145

اسلام آباد: ہائیکورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت

اسلام آباد: ہائیکورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت عدالت نے ڈائریکٹر جنرل انٹیلجنس بیوروکی سرزنش کردی۔ کہا کہ آپ کیسے انٹیلی جنس سربراہ ہیں؟ آپ کو وہ بات بھی معلوم نہیں جو عام آدمی بھی جانتا ہے۔ راجہ ظفر الحق کمیٹی رپورٹ پیشنہ کرنے پرعدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بارہ فروری تک رپورٹ طلب کرلی۔ ریمارکس دیے کہ دھرنامظاہرین سے معاہدے میں آرمی چیف کا نام کیوں استعمال ہوا؟عام تاثر یہ ہے کہ حکومت اور دفاع کے آپس میں اختلافات ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے کی۔ آئی جی، چیف کمشنر، اور ڈی جی آئی بی عدالت میں پیش ہوئے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکرٹری دفاع، داخلہ اور سیکرٹری قانون کو رپورٹ سمیت طلب کر رکھا تھا۔ راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ پیش نہ کرنے پر شدید برہمی کااظہارکرتے ہوئے سیکرٹری دفاع کو دوبارہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔ ریمارکس دیے کہ رپورٹ میں بتائیں دھرنا مظاہرین سے معاہدے میں آرمی چیف کا نام کیوں استعمال ہوا؟۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دھرنے کے حوالے سے ریمارکس دیے کہ موصوف نے فیض آباد میں بیٹھ کر عدلیہ کی تضحیک کی،چیف جسٹس پاکستان کا نام لے کر بکواس کی۔ آپ بس راضی نامہ کر کے بیٹھ گئے کہ جنرل صاحب نے دستخط کر دیے۔ ہمارے وزیر خارجہ وزیر داخلہ کی کی ذمہ داریاں ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی نے کہا کہ راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ پر ایک ممبر کے دستخط نہیں عام تاثر یہ ہے کہ حکومت اور دفاع کے آپس میں اختلافات ہیں۔ جسٹس شوکت نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے کو کارپٹ کے نیچے دبانے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔

ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو وائرل آڈیو ریکارڈنگ سے متعلق رپورٹ پیش نہ کرسکے جس پرعدالت نے سرزنش کرتے ہوئے 12 فروری تک رپورٹ طلب کرلی۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے استفسار کیا کہ ڈی جی آئی بی سے رپورٹ مانگی تھی کہ بتائیں کہ وائرل آڈیو کس کی تھی؟ ڈی جی آئی بی نے عدالت کو بتایا کہہ ہمارے پاس ایسے کوئی آلات نہیں جس سے یہ پتہ چلایا جا سکے۔ جسٹس شوکت نے استفسار کیا کہ پاکستان میں یہ سہولت کس ادارے کے پاس ہے جس پر ڈی جی آئی بی بولے کہ مجھے نہیں معلوم کسی اور کے متعلق بیان نہیں دے سکتا۔

جسٹس شوکت صدیقی نے ریمارکس دیے کہ آپ کیسے انٹیلی جنس سربراہ ہیں؟ آپ کو وہ بات بھی معلوم نہیں جو عام آدمی بھی جانتا ہے۔ اگر آپ کو یہ بات معلوم نہیں تو آپ کس بات کے انٹیلی جنس سربراہ ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ اہم شخصیات کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے کا کام کرتے ہیں؟ اگر کسی دہشتگرد کی آواز کا موازنہ کرانے کی ضرورت پیش آئے تو کیا کرتے ہیں؟

ڈی جی آئی بی نے کہا کہ حکم دیں کہ آئی بی کو آواز کا موازنہ کرنے کے جدید آلات لے کر دیے جائیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ قومی خزانے پر بوجھ محکمے کو بند کا حکم کیوں نہ دوں، آئی ایس آئی تو پہلے ہی چاہتی ہے کہ آئی بی کو ان کے ساتھ ضم کر دیا جائے۔ ڈی جی آئی بی نے محکمانہ دفاع کرتے ہوئے جواب دیا کہ آئی بی نے انسداد دہشتگردی کے معاملے پر اہم کردار ادا کیا۔

عدالت نے 12 فروری کو تحریری رپورٹ طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ رپورٹ میں بتائیں کہ آپ وائرل آڈیو کا پتہ کیوں نہیں چلا سکے، یہ بھی بتائیں کہ پاکستان میں یہ سہولت کس ادارے کے پاس ہے۔ ریمارکس دیے کہ رپورٹس جمع نہ کرانے کی صورت میں توہین عدالت کی کارروائی ہو گی۔

واضح رہے کہ ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم پر مذہبی جماعت نے نومبرمیں وفاقی دارالحکومت میں فیض آباد کے مقام پردھرنا دیا تھا جو 22 روز بعد وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ دینے اورایک معاہدے کے نتیجے میں ختم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں