90

انگلینڈ ٹیم کا 17 سال بعد تاریخی دورہ

رضوان اصغر بٹ
تین مارچ دوہزار نوکو لاہور میںسری لنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ پر پابندی کے لگنے سے شائقین کرکٹ انٹرنیشنل کھلاڑیوں کو اپنے ملک میں کھیلتا دیکھنے کے لیے ترس گئے تھے۔ اس سانحہ سے اگلے دس سال پاکستان کے کرکٹ گرائونڈز انٹرنیشنل ٹیمز کے دوروں سے محروم رہے۔ دوہزار پندرہ میں پاکستان سپر لیگ کا آغاز ہوا تو اس کے لیے بھی متحدۂ عرب امارات کے میدانوں کا انتخاب کیا گیا اور پہلے دونوں سیزنز مکمل طور پر یو اے ای میں کھیلے گئے۔ پی ایس ایل سیزن تھری دو ہزار سترہ کا فائنل میچ لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں منعقد ہونا تھا جس میں کھیلنے سے متعدد انٹرنیشنل کھلاڑیوں نے معذرت کر لی تھی۔ دوہزار اٹھارہ میں پی ایس ایل کے چوتھے سیزن کا پلے آف مرحلہ پاکستان میں کھیلا گیا جس میں انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی پچھلے سا ل سے کچھ زیادہ تعداد پاکستان آ کر کھیلی۔ اسی طرح دو ہزار انیس میں پانچویں سیزن کے آخری آٹھ میچز پاکستان میں کھیلے گئے اور پھر وہ گھڑی آن پہنچی جس کا سب کو انتظار تھا کہ پی ایس ایل کے چھٹے سیزن دو ہزار بیس کو مکمل طور پر پاکستان میں آرگنائز کرنے کا اعلان کیا گیا اور نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور انگلینڈ سمیت انٹرنیشنل کھلاڑیوں نے پاکستان آکر شائقینِ کرکٹ کے دل جیتے۔
اس سے پہلے سائوتھ افریقہ کے کپتان فاف ڈوپلیسی کی قیادت میں ورلڈ الیون نے ستمبردو ہزار سترہ میں پاکستان کا دورہ کیا جس میں تین میچز کی ٹی ٹونٹی سیریز کا انعقاد کیا گیا۔ دوہزار اٹھارہ میں ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا جس کے بعد سری لنکا نے پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے دس سال بعد دوہزار انیس میں پاکستان کا دورہ کیا، جس کی وجہ سے پاکستان میں سکیورٹی خطرات کا بھارتی پراپیگنڈہ دم توڑ گیا۔اب پچھلے تین برسوں میں بنگلہ دیش، سائوتھ افریقہ ، ویسٹ انڈیز اور سری لنکن ٹیمیں پاکستان میں ٹی ٹونٹی، ون ڈے اور ٹیسٹ میچز کھیل چکی ہیں ۔ رواں سال آسٹریلین ٹیم تقریباََ چوبیس سال بعد پاکستانی گرائونڈز پر اِن ایکشن ہوئی تو اِسے کرکٹ پنڈتوںنے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی مکمل بحالی کی نوید قرار دیا۔اس دورے میں ٹیسٹ اور ٹی ٹونٹی سیریز آسٹریلیا کے نام رہیں اور ون ڈے سیریز میں پاکستان کا پلڑا بھاری رہا۔
اب پاکستانی شائقین کرکٹ کے لیے ایک اور خوشی کا موقع ہے کہ برطانوی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ سے پہلے سات ٹی ٹونٹی میچوں پر مشتمل سیریز کھیلنے پاکستان پہنچ چکی ہے۔ سیریز کا پہلا میچ بیس ستمبر شام ست بج کر تیس منٹ پر نیشنل کرکٹ سٹیڈیم کراچی جب کہ آخری میچ دو اکتوبر کو قذافی کرکٹ سٹیڈیم لاہور میں کھیلا جائے گا۔ گو کہ انگلش ٹیم کا طویل عرصہ بعد یہ پاکستان کا پہلا دورہ ہے لیکن انگلینڈ سکواڈ میں شامل بیس میں سے گیارہ کھلاڑی پی ایس ایل میں مختلف فرنچائزز کی جانب سے پاکستان کے گرائونڈز میں کھیل چکے ہیں۔ڈیوڈ ملان اور فِل سالٹ انگلینڈ ٹیم میں ڈیبیو کرنے سے بھی پہلے پاکستان سپر لیگ کا حصہ بنے تھے۔ رواں سال ہونے والے پی ایس ایل کے آٹھویںسیزن کی چیمپئن لاہور قلندرز کی فائنل میچ میں فتح میں فل سالٹ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کے علاوہ ایلکس ہیلز، لیام ڈاسن، نائب کپتان معین علی، ہیری برُوک، لیوک ووڈ، ڈیوڈ وِلی، وِل جیکس، رِیس ٹاپلی اور بین ڈکٹ بھی مختلف فرنچائزز کے لیے پاکستان سپر لیگ کا حصہ رہ چکے ہیں۔
پاکستان آمد کے بعد انگلش کپتان جاس بٹلر کا پریس کانفرنس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہنا تھا،’’ اس طویل عرصہ کے بعد پاکستان کی سرزمین پر آنا ایک خوشگوار لمحہ ہے۔ ہمارے کافی کھلاڑی اس سے پہلے پی ایس ایل میں کھیل چکے ہیں اور انہوں نے پاکستان کے بارے میں اپنے مثبت تجربات بھی ہم سے شیئرکئے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان میں عوام کرکٹ کے غیرمعمولی طور پر دلدادہ ہیں۔‘‘
پاکستانی سکواڈ کی بات کی جائے تو پندرہ ستمبر کو چیف سلیکٹر نے انگلینڈ سیریز اور ٹی ٹونٹی ورلڈکپ دوہزار بائیس کے لیے دو سے تین تبدیلیوں کے علاوہ تقریباََایک جیسے سکواڈ کا ہی اعلان کیا۔ ایشا کپ میں درمیانے درجے کی بیٹنگ پرفارمنس کے بعد ٹاپ آرڈر میں شان مسعود کی شمولیت ایک خوش آئند بات ہے جبکہ بائولنگ میں ہمارے سب سے قابلِ اعتماد گیند باز شاہین آفریدی انجری کے باعث انگلینڈ سیریز کا حصہ نہیں ہوں گے لیکن ورلڈ کپ سکواڈ میں ان کا نام شامل ہے۔ مڈل آرڈر میں افتخار احمد، خوشدل شاہ اور آصف علی پر سیلیکٹرز کا بھروسہ برقرار ہے اور چیف سلیکٹر کا کہنا تھا کہ ہم جن کھلاڑیوں پر انویسٹ کرتے آئے ہیں انہی کو ورلڈ کپ میں بھی موقع دیں گے اور مجھے امید ہے یہ کھلاڑی ہمیں مایوس نہیں کریں گے۔ انگلینڈ سیریز میں دو نئے چہرے آل رائونڈر عامر جمال اور بائولر ابرار احمد کو بھی پہلی بار سکواڈ کا حصہ بنایا گیا ہے جنہیں شاید پاکستانی ٹیم کی پہلے کچھ میچز میں اچھی پرفارمنس سے سیریز پر گرفت مضبوط ہونے کے بعد ڈیبیو کا موقع مل سکتا ہے۔بائولنگ اٹیک میں شاہین شاہ کی غیر موجودگی کی وجہ سے نسیم شاہ، حارث رئوف اور حسنین پہلی تین آپشنز ہوں گے۔
پاکستانی پلئینگ الیون کی بات کی جائے تو ایشیا کپ فائنل میں کھیلنے والی ٹیم میں سے فخر زمان انجری کے باعث موجود نہیں جن کی جگہ شان مسعود کو پلئینگ الیون کا حصہ بنایا جائے گا جبکہ باقی دس کھلاڑی ممکنہ طور پر وہی بابر اعظم(کپتان)، محمد رضوان (وکٹ کیپر)، افتخا ر احمد، خوشدل شاہ، محمد نواز، شاداب خان، آصف علی، حارث رئوف، نسیم شاہ اور محمد حسنین ہوں گے۔ ٹاپ آرڈر میں اوپنرز محمد رضوان اور بابر اعظم کی کارکردگی پچھلے دو سالوں میں بے مثال رہی ہے۔ مسلسل اتنے رنز سکور کرنا کسی بھی بلے باز کے لیے آسان نہیں ہوتا لیکن بابر اعظم اور محمد رضوان نے ثابت کیا ہے کہ اس وقت وہ دنیائے کرکٹ کی سب سے بہترین اوپننگ جوڑی ہیں۔ ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل رینکنگز میں محمد رضوان پہلے جب کہ بابر اعظم تیسرے نمبر پر ہیں۔ ایشیا کپ سے پہلے بابر اعظم مسلسل ایک ہزار پچاس سے زائد دن ٹی ٹونٹی رینکنگز میں نمبر وَن رہنے والے بلے باز کا ریکارڈ اپنے نام کر چکے تھے لیکن ایشیا کپ کے چھے میچوں میں ایک بھی تھرٹی پلس سکور نہ کرنے کے باعث وہ اپنی پہلی پوزیشن سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ایشیا کپ میں سب سے زیادہ رنز سکور کرنے والے محمد رضوان پہلی پوزیشن پر براجمان ہو گئے۔
ایشیا کپ میں بابر اعظم کی ناقص بلے بازی کے باعث پاکستانی شائقین افسردہ ہونے کے ساتھ ساتھ غصہ بھی کر رہے ہیں اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ بابر یا رضوان کو اوپنر کی بجائے تیسرے نمبر پر بھیجا جائے کیوں کے دونوں اوپنرز کا سٹرائیک ریٹ کم ہونے کی وجہ سے ٹیم کو نقصان ہو رہا ہے۔ اسی طرح کا ایک سوال چیف سلیکٹر محمد وسیم سے پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ آپ ورلڈ کرکٹ کی سب سے بہترین جوڑی کو توڑنے کی بات سوچ بھی کیسے سکتے ہیں؟ ٹیم مینجمنٹ اور سلیکٹرز کے اس اعتماد کو بابر اعظم اور محمد رضوان زیادہ سٹرائیک ریٹ کے ساتھ بیٹنگ کر کے صرف اپنے بلے سے ہی درست ثابت کر سکتے ہیں۔ورلڈ کپ میں جانے سے پہلے کپتان بابر اعظم کا فارم میں واپس آنا اشد ضروری ہے جب کہ محمد رضوان کی جگہ نوجوان کھلاڑی محمد حارث کو موقع دیا جا سکتا ہے۔ شان مسعود تیسرے نمبر پر بہتر کارکردگی دیں گے تو مڈ ل آرڈر پر پریشر میں کمی آئے گی جس سے اُن کی پرفارمنس بہتر ہونے کے چانسز موجود ہیں۔ گو کہ مِڈل آرڈر میں شعیب ملک جیسے ایک بلے باز کی اشد ضرورت تھی جو مشکل پڑنے پر وِکٹ روک سکے اور ضرورت پڑنے پر ہارڈ ہِٹنگ بھی کر سکے۔مڈل آرڈر پر بہت سے تحفظات کے باوجود امید کی جاتی ہے کہ اس ٹیم میں اتنی صلاحیت ہے کہ یہ کسی بھی بڑی ٹیم کو دھول چٹا سکتے ہیں۔ پچھلے تین سالوں کی طرح اوپنرز اور نمبر تین بیٹر کی کارکردگی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ امید ہے پاکستانی ٹیم انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹونٹی سیریز جیتنے کے ساتھ ساتھ ورلڈ کپ میں بھی بہترین کارکردگی دکھائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں