197

خون کا ٹیسٹ کرونا وائرس کی شدت کے بارے میں بتا سکتا ہے

کرونا وائرس کا شکار ہوجانے والے افراد میں قبل از وقت اس کی شدت کی پیشگوئی کرنا مشکل ہے اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پیماری کیا رخ اختیار کرے گی۔

حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق خون کے ٹیسٹوں کے ذریعے کرونا وائرس کی شدت کے بارے میں جاننا ممکن ہوسکتا ہے۔

ییل یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ خون کے ٹیسٹوں سے ایسے بائیو میکرز کی شناخت کی جاسکتی ہے جو خون کے خلیات کے متحرک ہونے اور موٹاپے سے منسلک ہوتے ہیں، جن سے کووڈ 19 کے مریضوں میں بیماری کی شدت کی پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔

طبی جریدے بلڈ ایڈوانسز میں شائع تحقیق میں شامل محقق ڈاکٹر ہیونگ چون نے بتایا کہ ان افراد میں یہ حیاتیاتی سگنلز کی سطح زیادہ ہوتی ہے، ان کا آئی سی یو میں داخلے، وینٹی لیٹر کی ضرورت یا موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

اس سے قبل بھی تحقیقی رپورٹس میں کووڈ 19 کی ممکنہ سنگین بیماری کی شناخت کے لیے ڈی ڈیمیر اور مدافعتی پروٹینز کی نشاندہی کی گئی تھی، تاہم اب تک ایسا کوئی ٹیسٹ تشکیل نہیں دیا جا سکا تھا جو کووڈ کے مریضوں میں بیماری کی شدت کی پیشگوئی کر سکے۔

اس تحقیق کے لیے محقین نے کووڈ کے 100 مریضوں کے خون میں متعدد پروٹینز کی اسکریننگ کرکے دیکھا کہ ان میں بیماری کی شدت کیا ہوسکتی ہے۔

تمام مریضوں کے خون کے نمونے اسپتال میں داخلے کے پہلے روز لیے گئے، جبکہ ییل نیو ہیون ہاسپٹل سسٹم میں زیر علاج 3 ہزار سے زائد مریضوں کے کلینیکل ڈیٹا کا تجزیہ بھی کیا گیا۔

انہوں نے دریافت کیا کہ 5 پروٹینز ریزیزٹن، لپوکالن 2، ایچ جی ایف، آئی ایل 8 اور جی سی ایس ایف خون کے سفید خلیات کی ایک قسم نیوتھرو فلز سے منسلک ہوتے ہیں، جن کی سطح کووڈ 19 سے سنگین حد تک بیمار ہونے والے افراد میں بڑھ جاتی ہے۔

ان میں سے بیشتر پروٹینز کو ماضی میں موٹاپے سے بھی جوڑا جاتا رہا ہے مگر کووڈ یا کسی وائرل بیماری سے تعلق پہلی بار سامنے آیا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ بائیو میکرز ایسے مریضوں میں بڑھ جاتے ہیں جن میں علامات بھی ظاہر نہ ہوں مگر بعد میں بیماری کی شدت سنگین ہوگئی، اسی طرح ان بائیو میکرز کی شرح ان افراد میں کم ہوتی ہے جن میں بیماری کی شدت معتدل رہتی ہے اور ان میں سے کسی کی موت بھی واقع نہیں ہوئی۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار ہے جب دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے خون میں موجود پروٹینز کی سطح سے بیماری کی شدت کی پیشگوئی کافی پہلے کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی پیشگوئی جلد کرنا مریض کے علاج میں زیادہ مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں