388

ای کامرس کے معروف ماہر مستنصر حیات چیمہ سے بات چیت

میگزین رپورٹ

موجودہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے۔ وہی لوگ اور ملک ترقی کریں گے جو وقت کی رفتار کے ساتھ چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے جہاں معاشروں کو بدل کر رکھ دیا ہے وہیں کاروبار کرنے کے طریقے بھی بدل چکے ہیں۔ گرائونڈ پر منڈیوں کا متبادل اب آن لائن منڈیاں بن رہی ہیں۔ ہر طرح کا کاروبار آن لائن ہو رہا ہے۔ یہ کیسے ہوتا ہے اور اس سے کیا کیا فائدے حاصل ہو سکتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے پاکستان کے کامیاب ترین ای کامرس کے ماہر مستنصر حیات چیمہ سے بات چیت کی اور ان سے پوچھا کہ وہ کیا وجوہ ہیں جن کے باعث ای کامرس ہی بہتر مستقبل کی ضمانت ہے۔ ان سے ہونے والی گفتگو قارئین کی دلچسپی کے مدِنظر پیشِ خدمت ہے:
سوال: آپ پیکنگ کے شعبہ سے منسلک تھے پھر اپنا کاروبار تبدیل کرنے کا خیال اور اس میں کامیاب ہونا، یہ سب کس طرح ممکن ہوا؟
جواب: یہ بات درست ہے کہ میں نے پیکنگ مین کے طور پر کام شروع کیا۔ ان دنوں میں برطانیہ میں مقیم تھا لیکن میری سوچ ہمیشہ سے یہی تھی کہ میں کچھ مختلف کروں۔ ایمازون کے ساتھ پیکر کے طور پر کام کرتے ہوئے میں نے آن لائن کاروبار کی جزیات کو جانا اور پرکھا۔ میں یہ بھی سوچتا تھا کہ اس کاروبار کو بڑھایا کیسے جا سکتا ہے۔ یہ ساری سٹڈی میں اپنے طور پر کرتا رہا، میرا کام یہ نہیں تھا۔ میں نے یو کے کی مارکیٹس پر نظر رکھی۔ کیا فروخت ہو رہا ہے اور مستقبل میں کس چیز کی زیادہ طلب ہو گی؟ میں نے کاروباری اتارچڑھائو کا بغور جائزہ لیا۔ تھیوری میری اپنی تھی پریکٹیکل کام کمپنی میں تھوڑا بہت کر رہا تھا۔ میں نے کمپنی کو پیشکش کی کہ میں ایمازون پر آپ کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے حیرانی کا اظہار کیا کہ آپ پر کیسے بھروسہ کریں اور کیسے آپ کو کام کرنے کی اجازت دے دیں جب کہ آپ کا کوئی تجربہ بھی نہیں ہے۔ میں نے انہیں نقصان کی ذمہ داری لینے اور منافع میں سے حصہ دینے کی شرط پر راضی کر لیا۔
سوال: آپ کا یہ دعوی کرنا غیرمعمولی نہیں تھا اور آپ پھنس بھی تو سکتے تھے؟
جواب: بالکل نہیں۔ میں نے مارکیٹ کا اچھے سے مطالعہ کر لیا تھا مجھے معلوم تھا کہ مارکیٹ کا رجحان کس طرف جا رہا ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ میں جو کہہ رہا ہوں، وہ میں کر کے دکھائوں گا اور وہی ہوا، میں نے کمپنی کی سیل میں ایک ملین ڈالر کا اضافہ کر دیا اور وہ بھی ایک ایسے فورم پر جہاں ان کا وجود ہی نہیں تھا وہاں سے ان کو اتنی سیل ملی تو ظاہر ہے، وہ خوش ہوئے۔ اللہ نے میری عزت رکھی اور میرے اعتماد میں بھی اضافہ ہوا۔
سوال: برطانیہ سے پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کیوں کیا؟
جواب: برطانیہ میں کام کرنے کے اخراجات بہت زیادہ تھے جن کو کم کرنے کے لیے سوچ بچار کی تو مجھ پر یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ پاکستان میں عملے کو بھرتی کر کے کام کرنا برطانیہ کی نسبت بہت زیادہ کم خرچ ہے، اس لیے پاکستان میں رہ کر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔
سوال: پاکستان میں آپ نے نوجوانوں کو اپنی جیب سے خرچ کر کے تربیت دی یہ کیا معاملہ ہے؟
جواب: برطانیہ سے میں نے بہت کچھ سیکھا اور پیسہ بھی کمایا چناں چہ جب میں اپنے تجربے کے ساتھ اپنے ملک میں واپس آیا تو میں چاہتا تھا کہ یہاں بھی لوگ اس موقع سے فائدے حاصل کریں۔ میں نے شروع سے اپنے گائوں کے لوگوں میں خدمت کرنے کے جذبے کا مشاہدہ کیا تھا۔ میں نے گائوں میں مہم چلائی کہ پیسے کمانے کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں۔ لوگوں نے شروع میں میری بات پر توجہ نہیں دی مگر آہستہ آہستہ انہیں اندازہ ہوا کہ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ میرے تربیت یافتہ لڑکوں نے لاکھوں روپے کمانا شروع کر دیے تو پھر میرے سے سیکھنے کے لیے آنے والوں کی تعداد بھی بڑھ گئی۔
سوال: کیا گائوں والوں کو آپ کے آئیڈیاز پر یقین نہیں تھا؟
جواب: دیہات میں لوگ ٹیکنالوجی کو اپناتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ وہ نوکری اور ہاتھ سے کی گئی مزدوری کے علاوہ کسی ڈیوائس کے اسعتمال سے پیسے کمانے کے تصور کو سمجھنے سے قاصر تھے، اس لیے انہیں میری بات سمجھ میں نہیں آ رہی تھی مگر جب ان کے اپنے بچوں نے لاکھوں روپے کمائے تو پھر انہیں سمجھ آ گئی۔ ان کا یقین نہ کرنا فطری بات تھی۔
سوال: آن لائن کام کر کے منافع ہوگا، اس کی کیا ضمانت ہے؟
جواب: ضمانت وہی دے سکتا ہے جس کو کام کی مکمل سمجھ بوجھ ہو۔ منافع کا تعلق دو چیزوں سے ہے۔ ایک یہ کہ آپ جب پراڈکٹ خریدیں تو اس کی لاگت کم سے کم ہو تاکہ آپ کو زیادہ سے زیادہ حاصل ہو۔ برطانیہ میں چیزیں مہنگی تھیں۔ آپ مہنگی چیزیں خرید کر بیچیں گے تو منافع پر اثر پڑے گا۔ منافع کم ہو جائے گا۔ دوسری چیز یہ ہوتی ہے کہ آپ کی کمپنی چلانے کی جو لاگت ہے وہ بھی کم سے کم ہو۔ ان دو فیکٹرز پر کام کیا جائے تو زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جا سکتا ہے۔
سوال: پراڈکٹ کو کم قیمت پر کیسے خریدا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے آپ کا تجربہ کیسا رہا؟
جواب: میں نے جب اس شعبہ میں کام شروع کیا تو اس کے لیے چین کا رخ کیا۔ اس مقصد کے لئے میں نے چین کے قریبا دس دورے کیے جن کے دوران میں نے پراڈکٹ ریسرچ اور قیمت پر کام کیا۔ پھر میں نے اپنی پراڈکٹ کے متوقع خریداروں پر کام کیا کہ میں کہاں کہاں اپنی پراڈکٹ کو بیچ سکتا ہوں۔ خریداری سے بیچنے تک کے مراحل میں سمارٹ کھیلنے سے منافع کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔
سوال: ایمازون کیا ہے اور اس پر اچھی سیل کا فارمولا کیا ہے؟
جواب: ایمازون ایک ریٹیل ویب سائٹ ہے جس پر مختلف لوگ اپنی اپنی پراڈکٹس فروخت کر رہے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی بازار میں کوئی بھی دکاندار یا تاجر اپنا مال بیچتا ہے۔ اسی طرح آن لائن آپ اپنی دکان بنا لیتے ہیں۔ اس پر گاہک کو متوجہ کرتے ہیں۔ انہیں بتاتے ہیں کہ جو ان کو چاہیے وہ آپ کے پاس ہے۔ آپ کے گاہک پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پوری دنیا سے لوگ آپ سے رابطہ کرتے ہیں اور آپ ان کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ ایمازون کے ذریعے ادائیگی ہوتی ہے اور پیسے آپ تک پہنچ جاتے ہیں۔
ایمازون پر اچھی سیل کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی کیٹلاگ بنانے پر کام کریں۔ اس میں ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کریں۔ کسٹمرز کی ڈیمانڈ کیا ہے اس پر نظر رکھیں۔ اس ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ محنت کریں۔ کسٹمرز کو بتائیں کہ ان کے مسائل کا حل آپ کے پاس ہے کیوں کہ سیل اسی چیز کی زیادہ ہوتی ہے جو گاہک کی ضرورت پورا کرتی ہو۔ ایک بار آپ نے وہ چیز فروخت کرنا شروع کردی تو آپ کے پاس گاہک بڑھنا شروع ہو جائیں گے۔
سوال: ایمازون پر کام کرنے کا آپ کا تجربہ کیسارہا ہے؟
جواب: ہم دنیا بھر میں قریبا سات لاکھ پچاس ہزار سے زائد مصنوعات فروخت کرتے ہیں۔ ایمازون جم خانہ پاکستان کی سب سے بڑی کمپنی ہے جس کی سیل سب سے زیادہ ہے۔ ایمازون جم خانہ کے ساتھ اگر آپ کام کریں تو ہم آپ کے نقصان کی بھی ذمہ داری لیتے ہیں۔ تب تک اپنا منافع نہیں رکھتے جب تک جس کمپنی نے ہماری خدمات لی ہیں اس کو منافع نہ ہو جائے اور اس کی سیلز میں اضافہ نہ ہو۔ یہ گارنٹی کوئی اور نہیں دیتا۔
سوال: صدر پاکستان نے آپ کو ہیروز آف گوجرانوالہ کا خطاب دیا تو کیسا لگا؟
جواب: ہماری کمپنی کے لیے یہ ایک اعزاز کی بات ہے کیوں کہ ہماری کمپنی ایمازون جم خانہ کا ہیڈ آفس گوجرانوالہ میں ہے۔ وہاں پر ہم نے بے روزگاری کے خاتمے کے لیے اقدامات کئے۔ سولہ سو سے زائد نوجوانوں کو روزگار دیا۔ اسی وجہ سے صدر پاکستان نے ہمیں ہیروز آف گوجرانوالہ کا خطاب دیا جو ساری عمر کے لیے ہمارے لیے ایک اعزاز ہے۔ پیسے کمانا زندگی کا حصہ ہے اور آپ جو بھی کاروبار کریں پیسہ کما سکتے ہیں لیکن معاشرے میں باعزت نام بنانایہ میرے نزدیک بہت اہم ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں نے یوکے سے واپس آ کر پاکستان میں کام شروع کیا اور اپنے گائوں والوں کو خاص طور پر ساتھ لے کر چلا۔ اپنی جیب سے اخراجات کئے اور نقصان کی پروا نہیں کی۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں اپنی موجودہ زندگی اور کاروباری کامیابیوں سے مطمئن ہوں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں