148

2020: آتشزدگی کے 2 ہزار سے زائد واقعات رونما ہوئے

کراچی: سال 2020 کے دوران شہر بھر میں آتشزدگی کے دو ہزار سے زائد واقعات رونما ہوئے ،24 فائر اسٹیشنوں میں سب سے زیادہ واقعات 247 صدر فائر اسٹیشن پر رپورٹ ہوئے جبکہ اس کے بعد سہراب گوٹھ (گلستان مصطفی) میں217 اور ناظم آباد میں 211 کالز موصول ہوئیں، آگ لگنے کے سب سے زیادہ واقعات 260 ماہ فروری جبکہ سب سے کم ماہ مئی میں 115 پیش آئے۔

تفصیلات کے مطابق سال 2020 کے دوران شہر بھر میں آتشزدگی کے دو ہزار سے زائد واقعات رونما ہوئے ، سال کے پہلے مہینے جنوری میں 246 واقعات رونماہوئے ، پورے سال کے دوران سب سے زیادہ ماہ فروری میں آتشزدگی کے 260 واقعات ہوئے ، مارچ میں 210 ، اپریل میں 119 ، مئی میں115 مرتبہ شہر کے مختلف مقامات پر آگ لگی ، جون میں177 ، جولائی میں 159 ، اگست میں 132 ،ستمبر میں 124 مرتبہ فائر بریگیڈ کو طلب کیا گیا ، اکتوبر میں 228 ، نومبر میں 212 جبکہ دسمبر میں140آگ لگنے کے واقعات پیش آئے۔

شہر بھر میں فائر بریگیڈ کے 24 اسٹیشن ہیں جن میں سال 2020 کے دوران سب سے زیادہ صدر فائر اسٹیشن میں 247 آگ کے واقعات رپورٹ ہوئے ، سینٹرل فائر اسٹیشن پر 175 ، ناظم آباد فائر اسٹیشن میں 211 ، لیاری فائر اسٹیشن میں 128 جبکہ سائٹ فائر اسٹیشن پر 199 کالز موصول ہوئیں ، کورنگی فائر اسٹیشن پر 151 ، لانڈھی فائر اسٹیشن پر 124 ، سہراب گوٹھ (گلستان مصطفی) فائر اسٹیشن پر 217 جبکہ اورنگی ٹاؤن فائر اسٹیشن پر 39 مرتبہ آگ لگنے سے آگاہ کیا گیا۔

شاہ فیصل کالونی فائر اسٹیشن پر 48 ، منظور کالونی فائر اسٹیشن پر 101 ، نارتھ کراچی فائر اسٹیشن پر 155 ، بلدیہ ٹاؤن فائر اسٹیشن پر 4 جبکہ بولٹن مارکیٹ فائر اسٹیشن پر یہ تعداد 71 رہی ،  گلستان جوہر فائر اسٹیشن پر 74 ، بھینس کالونی فائر اسٹیشن میں 4 ، سوک سینٹر فائر اسٹیشن 42 ، ملیر فائر اسٹیشن میں 12 ، گلشن اقبال فائر اسٹیشن میں 73 جبکہ سائٹ سپر ہائی وے ٹو فائر اسٹیشن میں 38 مرتبہ آگ لگنے کی اطلاعات موصول ہوئیں ، پوراسال سائٹ سپر ہائی وے ون ، گلشن معمار ، نیو ٹرک اسٹینڈ اور ہاکس بے اسٹیشنز پر آتشزدگی کے کوئی واقعات رونما نہیں ہوئے۔

کارخانوں اورگوداموں میں آگ بجھانادشوارہوتاہے

’’ فائر بریگیڈ دیر سے پہنچی اس لیے آگ بڑھ گئی ‘‘ یہ وہ جملہ ہے جو تقریباً ہر موقع پر ہی سننا پڑتا ہے لیکن کیا کبھی ’’ فیکٹری و کارخانوں کے مالکان اور دکانداروں نے اپنے کاروبار کی جگہ پر آگ سے بچاؤ کی تمام تر حفاظتی اقدامات کیے تھے ؟ ‘‘ یہ بات مختلف فائرفائٹرز نے ایکسپریس سے گفتگو میں کہی۔

انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم جہاں بھی آگ بجھانے کے لیے جاتے ہیںتووہاں سب سے پہلا جملہ جو ہماری سماعت سے ٹکراتا ہے وہ یہی ہوتا ہے کہ فائر بریگیڈ دیر سے پہنچی ہے اس لیے اتنی آگ بھڑک گئی لیکن جب ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ کیا انھیں فائر بریگیڈ کا رابطہ نمبر معلوم ہے تو وہاں موجود95  فیصد سے زائد افراد نفی میں جواب دیتے ہیں، ہمیں بتایا جاتا ہے کہ 2گھنٹے سے آگ لگی ہوئی ہے آپ اب پہنچے ہیںتوہمارا جواب بہت سیدھا سادہ سا ہوتاہے کہ جب ہمیں اطلاع ملے گی تب ہی آئیں گے۔

فائر فائٹرز نے مزید بتایا کہ خصوصی طور پر انڈسٹریل آگ (فیکٹریوں میں آتشزدگی کے واقعات) جب بھی لگتی ہے تو اس میں بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتاہے سب سے پہلے توبلڈنگ کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ جہاں آسانی سے فائربریگیڈ کی گاڑی نہیں پہنچ پاتی اوراگرگاڑی اندر چلی بھی جائے تو آگ کے مقام تک رسائی انتہائی سخت جدوجہدکے بعدہی ملتی ہے، بیشتر واقعات میں یا تو برابروالی بلڈنگ سے پانی پھینکنا پڑتا ہے اور یا پھر آخری چارہ کار کے طور پر دیواریں توڑنی پڑتی ہیں بعض عمارتوں میں کوریڈور تنگ ہوتے ہیں۔

اگرکشادہ بھی ہوں تو ان میں سامان اتنا رکھا ہوتا ہے کہ وہاں سے گزرناآسان نہیں ہوتا چند برس قبل ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں آگ لگی لیکن اس میں داخل ہونے کا راستہ انتہائی تنگ تھا جس کی وجہ سے فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کی آمدورفت اور انھیں پانی پہنچانے والے ٹینکروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، ہوٹل کے اندر بھی آگ بجھانا اتنا آسان نہیں رہا تھا ، عمارتوں میں ایمرجنسی ایگزٹ (ہنگامی اخراج) عموماً نہیں ہوتے اگر ہوتے بھی ہیں تو ملازمین کو معلوم ہی نہیں ہوتا ، فائر فائٹرزآگ بجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی دروازے سے سامنے سے ملازمین بھاگ رہے ہوتے ہیں۔

فائر فائٹرز نے مزید بتایا کہ اسی قسم کا حال کارخانوں ، گوداموں اور دکانوں میں ہوتا ہے ، نہ وہاں حفاظتی اقدامات کے تحت سلنڈر نصب ہوتا ہے اور اگر ہوتا بھی ہے تو اسے آپریٹ کرنا کسی کو نہیں آتا ، فائر فائٹرزکا کہنا ہے کہ انھیں بھی فیلڈمیں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے  ، شہری اگر ان کی ہمت کو داد نہیں دے سکتے تو کم از کم انھیں طنز کا نشانہ بھی نہیں بنایا کریں۔

نومبرمیں سب سے زیادہ 33 فیکٹریوں کوآگ لگی

پورے سال کے دوران شہر بھر میں فیکٹریوں میں آگ لگنے کے تقریباً 200 واقعات پیش آئے ، سب سے زیادہ 33 فیکٹریاں ماہ نومبر میں آگ کی لپیٹ میں آئیں ، فائر بریگیڈ کے ریکارڈ کے مطابق ماہ جنوری میں 20 فیکٹریوں میں آگ لگی ، ماہ فروری میں 26 جبکہ مارچ میں 21 فیکٹریاں آگ کی زد میں آئیں۔

اپریل میں 12 جبکہ مئی میں سال کے سب سے کم ترین واقعات محض 5 ہی پیش آئے ، جون میں 10 مرتبہ فیکٹریوں میں آتشزدگی ہوئی جبکہ جولائی میں یہ تعداد 14 رہی ، اگست میں 11 ، ستمبر میں 14 اور اکتوبر میں 26 فیکٹریوں میںآگ لگنے کے واقعات رونما ہوئے ، سال 2020 کے دوران سب سے زیادہ نومبر میں 33 فیکٹریاں آگ کی لپیٹ میں آئیں ،ماہ دسمبر میں140فیکٹریاں آگ کی نذر ہوئیں۔

رواں سال تیسرے درجے کی آتشزدگی کے5 واقعات ہوئے

سال 2020 کے دوران شہر بھر میں تیسرے درجے کی آگ لگنے کے 5 واقعات پیش آئے جس میں سے 4 مرتبہ سائٹ ایریا میں آگ لگی ، تفصیلات کے مطابق سال 2020 کے دوران شہر بھر میں جہاں دو ہزار سے زائد ااتشزدگی کے واقعات رونما ہوئے تو وہیں 5 واقعات ایسے بھی ہوئے جس میں آگ کو تیسرے درجے کی قرار دیاگیا۔

تیسرے درجے کی آگ کا مطلب ایسی خوفناک آگ ہے جوکنٹرول سے باہر ہوجائے ، اس پر قابو پانے کے لیے فائر بریگیڈ کامحکمہ اپنی تمام تر توانائی صرف کرتا ہے اور شہر بھر کے فائر ٹینڈرز طلب کرلیے جاتے ہیں ، ایسا پہلا واقعہ 11 جون کو سائٹ ایریا میں پیش آیا جس میں ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں آگ لگی ، آگ اتنی شدید تھی کہ فائر بریگیڈ نے کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) اور پاک بحریہ کو بھی اپنی مدد کے لیے طلب کیا ، عمارت کی چھٹی اور ساتویں منزل مکمل طور پر خاکستر ہوگئی تھی جبکہ عمارت میں دراڑیں بھی پڑگئی تھیں۔

دوسرا واقعہ 19 جولائی کو لانڈھی ایکسپورٹ پروسیسنگ زون میں پیش آیا ، پیکجنگ فیکٹری میں لگنے والی آگ نے متصل دو فیکٹریوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ، تیسرے درجے کی آگ سال 2020 میں تیسری مرتبہ 6 اکتوبر کو ایک مرتبہ پھر سائٹ ایریا کی ایک فیکٹری میں لگی ، اگلے ہی دن ایک مرتبہ پھر شہر میں تیسرے درجے کی آگ رپورٹ ہوئی جوسائٹ ایریا میں واقع ایک فیکٹری میں ہی لگی۔

محض دس روز بعد ہی 17 اکتوبر کو سائٹ ایریا میں واقع رنگ (پینٹ) بنانے والی فیکٹری میں آگ لگی جوفائر بریگیڈ کی جانب سے تیسرے درجے کی قرار دی گئی ،سیمنز چورنگی کے قریب قائم فیکٹری میں وقفے وقفے سے کیمیکل کے ڈرم بھی پھٹتے رہے جس سے دھماکوں کی آوازیں دور دور تک سنی گئیں ، واقعے میں فائر بریگیڈ نے دیگر اداروں کی مدد بھی حاصل کی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں