اس پوری دنیا کے ہر انسان کی ماں ہو سکتی ہے۔ اس ناول میں مصنف حرفِ اول سے حرفِ آخر تک غیر جانبدار دکھائی دیتا ہے۔
اس پروقار تقریب کی صدارت کے فرائض پنجابی کے رہنما ودانشور الیاس گھمن نے ادا کیے۔
تقریب کی میزبانی کے فرائض حسبِ روایت پنجابی یونین کے سربراہ مدثراقبال بٹ اوروائس چیئرمین بلال مدثربٹ نے ادا کیے۔مہمانانِ گرامی میں ناول نگار زاہد حسن، پنجابی ادبی بورڈ کی سیکرٹری پروین ملک ،ڈاکٹر ضیاالحسن،پروفیسر ڈاکٹر کلیان سنگھ کلیان اورڈاکٹر اشوک کمارشامل تھے۔
تقریب کے آغاز پر پنجابی یونین کے صدراور تقریب کے میزبان مدثر اقبال بٹ نے کہا ،
پنجاب ہاؤس کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ یہ نہ صرف دوستوں کی بلکہ پنجابی میں لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ایسی تقاریب منعقد کرتا رہتا ہے۔
انہوں نےمزید کہا ،
میںیہ کام فرض سمجھ کر کرتا ہوں تاکہ لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ پنجابی میں مزید اعلیٰ پائے کا ادب تخلیق کریں اور یہ سلسلہ یوں ہی آگے بڑھتا رہے ۔ ایک شاعر اور اسی طرح ناول نگار کی اگر حوصلہ افزائی نہ ہو تو اس کے لئے مزید لکھنا آسان نہیں ہوتا ۔
مدثر اقبال بٹ نے کہا،
میرے لئے خوشی کی بات ہے کہ پنجاب ہاؤس کو الیاس گھمن جیسے دوست کی رہنمائی حاصل ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی پنجابی زبان اور پنجاب کی ثقافت کی ترویج کے لیے وقف کر دی ہے، ان کی اس جدوجہد کا سفر گزشتہ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔
پنجابی میڈیا گروپ کے صدر ندیم رضا نے کہا ،
ہمارے لئے خوشی کی بات ہے کہ پنجابی کی خدمت کے لئے پنجاب ہاؤس کے شروع کئے جانے والے مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے اور آج اسٹوڈیو بھی مکمل ہوگیا ہے جو جدید ترین آلات سے مزین ہے جہاں پر پنجابی کے فروغ کے لئے کام کرنے والوں کو ہرطرح کی سہولیات بلامعاوضہ دستیاب ہوں گی۔
انہوں نے مزید کہا ،
میں بنیادی طور پر ایک صحافی ہوں اور ادب سے میرا اتنا ہی تعلق ہے جتنا ایک قاری کا کتاب سے ہوتا ہے۔ ہم عالمی ادب پر نظر دوڑائیں تو ادب میں گورکی کی ماں دکھائی دے گی اور اب دوسری ماں زاہد حسن کے ناول کہانی اک ماں دی کے ذریعے امر ہو گئی ہے۔ ناول نگارکے لئے غیر جانبدار رہتے ہوئے اپنے کرداروں کے ساتھ پورا پورا انصاف کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے، یہ کام زاہد حسن نے بڑی خوبصورتی اور ادبی مہارت سے کیا ہے۔
ندیم رضا نے مزید کہا،
پروفیسر کلیان سنگھ کلیان اور زاہد حسن پنجاب دھرتی کا مان ہی نہیں بلکہ ہمارا فخر بھی ہیں ۔
جاوید آفتاب نے کہا ،
مجھے زاہد حسن کی والدہ کی بہت محبتیں ملی ہیں وہ جس طرح زاہد حسن کی ماں تھیں ، اسی طرح میری بھی ماں تھیں ایسی ماں کا بیٹا ہونا زاہد حسن کے لئے اعزاز کی بات ہے جس ماں نے اپنی پوری زندگی اپنے بچوں کا مسقبل سنوارنے میں گزار دی۔وہ آج ہم میں نہیں ہیں لیکن میں ان کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں ۔
پروفیسر ڈاکٹر کلیان سنگھ کلیان نے کہا،
مدثر اقبال بٹ نے پنجاب ہاؤس میں کتب کے حوالے سے تقاریب منعقد کرنے کی روایت ڈال کر بہت بڑا کام کیا ہے ۔زاہد حسن کے ناول کہانی اک ماں دی کے حوالے سے پنجاب کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ایسی بہت سی عظیم مائیں دکھائی دیں گی جنہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں کو تیار کر کے دھرتی پر قربان ہونے کے لئے میدان جنگ میں بھیجا ،ان میں جگت ماں قابل ذکر ہے جس نے اپنے چار بیٹوں کو میدان جنگ میں بھیجا ۔انہوں نے کہا کہ 1984ء میں میَں نے ایک ایسی ماں کو بھی دیکھا جو اپنے فوجی بیٹے کو جوتوں سے مار رہی تھی جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ اس نے دربار صاحب پر حملہ کیا ہے۔ یہ بھارتی فوجی تو ہوسکتا ہے لیکن میر ابیٹا نہیں ہو سکتا۔زاہد حسن نے اپنے ناول میں لفظوں کو بہت خوبصورت ترتیب دی ہے کہ ہر لفط میں ماں دکھائی دیتی ہے، پورا ناول پڑھنے سے دماغ میں خود بخود ماں کی تصویر بن جاتی ہے۔ زاہد حسن پنجابی کے بہت بڑے لکھاری ہیں ۔ ان کی تحریریںآج ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر پڑحائی جارہی ہیں۔
ڈاکٹر اشوک کمار نے کہا ،
زاہد حسن کا ناول پڑھ کر یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ ماں پنجاب کی ہے یا سندھ کی۔ صرف ایک ماں کا مامتا بھرا چہرہ ابھرتا ہے۔ ماں پر اعلیٰ معیار کی تحریر وہی لکھ سکتا ہے جسے اپنی دھرتی ماں سے بھی پیار ہو اور یہ پیار زاہد حسن میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ ایک مرتبہ ہم دونوں کو ایک ساتھ امریکا جانے کا اتفاق ہوا تو زاہد حسن نے راستے کے لئے چنے اور محانے لے لیے۔ ائیر پورٹ حکام نے جب ان سے یہ واپس لیے تو زاہد حسن نے امریکہ جانے سے ہی انکار کردیا۔ ان کا اپنی دھرتی سے لگائو اس حد تک گہرا ہے۔
ڈاکٹر ضیاء الحسن نے کہا ،
ماں کے بارے میں اعلیٰ معیار کی کتاب لکھنا ناممکنات میں سے ایک ہے کیوں کہ اس موضوع پر لکھنے والا جذباتیت کا شکار ہوجاتا ہے۔ گورکی کا ناول اعلیٰ معیار کا اس لئے ہے کہ وہ گورکی کی ماں کی کہانی نہیں ہے بلکہ وہ پورے عالم کی ماںکی کہانی ہے۔ گورکی اگر اپنی ماں کی کہانی لکھتا تو وہ ناول بھی اعلیٰ معیار کا نہ ہوتا۔اعلیٰ درجے کا ادب زبان و مذہب کی قید سے آزاد ہوتا ہے، دوسرے درجے کے ادب میں زبان اور ادب دونوں دکھائی دیتے ہیں۔ہم اگر زاہد حسن کے ناول کو پنجابی ادب کا شاہکار کہیں تو یہ اس کی تعریف نہیں ہوگی بلکہ ہم اسے ایک دائرے میں محدود کر دیں گے کیوں کہ ادب کا دائرہ تو پوری دنیا ہوتی ہے،بڑے ادب کو پڑھنے کے لئے غیرمعمولی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ بڑا ادب ذہن پر زخم لگاتا ہے جسے سہنا آسان نہیں۔ زاہد حسن نے جب اپنا ناول پڑھنے کے لئے دیا تو میں نے اسے فوری پڑھنے کی بجائے دوسری کتابوں کےساتھ رکھ دیا کہ یہ ایک روایتی نوعیت کی کتاب ہو گی لیکن جب یہ ناول پڑھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ زاہد حسن ایک حقیقی ماں کا کردار تخلیق کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ناول نگار کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے کرداروں کے لئے ایسی تصوراتی زبان دریافت کر لیتا ہے جس کے ذریعے وہ پڑھنے والی کو اس دنیامیں لے جاتا ہے جو وہ اپنے ناول میں تخلیق کرتا ہے ۔وہ ایسی دنیا ہوتی ہے جسے ہم پہلے سے نہیں جانتے، ایک جہاں وہ ہوتا ہے جس میں انسان رہتا ہے اور ایک جہاں انسان کے اندر ہوتا ہے جسے صوفیا کائنات اصغر سے تعبیر کرتے ہیں۔ناول نگار کے لئے اپنے تجربات کو ادبی تخلیق میں ڈھالنا آسان نہیں ہے مگر زاہد حسن نے ناول کہانی اک ماں دی میں اس مشکل کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیا۔
پنجابی ادبی بورڈ کی سیکرٹری پروین ملک نے کہا ،
زاہد حسن نےجب کہانی لکیراں لکھی تو مجھے اس میں ایک ناول کی جھلکیاں دکھائی دیں تو میں نے زاہد سے پوچھا کہ کیا وہ یہ کام کر سکتا ہے کہ اس پر پورا ناول لکھ دے اور اس نےناول کہانی اک ماں دی لکھ کر یہ کارنامہ انجام دے دیا ۔اس نے جس غیر جانبداری سے اس ناول کے کرداروں کے ساتھ انصاف کیا ہے اور ماں کا ایک ایسا ہالہ بنا ہے کہ پہلی سطر سے لے کر آخری سطر تک ہر حرف ماں کے کردار کو مزید مضبوط بناتا ہے۔اس نے ماں کو غیر معمولی انداز میں نہیں بلکہ ایک انسان کے روپ میں پیش کیا ہے اور تینوں رشتوں کو اس طرح پرویا ہے کہ کسی بھی کردار کو پڑھنا قاری کو بوجھ نہیں لگتا۔زاہد حسن نے ترسی دھرتی میں بھی اپنے کرداروں کے ساتھ پورا انصاف کیا تھا،زیرِ نظر ناول میں بھی ان کا یہ کمال پوری طرح دیکھائی دیتا ہے۔
اس موقع پر ندیم اقبال باہو نے شاہ حسین کا کلام ،مائے نیں میں کنو آکھاں درد وچھوڑے دا حال ترنم کے ساتھ پڑھ کر سنایاجس نے حاضرین پر سماع باندھ دیا ۔
ناول نگاراورکہانی کار زاہد حسن نے کہا ،
پنجاب میں کبھی یوں بھی ہوتا تھا کہ سردیوں اور گرمیوں کی شام کے وقت سب گھر والے اکٹھے ہوکر گھر کے ایک فرد کے متعلق بحث و تکرار کرتے تھے۔ مجھے آج پنجاب ہاؤس میں کچھ ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے جیسے ہم سب گھر والے اکٹھے ہو کر میری ماں پر بات کر رہے ہوں اور ان کی یادیں تازہ ہورہی ہیں ۔
انہوں نے کہا ،
طبیعت میں آوارہ پن تھا،یوں ہی کہانیاں لکھا کرتاجن کی لوگ تعریف کرتے تھے ،میں سوچتا تھا کبھی ا یسا بھی ہو کہ میں انہیں بتاؤں کہ میں خود کس کی کہانی ہوں ۔جو وقت لوگ اپنی زندگی سنوارنے میں صرف کرتے ہیں، میںنے وہ وقت زندگی بگاڑنے میں گزار دیا۔
انہوں نے کہا،
انسان کے اندر ایک آواز ہوتی ہے۔ یہ آواز کائنات میں اس وقت سے موجود ہے جب سے اس کا آغاز ہوا اور یہی آواز کائنات کا توازن بر قرار رکھے ہوئے ہے ۔ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو سب نے کبھی نہ کبھی اپنی ماں کو دُکھ دیا ہوگا ،اس کے جانے کے بعد اس کی تلافی کرنے میں لگے رہتے ہیں لیکن اس دکھ کا ازالہ نہیں ہو سکتا ۔تاریخ پڑھ لیں ماں کے چلے جانے کے بعد باپ بچوں کو نہیں سنبھال سکا لیکن اگر باپ چلا جائے تو ایک ماں بچوں کو سنبھال لیتی ہے۔ ماں پر لکھنا آسان نہیں لیکن جو لوگ ماں بولی اور اپنی دھرتی کو نہیں بھولتے، ان کے لئے یہ کام کچھ مشکل بھی نہیں۔
انہوں نے کہا،
تقسیم کے بعد سے اب تک ہم مصنوعی زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان کی ثقافت پر بے شمار کتب لکھی گئی ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوئیںکیونکہ ان کی کوئی بنیاد نہیں تھی۔ لوگوں کو ان کی مادری زبان اور ثقافت کو اپنانے کی اجازت دی جانی چاہئے۔میرے لئے خوشی کی بات ہے کہ میرا پہلا ناول الیاس گھمن نے شائع کیا تھا۔ہر انسان کے اندر رو ح ہوتی ہے جو بھٹک جاتی ہے جسے ادب کے راستے ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ میں بھی پنجابی میں لکھ کر اپنی روح کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔
پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے سرگرم رہنما الیاس گھمن نے کہا ،
مدثر اقبال بٹ جس طرح پنجابی کی خدمت کر رہے ہیں ،وہ قابلِ فخر ہے ۔پنجاب ہاؤس میں اسٹوڈیو کا فنکشنل ہونا اور پنجابی چینل کی طرف پیشقدمی انتہائی خوشی کی بات ہے کہ اب ہم پنجابی کی بات پوری دنیا میں کر سکیں گے جس کے لئے کبھی دوسروں کے مرہون منت تھے۔ کوئی اگر پڑھنا چاہے تو پنجابی میں کثیر تعداد میں کتب موجود ہیں اور لکھی بھی جارہی ہیں جس میں بابافرید بک فاؤنڈیشن کا بڑااہم کردار ہے۔
انہوں نے کہا ،
میرے لئے یہ فخر کی بات ہے کہ زاہد حسن کا پہلا ناول میں نے شائع کیا اور اسے پنجابی میں لکھنے کی طرف بھی میں ہی لے کر آیا۔تجربات کو جذبات میں بہہ کر لکھیں تو اچھا ادب تخلیق نہیں ہوتا۔ زاہد حسن کا کمال ہی یہ ہے کہ اس نے تجربات کو قدم قدم پر نیا رنگ دیا ہے، اس نے اپنی ماں کو اس دھرتی کی ماں بنا دیا ہے ۔اس نے بڑی خوبصورتی سےبیان کیا ہے کہ اللہ نے پیدا کرنے کا اپنا وصف کس طرح ایک ماں کو دیا ہے اور جنت اس کے پاؤں تلے رکھ دی ہے۔یہ ناول صرف ماں پر ہی نہیں بلکہ بیٹے کے کردار کا احاطہ بھی کرتا ہے۔ ایک عام صحافی اور ناول نگار میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ماں کو آسان لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا لیکن زاہد حسن نے یہ ناول کچھ یوں لکھا ہے کہ پڑھنے والے کے ذہن میں ماں کا تصور اجاگر ہوجاتا ہے اور اس کے ذہن پر ماں کے ان گنت نقوش چھوڑ جاتا ہے ۔میرے لئے انتہائی خوشی کی بات ہے کہ آج زاہد حسن بہت بڑا مصنف بن گیا ہے۔
تقریب کے دوران ڈاکٹر ضیاء الحسن اور ڈاکٹر اشوک کمار کو پنجاب کی پہچان پگ پہنائی گئی اور میزبان مدثر اقبال بٹ کی جانب سے ڈاکٹر اشوک کمار کوکتاب کلیاتِ منظور جھلا پیش کی گئی ۔تقریب میں ڈاکٹر اشوک کمار نے زاہد حسن کے پنجابی ناول کہانی اک ماں دی کا سندھی زبان میں ترجمہ کرنے کا اعلان کیا اور میزبان مدثر اقبال بٹ نے اس ترجمے کو بابا فرید بک فاؤنڈیشن کی جانب سے شائع کرنے کی پیشکش کرکے ایک نئی روایت کا آغاز کیا۔
تقریب کے اختتام پر حاضرین کی پرتکلف افطار ڈنر سے تواضع کی گئی جب کہ میزبان مدثر اقبال بٹ نے مہمانوں کا فرداً فرداً شکریہ ادا کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں