22

عدلیہ سے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا جلد خاتمہ ہوگا، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ

راولپنڈی: چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس ملک شہزاد احمد نے کہا ہے کہ عدلیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت زیادہ ہے اس میں ادارے ملوث ہیں جن کا نام لینا مناسب نہیں عدلیہ جدوجہد کررہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا جلد خاتمہ ہوگا۔

راولپنڈی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے چیف جسٹس بنتے ہی فل کورٹ میٹنگ بلائی اور اس میں فیصلہ کیا کہ ہڑتال کلچر برداشت نہیں ہوگا، 13 مئی کو پنجاب کی عدلیہ کو سرکلر جاری کیا اور بتایا کہ ہڑتال کی کسی کال کو نہیں مانیں گے، ہڑتال کی کال ہو یا نہیں کام قانون کے مطابق کریں جس کے بعد پنجاب کے تمام وکلاء نے ہڑتال اور تالا بندی کے کلچر کو دفن کردیا، وکلاء کا یہ کام نہیں کہ عدالت کو تالا لگائیں کچھ سیاسی عناصر ہوتے ہیں ان سے درخواست ہے آپ لوگ وکالت چھوڑ دیں ہمیں کرنے دیں، ہم آپ کو بھرتی کرلیں گے شام کو تالا لگا لیجیے گا۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے 90 فیصد وکلا اچھے لوگ ہیں، صوبہ پنجاب میں دو لاکھ سے زائد کیسز دائر ہوئے اور فیصلہ تین لاکھ سے زائد کیسز کا فیصلہ ہوا جس کے سبب زیر التواء مقدمات میں واح کمی ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت زیادہ ہے اور مولوی تمیز الدین کیس سے یہ سلسلہ شروع ہوا اس میں ادارے ملوث ہیں جن کا نام لینا مناسب نہیں تاہم اس وقت عدلیہ بغیر دباؤ کے اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہے، ایک ڈسٹرکٹ جج نے اس مداخلت کا خط لکھا کہ میں ڈرتا نہیں اس جج نے کہا انصاف کروں گا کسی سے ناانصافی نہیں کروں گا جج کے ان الفاظ سے میرا خون ڈیڑھ کلو بڑھ گیا۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ ایسی بہت شکایات ہمارے پاس آئی ہیں ایک بار ڈسٹرکٹ جج نے کہا وہ ڈرتے نہیں صرف آگاہ کر رہے ہیں، آسمان والے کی ٓپ کو رہنمائی ملے گی آپ بلیک میلنگ کا شکار نہ ہوں، کوئی جج کسی بلیک میلنگ میں نہ آئے، اسٹیبلشمنٹ کی عدلیہ میں مداخلت کا جلد خاتمہ ہونے والا ہے یہ میرے ایمان کا حصہ ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ اللہ نے آپ کو اس کام کے لیے چنا ہے، ان لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کام کرنا ہے، کسی سے بھی ڈر نہیں ہونا چاہیے، جلد عدلیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی کا اختتام ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ چوہدری افتخار اکیلے تھے جنہوں نے ایک فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف جہاد کیا، سب لوگ کہتے تھے ایک بار جو جج گھر جائے واپس نہیں آتا مگر انہوں ںے واپس آکر دکھایا اس کا کریڈٹ وکلاء کو جاتا ہے اسی وجہ سے اب سول حکومت کا طویل دور گزر رہا ہے،اکتوبر 1958ء کے بعد کسی سول حکومت کا زیادہ دور نہیں گزرا مارشل لا کا راستہ ہمیشہ کے لیے روک دیا، مارشل لا کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام عدلیہ کو اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ مل کر کرنا ہے،  سول حکومت پر سوالات ہوسکتے ہیں مگر یہ مارشل لا نہیں ہے، ملک میں بہتری لانے کے لئے عوام ہم سے تعاون کریں، پارلیمنٹیرینز سیاست دان بہتری کے لئے ہم سے تعاون کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں