33

ٹیسٹ کیلئے زیادہ خون لینا، خون کی خطرناک حد تک کمی کا سبب ہوسکتا ہے

ایک 68 سالہ خاتون نمونیا  ہونے کے بعد اسپتال میں داخل ہوئیں۔ انہیں اینٹی بائیوٹکس ملتی رہی اور 2 دن کے بعد ان کی حالت بہتر ہونا شروع ہوگئی۔ جتنے دن وہ اسپتال میں داخل رہیں، روزانہ ٹیسٹ کیلئے وہ خون دیتی رہیں۔

اسپتال میں تیسرے دن وہ تھکاوٹ کی شکایت کرتی ہیں اور چوتھے دن لیبارٹری کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ہیموگلوبن اور ہیماٹوکریٹ کی سطح کافی گر گئی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ٹیسٹ کے نتائج درست ہیں، ٹیسٹ کو دہرانے کے لیے خاتون کا خون دوبارہ لیا گیا۔ پانچویں دن ان کا ہیموگلوبن لیول 7.0 g/dL تک آگیا جو کہ داخلے کے وقت ہیموگلوبن کی سطح سے 2 درجہ کم تھا۔

خاتون کو ٹرانسفیوژن دیا گیا۔ ساتویں دن مریضہ کا ہیموگلوبن لیول 8.5 g/dL پر مستحکم ہوگیا اور ڈاکٹر نے انہیں ڈسچارج کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈسچارج کی دن بھی ایک نرس خاتون کا خون نکالنے کیلئے آتی ہے جس پر مریضہ اس سے پوچھتی ہیں، “کیا یہ تمام ٹیسٹ واقعی ضروری تھے؟”۔

مذکورہ بالا کیس ایک عام واقعے کی تصویر کشی کرتا ہے۔ خاص طور پر نازک نگہداشت میں مریضوں سے خون کی خاصی مقدار لی جاتی ہے۔ مرض سے متعلق ڈاکٹروں کی طبی کم علمی یا ناتجربہ کاری زیادہ لیبارٹری ٹیسٹنگ کی محرک ہوتی ہے۔ ان میں سے اکثر ٹیسٹ غیر ضروری ہوتے ہیں اور مزید ٹیسٹوں کا سبب بنتے ہیں جن سے مریض کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ ہیموگلوبن اور ہیماٹوکریٹ کی سطح گرسکتی ہے۔

دوسری جانب اسپتال کا عملہ جب ٹیسٹنگ کیلئے مریض سے کہیں خون لیتا ہے تو اسکے رہنما اصولوں پر کاربند رہنا ضروری ہے۔ ٹیسٹوں کے ہر سیٹ کے لیے عام طور پر 50 سے 60 ملی لیٹر خون نکالا جاتا ہے اور اسکے بعد بھی ٹیسٹوں کو دُہرانے کیلئے اتنا ہی خون نکالا جاتا ہے جبکہ زیادہ تر لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے تقریباً 3 ملی لیٹر خون کافی ہوتا ہے اور اس مقدار میں ٹیسٹ کو دوبارہ بھی دُرایا جاسکتا ہے۔

خون کی مقدار اور طبی معائنے یا علاج کے نتیجے میں خون کی کمی کے درمیان تعلق کو پہلی بار 2005 میں بیان کیا گیا تھا، جب یہ پایا گیا تھا کہ بالغ مریضوں میں سے نکالے جانے والا خون ہیموگلوبن اور ہیماٹوکریٹ کی سطح سے متناسب ہے۔ یعنی ہر 100 ملی لیٹر خون لیے جانے سے جسم میں ہیموگلوبن کی سطح میں اوسطاً 0.7g/dl کی کمی واقع ہوتی ہے۔

اسپتالوں میں مریضوں کے اوسطاً داخلے پر کی گئی ایک تحقیق میں یہ بھی پایا گیا ہے کہ 65 فیصد مریضوں میں روزمرہ ٹیسٹ کے معمولات کی وجہ سے ہیموگلوبن میں 1.0g/dl  یا اس سے زیادہ کی کمی اور مجموعی طور پر 49 فیصد خون کی کمی ہوتی ہے۔

کیٹاگری میں : صحت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں